مرزا اسد اللہ خان غالب پروفیسر ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد مرزا اسد اللہ خان غالب( ۱۷۹۷ء تا ۱۸۶۹ء)اُردو شاعری کے مجتہد اور مجدد ہیں ، انہوں نے اپنے فکری نظام اور فنی مہارت سے اُردو شاعری بالخصوص اُردو غزل کو وہ وقار اور اعتبار بخشا جس نے ’’ریختہ ‘‘کو ’’رشکِ فارسی ‘‘ بنا دیا: جو یہ کہے کہ ’ ریختہ‘ کیوں کر ہے رشکِ فارسی؟‘ گفتۂ غالب ایک بار پڑھ کے اُسے سُنا کہ ’یوں ‘ مرزا غالب کا منتخب دیوان صرف دو صد پینتیس غزلیات( بہ شمول فردیات) پر مشتمل ہے مگر فکر و فن کی ہُنر مندانہ آمیزش نے اس مختصر دیوان کو رفعت و عظمت کے اُس مقام پر پہنچا دیا جہاں ضخیم اور بھاری بھرکم دواوین کا گُزر نہیں۔ غالب نے حیات و کائنات کے مسائل کو اپنے مخصوص فلسفیانہ نقطۂ نظر سے دیکھا اور پھر انہیں تغزل کی چاشنی میں یوں گھُلا مِلا کر پیش کیا کہ فلسفہ شعر اور شعر فلسفہ کے ذائقے سے سرشار ہوا۔ غالب نے غزل کے تکنیکی عناصر کو ایک ایسی شان عطا کی جس نے غزل کے تکنیکی اُفق کو روشن اور اس کے فنی امکانات کو وسیع کر دیا۔ مرزا غالب اپنی افتادِ طبع کے اعتبار سے انفرادیت پسند تھے ، روشِ عام پر چلنا اُن کے مزاج کے خلاف تھا۔ اُن کے عہد میں سنگلاخ زمینوں، مشکل ردیفوں ، انوکھے قافیوں، صنائع و بدائع کے کثیر استعمال اور دیگر لسانی نزاکتوں کو شعر کی آبرو اور جان سمجھا جاتا تھا ۔ غالب نے اس جادۂ شعر کو قبول نہیں کیا۔ ان کی فطری مشکل پسندی اور مضمون آفرینی کو فارسی کے بے بدل شاعر مرزا عبدالقادر بیدل کا ’’ رنگِ بہار ایجادی‘‘ ( ۷۸) پسند آگیا اور انہوں نے اس رنگ کے اتباع سے اپنے لیے نیا راستہ بنانے کی کوشش کی ۔ بلند پروازی کی خواہش اور بیدل کے تتبع کے باعث اُن کا ابتدائی دور کا کلام اغراق کا شکار ہوا۔ انوکھی تشبیہات، مبہم استعارات، پیچیدہ تراکیب، غیر مانوس الفاظ اور فارسیت کے غلبے نے ان کے کلام کو بعید الفہم بنا ڈالا۔ منتخب دیوان میں اُس دور کا سارا کلام شامل نہیں تاہم کئی اشعار ایسے دکھائی دیتے ہیں جو اُس دور کے طرزِ سخن کے گواہ ہیں ،جیسی: شمارِ سجہ ، مرغوبِ بت ِ مشکل پسند آیا تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل پسند آیا بہ فیضِ بیدلی ، نومیدیِ جاوید آساں ہے کشائش کو ہمارا عقدۂ مشکل پسند آیا ہوائے سیرِ گُل آئینۂ بے مہریِ قاتل کہ اندازِ بخوں غلطیدنِ بسمل پسند آیا مذاقِ عام نے کلام کی اس پیچیدگی اور ابہام کو پسند نہیں کیا، غالب کا کلام ہدفِ تنقید بنا اور ان کی مہمل گوئی کا تذکرہ جا بہ جا ہونے لگا۔ میر تقی میر اور مرزا رفیع سودا کے طرزِ کلام سے ہٹ کر کسی نئی طرز کو قبول کرنا شعرائے دہلی کے مزاج کے خلاف تھا، مشاعروں میں چوٹیں ہونے لگیں۔حکیم مرزا جان عیش نے غزل میں قطعہ کہا جو دہلی کی ادبی محفلوں میں گونجنے لگا : اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے کلامِ میر سمجھے ا ور زبانِ میرزا سمجھے مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے مرزا غالب نے ’’ گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی‘‘ کہہ کر معترضین کو خاموش کرنے کی کوشش کی مگر رفتہ رفتہ وہ کود اس رنگِ سخن سے دور ہوتے چلے گئے۔ اس رنگِ سخن کی تبدیلی میں مولانا فضلِ حق خیر آبادی اور مفتی صدر الدین آزردہ کی صحبتوں کا بھی دخل ہے۔مشق و ممارست اور ذوقِ سلیم نے غالب پر یہ ظاہر کر دیا تھا کہ : طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا اسداللہ خاں قیامت ہے طرزِ بیدل میں غالب کی ناکامی کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر عبدالغنی رقم طراز ہیں: ’’غالب، بیدل کا تتبع کیوں کامیابی سے نہ کر سکے۔ یہ سوال بھی بڑا دل چسپ ہے۔ میرے خیال کے مطابق غالب نے بیدل کے رنگ میں غزل کہنا اُس وقت شروع کیا جب کہ وہ ابھی نو مشق تھے، فکر پختہ نہ تھی اور ان کی روح اُن تجارب سے نا آشنا تھی جو تصوف کی عملی زندگی بسر کرنے کی وجہ سے بیدل کو حاصل ہوئے تھے۔ علاوہ بریں علمی لحاظ سے بھی جو وسعت ِ نظر اور عمیق نگاہ بیدل کو میسر تھی، وہ غالب کے حصے میں نہ آئی اور پھر زمانے کے حالات بھی مختلف تھے جن سے بیدل ایک طرف تو فکری اور عملی لحاظ سے عظمت اور سربلندی کے علم بردار بنے اور دوسری طرف جہاں دار شاہ اور مغل امرا کی پستیِ فطرت کو دیکھ کر انہیں ایک حیات افروز انقلاب کا داعی بننا پڑا۔ غالب کے سامنے ایک از کار رفتہ،بے کار اور معطل معاشرہ تھا جس کی مایوس کن تباہ حالی کے زیرِ نظر غالب کو گوشۂ عافیت کی تلاش کے بغیر اور کُچھ سوجھتا ہی نہ تھا۔ ‘‘ (حالی سے ما قبل کی غزل پر ایک نظر:پروفیسر ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد غالب کی شاعری ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیا ل میں غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے غالب کے بارے میں عبادت بریلوی لکھتے ہیں، ”غالب زبان اور لہجے کے چابک دست فنکار ہیں۔ اردو روزمرہ اور محاورے کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس کی سادگی دل میں اتر جاتی ہے۔“ عبدالرحمن بجنوری لکھتے ہیں کہ، ”ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں ”وید مقدس“ اور ”دیوان غالب“ ۔“ اردو شاعری میں مرزا غالب کی حیثیت ایک ررخشاں ستارے کی سی ہے۔ انہوں نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونک دی ۔ اسے نئے نئے موضوعات بخشے اور اس میں ایک انقلابی لہر دوڑا دی۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات جا بجا ملتے ہیں۔ غالب ایک فلسفی ذہن کے مالک تھے۔ انہوں نے زندگی کو اپنے طور پر سمجھنے کی بھر پور کوشش کی اور ان کے تخیل کی بلندی اور شوخی فکرکا راز اس میں ہے کہ وہ انسانی زندگی کے نشیب و فراز کوشدت سے محسوس کرتے ہیں۔ غالب انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کا گہرا شعور رکھتے ہیں ۔ اس کے بنیادی معاملات و مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں۔ اس کی ان گنت گتھیوں کو سلجھا دیتے ہیں۔ انسان کو اس کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں اس کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھاتے ہیں ۔ اور نظام کائنات میں اس کونئے آسمانوں پر اڑاتے ہیں۔ غالب کی شاعری اس اعتبار سے بہت بلند ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ ان کی شاعر ی کے انہیں عناصر نے اُن کو عظمت سے ہمکنار کیا ہے۔ لیکن جس طرح ان کی شاعری میں ان سب کا اظہار و ابلاغ ہوا ہے۔ وہ بھی اس کو عظیم بنانے میں برابر کے شریک ہیں۔ غالب کی شاعری کا اثرحواس پر شدت سے ہوتا ہے وہ ان میں غیر شعوری طور پرایک ارتعاش کی سی کیفیت پیدا کرتی ہے اور اسی ارتعاش کی وجہ سے اس کے پڑھنے اور سننے والے کے ذہن پر اس قسم کی تصویریں ابھرتی ہیں ۔ ان کے موضوع میں جووسعتیں اور گہرائیاں ہیں اس کا عکس ان کے اظہار و ابلاغ میں بھی نظرآتا ہے۔ ان گنت عناصر کے امتزاج سے اس کی تشکیل ہوتی ہے۔ استدلالی انداز بیان غالب کی شاعری کی ایک نمایاں خصوصیت ان کا منطقی اور استدلالی انداز بیان ہے بقول پروفیسر اسلوب احمد انصاری: ”یعنی غالب صرف جذبات کا تجزیہ ہی نہیں کرتے بلکہ ان میں باہمی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔محبت ان کے لیے کوئی ایسا جذبہ نہیں جو فطری طریقے سے دلکش محاکات میں ڈھل جائے۔ بلکہ یہ ایک گرم تیز رو ہے جو پوری شخصیت کے اندر انقلاب پیدا کردیتی ہے۔ غالب صرف اشاروں سے کام نہیں لیتے بلکہ اپنے نرم و لطیف ، احساسات و کیفیات کا تجزیہ کرتے اور ان پر استدلال کرتے ہیں۔“ غالب کے اس اندازِبیان کو سمجھنے کے لئے یہ اشعار ملاحظہ ہوں کہ استدلال کا یہ انداز کس طرح شاعر کے جذبات و احساسات کی معنویت میں اضافہ کرتا ہے۔ ان آبلوں سے پائوں کے گھبرا گیا تھا میں جی خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر جب توقع ہی اٹھ گئی غالب کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا قول محال کا استعمال غالب نے قول محال کے استعمال سے بھی اپنی شاعری میں حسن و خوبی پیدا کی ہے۔ قول محال سے مراد یہ ہے کہ کسی حقیقت کا اظہار اسطرح کیا جائے کہ بظاہر مفہوم عام رائے کے الٹ معلوم ہو مگر غور کریں تو صحیح مفہوم واضح ہو۔ قول محال دراصل ایک طرف ذہنی ریاضت ہے۔ اس سے ایک طرف اگر شاعر کی قوت ِفکر کا انحصار ہوتا ہے تو دوسر ی طرف قار ی کو بھی ذہن و دماغ پر زور دینا پڑتا ہے۔ اس سے شاعر لطیف حقائق کی طرف اشارہ ہی نہیں کرتا بلکہ حیرت و استعجاب کی خوبصورت کیفیات بھی پیدا کرتا ہے۔ اس سلسلے میں غالب کے اشعار دیکھیں : ملنا تیر اگر نہیں آساں تو سہل ہے دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا تشکک پسندی غالب کی شاعری میں تشکک پسندی کا پہلو بہت اہم ہے۔ جو بحیثیت مجموعی غالب کی شاعری کے رگ و پے میں سرایت کئے ہوئے ہے۔ اس کی ایک وجہ غالب کا فلسفیانہ مزاج ہے ۔جبکہ دوسری وجہ غالب کاماحول ہے۔غالب نے جس دور میں آنکھ کھولی وہ ایک ہنگامی دور تھا۔ ایک طرف پرانی تہذیب مٹ رہی تھی اور اس کی جگہ جدید تہذیب اور تعلیم اپنی جڑیں مضبوط کررہی تھی۔ یوں انتشار اور آویزش کے اس دور میں اُن کی تشکک پسندی کو مزید تقویت ملی۔ ہیں آج کیو ں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب ہم بھی کیا یاد کر یں گے کہ خدا رکھتے تھے ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھاہے معانی دار پہلو حالی نے بڑے زور و شور کے ساتھ غالب کی شاعری کی اس خصوصیت کا ذکر کیا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ اس میں معانی کی مختلف سطحیں موجود ہیں ۔ غالب کے بہت سے اشعار ایسے ہیں۔ جن کی فلسفیانہ ،سیاسی اور شخصی تفسیر ہم کر بیک وقت کر سکتے ہیں۔ ایسے اشعار ان ترشے ہوئے ہیروں کی مانند ہیں جن کی آب وتاب اور خیرگی سے ہر زاویہ نگاہ سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک غالب کی کئی شرحیں لکھی جا چکی ہیں اور لکھی جا رہی ہیں۔ ابن مریم ہوا کرے کوئی میرے دکھ کی دوا کرے کوئی کوئی ویرانی سی ویرانی ہے دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا اُگ رہا ہے درو دیوار سے سبزہ غالب ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے رمز و ایمائیت غالب نے اپنی شاعری میں رمز و ایمائیت سے بھی حسن پیدا کیا ہے۔ انہوں نے زندگی کی بڑی بڑی حقیقتوں اور گہرے مطالب کو رمز و ایما کے پیرائے میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ انہوںنے اردو غزل کی روایت میں تصوف نے جو رمز و ایمائیت پیدا کی اسے اپنے لیے شمع راہ بنایا۔ یوں انہوں نے سیاسی او ر تہذیبی ، معاشرتی موضوعات کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا اور انفرادی رنگ کے پردے میں اجتماعی تجربات کی ترجمانی کی۔ اس طرح سے رمزیت اور ایمائیت کا رنگ ان کی شاعری پر غالب نظرآتا ہے۔ دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر کچھ تو پیغام زبانی اور ہے عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب دل کاکیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں لطافت خیال اور نکتہ آفرینی غالب کی شاعری میں نکتہ آفرینی پائی جاتی ہے غالب عام روش سے ہٹ کر چلنا پسند کرتے تھے ۔ شاعری میں بھی الگ روش پر چلنا پسند کرتے تھے ۔ انہوں نے لفظی سے زیادہ معنو ی نکتہ آفرینی پر زور دیا۔ اس طرح وہ مومن سے ممتاز اور برتر ہیں۔ ان کی نکتہ آفرینی سلاست ، گہرائی اور معنویت سے پر ہے۔ اس میدان میں غالب نے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے اس کی وضاحت اُن کے درج ذیل اشعار سے ہوتی ہے۔ بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا موئے آتش دیدہ ہے حلقہ میری زنجیر کا ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے زندگی کی محرومیاں غالب کی ذاتی بھی تلخیوں اور محرمیوں کی زنجیر ہے۔ بچپن میں باپ کی موت، چچا کی پرورش ، اُن کی شفقت سے محرومی، تیرہ سال کی ناپختہ عمر میںشادی کا بندھن ، بیوی کے مزاج کا شدید اختلاف ،قرضوں کا بوجھ۔ ان سب نے غالب کو زمانے کی قدرشناسی کا شاکی بنا دیا۔ چنانچہ ان محرومیوں کی تصویر بھی ان کی شاعری میں نمایاں خصوصیت کی حامل ہے۔ پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے کوئی دن گر زندگانی اور ہے اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے زندگی کا حقیقت پسندانہ تصور ان تمام تر محرمیوں کے باوجود غالب کا اندازِ فکر قنوطی نہیں۔ چنانچہ قدم قدم پر ان کے ہاں یہ احساس ہوتا ہے کہ زندگی خوشی کے ساتھ گزرے یا غموں کی گود میں بہرحال قابلِ قدر ہے۔ خود زندگی کا ہونا ہی بجائے خود ایک بڑی نعمت ہے ا س لیے ہر حال میں اسے غنیمت تصور کرنا چاہیے۔اس کا اعتراف غالب نے اپنے بعض خطوط میں بھی کیا ہے۔ غم سے بچنے کی غالب نے ایک صورت یہ بھی نکالی ہے کہ آدمی رند مشربی اور آزادی اختیار کر لے اور لذت و الم دونوں سے بے نیاز ہو جائے۔ نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانیے بے صدا ہوجائے گا یہ ساز ہستی ایک دن قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی طنز و مزاح شوخی وظرافت شوخی و ظرافت غالب کی شخصیت کا خاصہ ہے۔عملی زندگی میں وہ خوش باش انسان تھے۔ اسی لیے حالی انھیں حیوان ِ ظریف کہتے ہیں۔ انتہائی کٹھن حالات میں بھی وہ زندہ دلی کا دامن نہیں چھوڑتے ۔انہیں زمانے نے نجانے کتنے دکھ دیئے لیکن غالب پھر بھی ہنسے جاتے ہیں۔ان کی ظرافت میں محض شوخی ہی کام نہیں کر رہی ،جس طرح غالب کی شخصیت پہلو دار شخصیت ہے اسی طرح غالب کی ظرافت کی بھی متعدد سطحیںہیں۔ ان کی شاعری میں طنز و طرافت کے اعلی نمونے ملتے ہیں۔ غالب کے کچھ طنزیہ اشعار ملاحظہ ہوں : ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے کیا وہ نمرود کی خدائی تھی بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا چاہتے ہیں خوب رویوں کو اسد آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے جانتا ہوں ثواب طاعت وزہد پر طبیعت ادھر نہیں آتی زندہ دلی اور خوش طبعی غالب کی شاعر ی میں طنز یہ اشعار کے ساتھ ساتھ شوخی اور خوشدلی کا پہلو بھی بڑا نمایاں ہے۔ چنانچہ ان کے ہاں ایسے اشعار بھی بہت ہیں جنہیں خالص مزاح کا نمونہ کہا جاسکتا ہے۔ اصل میں غالب زندگی کی چھوٹی چھوٹی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتے تھے۔ اگرچہ وہ زندگی کی تلخیوں سے آگاہہیں لیکن انہیں زندگی سے والہانہ لگائو بھی ہے۔ غالب ایک فلسفی شاعر تھے۔ انہوں نے زندگی کو سمجھنے کی کوشش کی اور پھر اپنے انکشافات کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کر دیا۔ غالب کے کچھ مزاح سے پھرپور اشعار ملاحظہ ہوں : در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا کہاں مے خانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے پیکر تراشی اور تصویر کاری:۔ غالب کی شاعری میں پیکر تراشی کا عمل جاندار ہے۔ اور بقول ڈاکٹر عبادت بریلوی، ”غالب کی شاعری میں جو پیکر اور تصویریں ملتی ہیں۔ وہ ان کے ساسی معاشرتی ، تہذیبی حالات، نجی معاملات اور ان کے زیر اثر پرورش پانے والی ذہنی کیفیات کا آئینہ دار ہیں۔ غالب ایک تہذیب کی پیداوار اور ایک تہذیبی روایت کے علمبردار ہیں۔ ۔۔اگرچہ یہ تہذیب مٹ رہی تھی لیکن زوال کے احساس نے اس کی عظمت کے احساس کو بھی بڑھا دیا۔ چنانچہ غالب کی تصویر کاری اور پیکر تراشی میں بھی اس تہذیبی روایت کا اثر مختلف انداز میں خود بخود ظاہر ہوتا ہے۔ اس دور کی بزم ہائے نشاط کی تصویریں غالب کے ہاں بہت خوبصورت اور جاندار ہیں : ہم سے کھل جائو بوقت مے پرستی ایک دن ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عذر ِ مستی ایک دن قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آگیا سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگ جاں ہوگئیں فارسی زبان کے اثرات غالب کو فارسی زبان پر بڑا عبور حاصل تھا۔ اس لئے ان کی شاعری میں فارسی زبان کے اثرات زیادہ ہیں ۔ خود فارسی شاعری کے بلند پایہ شاعر بھی تھے ۔ اور فارسی کو اردو سے زیادہ اہمیت دیتے تھے۔چنانچہ فارسی زبان کے اثر سے ان کی زبان میں شیرینی حلاوت اور شگفتگی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ انہوں نے فارسی الفاظ استعمال کرکے اور ان کی ترکیبیں تراش کر نہ صرف اردو زبان کے دامن کو وسیع کیا بلکہ اپنی شاعری میں بھی ایک نکھار اور رعنائی پیدا کر لی۔یہ اشعار ملاحظہ ہوں : یا د تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں لیکن اب نقش و نگار ِ طاق نسیاں ہوگئیں بس ہجوم ناامیدی خاک میں مل جائے گی یہ جو اک لذت ہماری سعی لاحاصل میں ہے سادہ انداز بیان مشکل الفا ظ و تراکیب کے ساتھ ساتھ غالب کے ہاں آسان زبان بھی موجود ہے۔غالب نے پیچیدہ مسائل کے اظہار میں عموماً فارسی ترکیبوں سے کام لیا ہے اور سنجیدہ مضامین کے لیے الفاظ کا انتخاب بھی اسی مناسبت سے کیا ہے۔ لیکن سیدھے سادے اور ہلکے پھلکے مضامین کو غالب نے فارسی کا سہار ا لیے بغیر رواں دواں اور سلیس اردو میں پیش کیا ہے۔ زبان کی سادگی ان اشعار کی معنوی قدرو قیمت پر کوئی بڑا اثر نہیں ڈالتی بلکہ ان کے حسن میں اضافہ کرتی ہے۔ کیونکہ یہ سادگی شعری تجربے سے ہم آہنگ ہے۔ اس سلسلے میں یہ اشعار ملاحظہ ہوں : میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالب مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی آئے ہے بےکسی عشق پہ رونا غالب کس کے گھر جائے گا سیلاب ِ بلا میر ے بعد فارسی اور اردو کا حسین امتزاج غالب نے فارسی اور اردوکے امتزاج سے بھی اپنے فن کو نکھارا ہے۔غالب نے فارسی کی شیرینی کو ہندی کی گھلاوٹ سے اس طرح ملا دیا ہے کہ ان کی زبان میں ایک گنگا جمنی رنگ پیدا ہو گیا ہے۔ غالب کے ایسے کلام میں فارسی اثرات زیادہ ہیں۔ جہاں زندگی کے رنگین پہلوئوں کا بیان آیا ہے۔ انہوں نے رومانوی مضامین کے لیے خصوصاً فارسی کی آمیزش کی ہے لیکن فارسی اور ہندی روایتوں کا ملاپ ان کے ایسے اشعار میں نسبتاً زیادہ ہے جہاںانہوں نے قلبی واردات کو پیش کیا ہے اس لیے ایسے اشعار میں ایک گداز کی کیفیت ملتی ہے۔ آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں صوتی آہنگ غالب کی شاعری میں صوتی آہنگ بھی قابل تعریف ہے۔ انہوں نے الفاظ کے انتخاب میں بڑی فنکاری کا ثبوت دیا ہے۔ اور ان سے وہ موسیقیت اور نغمگی پیدا کی ہے جو پڑھنے والے کومسحور کر دیتی ہے۔ غالب مختلف الفاظ کو ملا کر ایک مترنم کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔ وہ منفر د الفاظ کی نغمگی اور موسیقیت کا بھی گہرا شعور رکھتے ہیں اور انہوں نے تجربات کے اظہار کے لیے موضوع کی مناسبت سے ان الفاظ کے انتخاب میں بھی بڑے فن کارانہ شعور کا اظہار کیا ہے۔ تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا اسے تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے غم عشق گر نہ ہوتا غم روز گار ہوتا ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا تشبیہ و استعارہ کا حسن غالب کی شاعری کی ایک اور اہم خصوصیت خوبصورت تشبیہات و استعارات کا استعمال ہے۔مرزا اپنی انفرادیت پسند طبع کے تحت قدیم روایتی استعارات کی بجائے جدید اور دلکش تشبیہات استعمال کرتے ہیں۔ مولانا حالی نے اس کی وجہ اُن کے خیالات کی جدت قرار دیا ہے۔ یہ بات بڑی واضح ہے کہ جب خیال جدید اور اچھوتا ہوگا تو اس کے لیے تشبیہ میں بھی لازمی جدت ہوگی۔اسی طرح شیخ اکرام نے ان کو ”تشبےہات کا بادشاہ “ قرار دیا ہے۔ مثلاً دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا سبزہ خط سے ترا کاکل ِ سرکش نہ دبا یہ زمرد بھی حریف ِ دم افعی نہ ہوا دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک جوۓ خون آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق مین يہ سمجھوں گا کہ شمعين دو فروزاں ہو گئیں جدت ادا غالب ذہنی اور طبعی اعتبار سے انفرادیت پسند تھے ۔ کسی کی تقلید کرنا پسند نہیں کرتے تھے ۔ وہ وبائے عام میں بھی مرنا نہیں چاہتے تھے۔ غالب کی یہی جدت ادا ان کی شاعری میں نئے نئے گھل کھلاتی ہے۔ مرزا سے پہلے تمام شعراءکا طریقہ شعر گوئی یہ رہا کہ وہ قدیم خیالات میں کچھ ترمیم کرکے پیش کر دیتے تھے۔ لیکن غالب کے ہاں ایسا نہیں۔اُن کی جدت طبع اور انفرادیت پسندی ہمیشہ نئے نئے خیال ڈھونڈ نے پر مجبور کرتی رہی۔ چنانچہ اُن کی شاعری میں ہمیںرنگا رنگی اور بوقلمونی محسوس ہوتی ہے۔ اگر کبھی مرزا نے کسی قدیم خیال کو ادا بھی کیا ہے تو اس انداز میں کہ شانِ استادی کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے بسکہ دشوار ہے ہرکام کا آساں ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا تصوف غالب کوئی باقاعدہ صوفی شاعر نہ تھے اور نہ اُن کو تصوف سے دلچسپی تھی لیکن پھر بھی ان کی شاعری میں بعض مقامات پر تصوف کے عناصر ملتے ہیں جس کی بنیادی وجہ فارسی شاعری میں تصوف کی روایت کی موجودگی ہے اس کے علاوہ اس دور کے حالات بھی تصوف کے لیے خاص طور پر سازگار تھے۔ طبیعتیں بھی غم و الم اور فرار کی طرف مائل تھیں۔ لیکن غالب نے تصوف کو محض رسمی طور پر ہی قبول کیا۔ جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے اُسے کون دیکھ سکتا وہ یگانہ ہے وہ یکتا جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیاہوتا غالب کا تصور عشق غالب کے ہاں حسن و عشق کے تصورات اگرچہ وہی ہیں جو صدیوں سے اردو اور فارسی شاعری میں اظہار پاتے رہے ہیں ۔ تاہم غالب کی فطری جدت پسندی نے ان کو صرف انہی موضوعات تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے ذاتی تجربات و محسوسات کی روشنی میں حسن و عشق کے بارے میں انہوں نے اپنی انفرادیت قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ غالب عشق کی اہمیت کے اس قدر قائل ہیں کہ وہ اس کے بغیر انجمن ہستی کو بے رونق سمجھتے ہیں مثلاً وہ کہتے ہیں کہ رونق ہستی ہے عشق خانہ ویراں ساز سے انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں غالب کو اس بات کا بڑا قلق ہے کہ وہ عشق کی بزم آرائی تو عمر بھر کرتے رہے لیکن عشق کی راہ میں حقیقی قربانی ایک بھی نہ دے سکے اور وہ غالباً اس لئے کہ ان کے پاس عشق کے حضور میں پیش کرنے کے لئے کچھ بھی نہ تھا۔فرماتے ہیں کہ ہوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ سوائے حسرت تعمیرگھر میں خاک نہیں غالب عشق کے پرانے افلاطونی تصور کو بھی تسلیم نہیں کرتے ۔ بلکہ اس کے برخلاف ان کا عشق زمینی اوصاف کا حامل ہے۔ خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار کیا پوجتا ہوں اس بت بیداد گر کو میں غالب کے ہاں عشق کی روایتی عاجزی اور مسکینی کے برخلاف ایک جارحانہ انداز پایا جاتا ہے ۔ ایک خاص مقام اور مخصوص شان ہے۔ وہ سوتے ہوئے محبوب کے پائوں کا بوسہ محض اس لیے نہیں لیتے کہ وہ بدگماں نہ ہو جائے۔ وہ ناراض محبوب کو مناتے بھی نہیں کہ یوں ان کی سبکسری کا پہلو نکل سکتا ہے۔ وہ بزم میں نہیں بلاتا تو یہ راہ میں نہیں ملتے اور جب وہ عجز و نیاز سے رہ پر نہیں آتے تو اس کے دامن کو حریفانہ کھینچنے کی جرات رندانہ بھی کر لیتے ہیں۔ لے تو لوں سوتے میں اُس کے پائوں کا بوسہ مگر ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہو جائے گا عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر دامن کو اس کے آج حریفانہ کھنچئے غالب کا تصور حسن یا تصور محبوب حسن کے بارے میں غالب کے تصورات کا سراغ لگانے کے لئے اُن کے محبوب کی تصویر دیکھنا ہوگی اس لئے کہ ان کے محبوب کی ذات میں وہ تمام خصوصیات جمع ہوگئیں ہیں۔ایک طرف تو غالب نے روایتی تصوارت سے استفادہ کیا ہے۔ اور دوسری جانب بعض ایسی باتیں کہی ہیں جو قدیم تصورات سے مختلف ہیں۔ ان کے خیال میں حسن میں سادگی و پرکاری دونوں ہونے چاہئیں۔غالب کو دراز قد ، دراز زلف ، شوخ و شنگ، سادہ و پرکار، شان محبوبی کا مالک ، لمبی لمبی پلکوں والا۔ چاند چہرے کا مالک، ستارہ آنکھوں والا محبوب پسند ہے اور وہ اسی کے حسن کے قصیدے گاتے ہیں۔ سادگی و پرکاری ، بے خودی و ہشیاری حسن کوتغافل میں جرا ت آزما پایا اس نزاکت کا برا ہو وہ بھلے ہیں تو کیا ہاتھ آئیں تو انہیں ہاتھ لگائے نہ بنے جال جیسے کڑی کمان کا تیر دل میں ایسے کے جاکرے کوئی مجموعی جائزہ ڈاکٹر فرمان فتح پور ی لکھتے ہیں کہ، "غالب کے اقوال و بیانات کے سلسلے میں خصوصاً محتاط رہنے کی ضرورت ہے اس لئے کہ وہ بنوٹ باز شاعر ہیں قدم قدم پر پنتیر ے بدلتے ہیں اور اپنی خوداری اور انانیت کے باوصف مصلحت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔" عبادت بریلوی لکھتے ہیں کہ ” غالب ایک بڑی رنگین ایک بڑی ہی پر کار اور پہلو دار شخصیت رکھتے تھے اور اس رنگینی ، پر کاری اور پہلو داری کی جھلک ان کی ایک ایک بات میں نظرآتی ہے۔ “ بقول رشید احمد صدیقی، ”مجھ سے اگر پوچھا جائے کہ ہندوستان کو مغلیہ سلطنت نے کیا دیا ۔ تو میں بے تکلف یہ تین نا م لوں گا غالب اردو اور تاج محل۔“ بقول ڈاکٹر محمد حسن، ”دیوان ِ غالب کو ہم نئی نسل کی انجیل قرار دے سکتے ہیں۔“ بقول ڈاکٹر عبادت بریلوی، ”اردو میں پہلی بھرپور اور رنگارنگ شخصیت غالب کی ہے۔“ ایک اور جگہ لکھتے ہیں، ”غالب کی بڑائی اس میں ہے کہ انہوں نے متنوع موضوعات کو غزل کے سانچے میں ڈھالاہے۔“ مرزا اسد اللہ خان غالب مرزا غالب(1797-1869)اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کاا صل کمال یہ ہے کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے ہیں اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے ہیں۔غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔غالباًً ً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ خاں تھا۔ باپ کا نام عبداللہ بیگ تھا ۔ آپ دسمبر 1797ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہو گئے۔ نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا۔ 1810ءمیں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراءبیگم سے ہو گئی شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے ۔ اس دوران میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ور قرض کا بوجھ مزید بڑھنے لگا۔ آخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی اور 1850ءمیں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا ، اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50روپے ماہور مرزا کا وظیفہ مقرر ہوا۔ غدر کے بعد مرزا کی سرکاری پنشن بھی بند ہو گئی ۔ چنانچہ انقلاب 1857ءکے بعد مرزا نے نواب یوسف علی خاں والی رامپور کو امداد کے لیے لکھا انہوں نے سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا جو مرزا کو تادم حیات ملتا رہا۔ کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہو گئی مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869ء کو انتقال فرمایا ’’آئین اکبری‘‘ کی منظوم تقریظ 1855 میں سرسید نے اکبر اعظم کے زمانے کی مشہور تصنیف ’’آئین اکبری‘‘ کی تصیح کرکے اسے دوبارہ شائع کیا۔ مرزا غالب نے اس پر فارسی میں ایک منظوم تقریظ (تعارف) لکھا ۔ اس میں انہو ں نے سر سید کو سمجھایا کہ ’’مردہ پرورن مبارک کارِنیست‘‘ یعنی مردہ پرستی اچھا شغل نہیں بلکہ انہیں انگریزوں سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح فطرت کی طاقتوں کو مسخرکرکے اپنے اجداد سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ انہوں نے اس پوری تقریظ میں انگریزوں کی ثقافت کی تعریف میں کچھ نہیں کہا بلکہ ان کی سائنسی دریافتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مختلف مثالوں سے یہ بتایا ہے کہ یہی ان کی ترقی کا راز ہے۔ غالب نے ایک ایسے پہلو سے مسلمانوں کی رہنمائی کی تھی ، جو اگر مسلمان اختیار کرلیتے تو آج دنیا کی عظیم ترین قوتوں میں ان کا شمار ہوتا۔مگر بدقسمتی سے لوگوں نے شاعری میں ان کے کمالات اور نثر پر ان کے احسانات کو تو لیا ،مگر قومی معاملات میں ان کی رہنمائی کو نظر انداز کردیا۔ غالب اور علی گڑھ دیار علی گڑھ اپنے جغرافیائی محل و وقوع کے اعتبار سے مرزا غالب کے مولد اکبر آباد اور مسکن و مدفن دہلی کے درمیان آباد وہ قدیم شہر ہے جو تاریخ میں عرصہ دراز تک ”کول“کے نام سے مشہور رہ کر مغل حکمراں بابر کے ایک ماتحت عہدیدار محمدعلی جنگ جنگ (فاتح کول)کے دور میں علی گڑھ کے نام سے موسوم ہوا تھا ۱مگر عہدغالب میں بھی دیار علی گڑھ کو اس کے قدیم نام ’کول‘ سے یاد کئے جانے کی روایت جاری رہی تھی غالب نے اپنے متعدد اردو خطوط میں اس شہر کو علی گڑھ اور ”کول“ دونوں ہی ناموں سے یاد کیا ہے۔ غالب کے مولد و مدفن سے دیار علی گڑھ کے محل وقوع کی قربت غالب اور علی گڑھ کے درمیان ایک وابستگی کی بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے . علی گڑھ تحریک کے بانی سر سید احمد خاں اور اقلیم شعر و ادب کے قد آور سخن ور مرزا اسد اللہ خاں غالب کے درمیان تعلق کے جن رشتوں کا سراغ ملتا ہے اس مقالے میں سب سے پہلے انہیں پر روشنی ڈالنا مناسب ہوگا۔ غالب اور سر سید کے صحیفہ حیات کے مطالعے سے اس دلچسپ اتفاق کا انکشاف ہوتا ہے کہ جس طرح سید احمد خاں کا مولد دہلی غالب کا مسکن رہا تھا اسی طرح غالب کا مولد آگرہ بھی چند سال تک سید احمد خاں کا مسکن بنا تھا۔ گویا ان دونوں ہم عصر مشاہیر میں سے ایک کا مولد دوسرے کا مسکن رہاہے۔ تنخواہ اور پنشن کے سلسلے میں دونوں معاصرین کے احوال میں اشتراک کا یہ دلچسپ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ غالب انگریزی حکومت سے پنشن اور مغل دربار سے تنخواہ پایا کرتے تھے۔ سید احمد خاں کو مغل دربار سے خاندانی پنشن اور انگریزی حکومت سے تنخواہ ملتی رہی تھی۔ مرزا غالب (متولد ۷۲دسمبر ۷۹۷۱ئ)سید احمد خاں (ولادت ۷۱ اکتوبر ۷۱۸۱ئ)سے عمر میں کم و بیش بیس سال بڑے تھے۔ غالب اپنی شادی (۷۱رجب ۵۲۲۱ھ مطابق شنبہ ۸۱ اگست ۰۱۸۱ئ)کے دو تین سال بعد تقریباًًً ۳۱، ۲۱۸۱ءمیں اپنے مولد اکبر آباد کو خیر باد کہہ کر دہلی منتقل ہوئے تھے اور غالب کے ورود دہلی کے چار پانچ سال بعدسید احمد خاں کی ولادت ۷۱اکتوبر ۷۱۸۱ء کو دہلی میں ہوئی تھی ۔ غالب اور سید احمد خاں کے سن وسال میں بیس برس کے اس تفاوت کے باعث ان دونوں ہم عصروں میں برابر کے دوستانہ روابط تو نہ قائم ہوسکے لیکن دہلی کے ایک ہی دیار میں دونوں کا برسوں تک قیام دونوں میں باہمی شناسائی اور قربت کا سبب ضرور بنا تھا۔ حیات جاوید[4] میں شاگرد غالب مولانا حالی راوی ہیں کہ سید احمد خاں مرزا غالب کو چچا کہتے تھے اور مرزا بھی سید صاحب پر بزرگانہ شفقت فرمایا کرتے تھے حیات جاوید[5] میں مولانا حالی نے یہ بھی لکھا ہے کہ سید احمد خاں اپنے علمی ذوق کی تسکین و تکمیل کےلئے اٹھارہ انیس سال کے سن میں (۶۳۔۵۳۸۱ئ) کے آس پاس دہلی کے جن عالموں کی صحبت سے فیضیاب ہوتے رہتے تھے ان میں غالب بھی شامل تھے۔ فروری ۹۳۸۱ء سے سرسید احمد خاں انگریزی حکومت میں اپنی ملازمت کے باعث دہلی سے نکل کر زیادہ تر مختلف مقامات پر رہنے لگے اور دہلی میںانہیں مستقل قیام کا موقع کم ہی مل سکا تھا.[6] ان حالات کے پیش نظر دہلی میں غالب سے سید احمد خاں کی ملاقات کے مواقع کم ہی رہے ہوں گے لیکن غالب اور سیداحمدخاں کے ادبی آثار میںایسے متعدد شواہد دستیاب ہوتے ہیں جن سے ان دونوں ہم عصروں میں باہمی تعلقات کا اظہار ہوتا ہے۔ مرزا غالب کا اردو دیوان پہلی بار سید احمد خاں کے بڑے بھائی سید محمد خاں کے مطبع واقع دہلی سے شعبان ۷۵۲۱ھ مطابق اکتوبر ۱۴۸۱ءمیں شائع ہوا تھا ۔۵ ان دونوں کے درمیان تعلقات کی تصدیق سید احمد خاں کے نام غالب کے اس نودریافت فارسی خط سے بھی ہوتی ہے۔ جو ۰۱جنوری ۲۴۸۱ءکے بعد مگر ۳۱دسمبر ۵۴۸۱ءسے قبل اس زمانے میں لکھا گیا تھا جب سید احمد خاں فتح پور سیکری (ضلع آگرہ) کے منصف تھے۔ غالب کا ایک نو دریافت فارسی خط کتاب تلاش غالب میں موجود ہے۔ اور اس کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ خط در اصل غالب کے نام سید احمد خاں کے ایک خط کا جواب ہے۔ غالب کا یہ خط اور اس میں سید احمد خاں کے مکتوب کا حوالہ غالب اور سید احمد خاں کے درمیان مکاتبت کے رشتے کا بھی انکشاف کرتا ہے اس خط میں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ غالب نے اس خط کے ہمراہ سید احمد خاں کو اپنی ایک نعتیہ مثنوی بھی نقل کرکے ارسال کی تھی۔ غالب نے مکتوب الیہ کے بڑے بھائی کو آخر میںسلام لکھ کراس خط کو تمام کیا ہے۔ سید احمد خاں کے بڑے بھائی سید محمد خاں ۳۱ذی الحجہ ۱۶۲۱ھ مطابق ۳۱دسمبر ۵۴۸۱ءکو دہلی میں فوت ہوئے تھے لہٰذا سید احمد خاں کے نام غالب کایہ فارسی خط ۳۱دسمبر ۵۴۸۱ء سے قبل لکھا گیا ہوگا۔ سید احمد خاں مرزا غالب سے غیر معمولی عقیدت رکھتے تھے۔ سید صاحب کی کتاب آثار الصنادید کے ۷۴۸۱ءکے پہلے ایڈیشن کے چوتھے باب میں ذکر بلبل نوایان سواد جنت آباد حضرت شاہ جہاں آباد کے عنوان کے تحت دہلی کے جن متعدد شاعروں کا حال ملتا ہے ان میں سر فہرست خاصی مدح و تعریف کے ساتھ غالب کے مفصل احوال اور ادبی آثار کو جگہ دی گئی ہے۔ اس کتاب میں ذکر غالب کے ضمن میں سید احمد خاں نے غالب سے اپنے عقیدت مندانہ گہرے روابط کا حالان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ : ”ان (غالب)کی نعمت تربیت کا راقم آثم (سید احمد خاں) کو جو ان کی خدمت میں ہے، اس کا بیان نہ قدرت تقدیر میں ہے اور نہ احاطہ تحریر میںآسکتا ہے اور چوں کہ ”دلہا بدلہا باشد“ ان حضرت کو بھی وہ شغف تھا راقم کے حال ہے کہ شاید اپنے بزرگوں کی طرف سے کئی مرتبہ اس کا مشاہدہ کیا ہوگا میں اپنے اعتقاد میں ان کے ایک حرف کو بہتر ایک کتاب سے اور ان کے ایک گل کو بہتر ایک گلزار سے جانتا ہوں۔“ غالب کے ادبی آثار میں سید احمد خاں کی مرتب کردہ فارسی کتاب آئین اکبری (سنہ اشاعت ۲۷۲۱ھ مطابق ۵۵۸۱ئ)پر بشکل مثنوی ایک منظوم فارسی تقریظ بھی موجود ہے۔ اڑتیس اشعار کی یہ مثنوی کلیات غالب طبع ۳۶۸۱ءمیں شامل ہے۔ اس مثنوی میں غالب نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ آئین اکبری جیسی تقویم پارینہ کتاب پر محنت کرنے کے بجائے انگریزوں کے آئین حکومت پر توجہ دینا بہتر ہوگا۔ اپنی مرتب کردہ کتاب آئین اکبری کے خلاف غالب کی یہ تقریظ سید احمد خاں کو ناپسند ہوئی اور انہوں نے اسے کتاب میں شائع نہیں کی۔ ۲۷۲۱ھ/۵۵۸۱ءکے آس پاس کا یہ ناخوش گوار واقعہ غالب اور سید احمد خاں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی و بد مزگی کا سبب بنا تھا.[8] آئین اکبری پر غالب کی مخالفانہ تقریظ کی واپسی کے سلسلے میں سید احمد خاں نے غالب کے نام جو خط لکھا تھا وہ تو اب ناپید ہے لیکن حیات جاوید (ص ص ۲۷ تا ۳۷)میں اس ناخوشگوار واقعے کے متعلق مولانا حالی کے بیان کی شہادت سید احمد خاں اور غالب کے درمیان مکاتبت کے اس رشتے کی نشان دہی ضرور کرتی ہے جس کے ثبوت سطور گذشتہ میں پہلے بھی پیش کئے جاچکے ہیں۔ آئین اکبری کے متعلق غالب کی یہ مخالفانہ تقریظ اس لحاظ سے بھی ہمارے نزدیک ایک بعید از انصاف بات ثابت ہوتی ہے کہ غالب اس واقعے سے کچھ عرصہ قبل خود مہر نیم روز کے عنوان سے سلطنت مغلیہ کی تاریخ لکھ چکے تھے۔ مہر نیم روز کی پہلی اشاعت ۲ربیع الاول ۱۷۲۱ھ مطابق جمعہ ۳۲نومبر ۴۵۸۱ءکو منظر عام پر آئی تھی جو اکبر اعظم کے والد مغل حکمراں نصیر الدین ہمایوں تک کی سلطنت مغلیہ کی تاریخ پر مشتمل ہے ۔ ان حقائق کے پیش نظر سلطنت مغلیہ کی تاریخ سے متعلق جس کام کو وہ خود انجام دے چکے تھے اس کی سر انجام دہی پر غالب کا سید احمد خاں کو روکنا کہاں تک جائز تھا۔ ؟ ہمارے خیال میں یہ سوال قابل غور ضرور ہے۔ سید احمد خاں کی مرتب کردہ کتاب آئین اکبری کے متعلق غالب کی تقریظ سے ان دونوں ہم عصر مشاہیر کے درمیان ۵۵۸۱ءکے آس پاس پیدا ہوجانے والی یہ دوری یوں دورہوئی کہ مرزا غالب جب سفر رامپور سے دہلی واپس ہورہے تھے تو وہ راہ میں چند روز کے لئے مراد آبادکی سرائے میں ٹھہرے۔ سید احمد خاں اس زمانے میں مراد آباد ہی میں صدر الصدور تھے۔ سید صاحب غالب کو سرائے سے اپنے مکان لے آئے اور انہوں نے اپنے مکان پر غالب کی خاطر خواہ خاطرمدارات کرکے ان سے اپنے روابط دوبارہ استوار کر لئے۔ حالی کا بیان ہے کہ غالب نے یہ سفر والی ِ رام پور نواب یوسف علی خاں کے زمانے میں کیا تھا ۴۱ ہماری معلومات کے مطابق نواب یوسف علی خاں کے دور میں غالب کے قیام رام پور کازمانہ ۷۲جنوری ۰۶۸۱ءسے ۷۱مارچ ۰۶۸۱ءتک کی درمیانی مدت کو محیط رہا تھا اور وہ ۷۱مارچ سے ۴۲مارچ ۰۶۸۱ءکی درمیانی تاریخوں کے دوران مراد آباد میں سید احمد خان کے مکان پر ایک آدھ روز مہمان رہے تھے۔ غالب اور سید احمد خاں کے درمیان ذاتی نوعیت کے یہ روابط ہمارے غالب اور علی گڑھ کے سلسلے میں پس منظر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غالب کے عزیزوں ، کرم فرماﺅں ، شاگردوں اور عقیدت مندوں کی فہرست میں ایسے متعدد افراد کے نام ملتے ہیں جن کے روابط سید احمد خاں سے بھی ثابت ہوتے ہیں ان دونوں ہم عصر مشاہیر کے مشترک مربیوں اور رفیقوں وغیرہ کی جامع و مکمل فہرست جس محنت و فرصت کی طالب ہے اس کے لئے سر دست ہمارے پاس وقت نہیں ۔ہم غالب و سید احمد خاں کے دائرہ تعارف و تاثر میں شامل صرف ان چند افراد کے مختصر ذکر پر اکتفا کرتے ہیں جن کا حوالہ ان دونوں مشاہیر کے احوال یا ادبی آثار وغیرہ میں ہماری نظر سے گزرا ہے۔ سید محمد خاں سید محمد خاں (متوفی ۳۱ذی الحجہ ۱۶۲۱ھ مطابق ۳۱دسمبر ۵۴۸۱ئ) سید احمد خاں کے حقیقی بڑے بھائی تھے۔ سید محمد خاں نے سید الاخبار کے نام سے دہلی سے ایک ہفتہ وار اخبار نکالا تھا جس میں سید احمد خاں کے مضامین بھی چھپا کرتے تھے۔ یہ اخبار جس پریس سے شائع ہوتاتھا اس کے یہ دو نام ملتے ہیں: (۱)لیتھو گرافک پریس دہلی. (۲)مطبع سید الاخبار دہلی . سید الاخبار کے لیتھو گرافک پریس دہلی سے غالب کا اردو دیوان ان کی زندگی کے دوران پہلی بار شعبان ۷۵۲۱ھ مطابق اکتوبر ۱۴۸۱ءمیں چھپا تھا۔ غالب شاید اسی لئے سید محمد خاں اور ان کے سید الاخبار کو عزیز رکھتے تھے ۔سید الاخبار اور سید محمد خاں کے متعلق غالب نے میجر جان کوب کو اپنے ایک فارسی خط میں جو کچھ لکھا ہے اس کا اردو مفہوم پیش کیا جاتا ہے۔ ”سید الاخبار کے بارے میں آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ منت مزید ہے مطبع سید الاخبار کے مالک جو میرے دوست ہیں میراکلام چھاپ رہے ہیں۔ دیوان اردو غالباً ایک مہینے کے اندر چھپ کر نظر عالی سے گزرے گا۔ سید الاخبار ہر ہفتے آپ کی خدمت میں پہونچتا رہے گا مطبع والوں نے میری آپ سے نیاز مندی کی بنا پر آپ کا نام نامی سر فہرست خریداران رکھا ہے۔ “ مطبع سید الاخبار سے غالب کے اردو دیوان کے علاوہ خودسید احمد خاں کی بھی بعض کتب شائع ہوئی تھیں۔ جن میںآثار الصنادید طبع اول (مطبوعہ ۷۴۸۱ءبھی شامل ہے (بہ حوالہ آثار الصنادید سید احمد خاں مرتبہ خلیق انجم جلد اول اردو اکادمی دہلی طبع ۰۹۹۱ءص ۷۵۱) غالب کے خطوط 'مرزا اسد اللہ خان غالب' کی شخصیت کو کون نہیں جانتا ۔ ہمارے ملک میں تو یہ عالم ہے کہ اگر کسی کو تھوڑی بہت اردو کی سوجھ بوجھ ہے تو غالب کے نام کو تو ضرور جانتا ہوگا۔ بحیثیت شاعر وہ اتنے مقبول ہیں کہ اُن کے اشعار زبان ذد خلائق ہیں۔ اور بحیثیت نثر نگار بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ بلکہ اس لحاظ سے ان کا پایہ سب سے بلند ہے کہ ایسے زمانے میں جب رنگینی و قافیہ پیمائی ، انشاءپردازی کا اصل سرمایہ سمجھی جاتی تھی۔ انہوں نے نثر میں بھی ایک نئی راہ نکالی ۔ سادہ و پرکار، حسین و رنگین ۔ یہی نمونہ نثر آنے والوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئے ۔ انہوں نے اپنے خطوط کے ذریعہ سے اردو نثر میں ایک نئے موڑ کا اضافہ کیا۔ اور آنے والے مصنفین کو طرز تحریر میں سلاست روانی اور برجستگی سکھائی ۔ البتہ مرزا غالب کے مخصوص اسلوب کو آج تک ان کی طرح کوئی نہ نبھا سکا۔ غالب کے خطوط آج بھی ندرت کلام کا بہترین نمونہ ہیں۔ غالب نے فرسودہ روایات کو ٹھوکر مار کر وہ جدتیں پیدا کیں جنہوں نے اردو خطو ط نویسی کو فرسودہ راستے سے ہٹا کر فنی معراج پر پہنچا دیا۔ غالب کے خطوط میں تین بڑی خصوصیات پائی جاتی ہیں اول یہ کہ انہوں پرتکلف خطوط نویسی کے مقابلے میں بے تکلف خطوط نویسی شروع کی۔ دوسری یہ کہ انہوں نے خطوط نویسی میں اسٹائل اور طریق اظہار کے مختلف راستے پیدا کئے ۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے خطو ط نویسی کو ادب بنا دیا۔ اُن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ”محمد شاہی روشوں “ کو ترک کرکے خطوط نویسی میں بے تکلفی کو رواج دیا اور القاب و آداب و تکلفا ت کے تمام لوازمات کو ختم کر ڈالا۔ == جدید نثر کی ابتدا == شبلی نے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ، ” اردو انشاء پردازی کا آج جو انداز ہے اور جس کے مجدد اور امام سرسید مرحوم تھے اس کا سنگ بنیاد دراصل مرزا غالب نے رکھا تھا۔“ غالب کی شخصیت ایک شدید انفرادیت کی مالک تھی۔ وہ گھسے پٹے راستے پر چلنے والا مسافر نہیں تھا ۔ وہ اپنی طبیعت کے اعتبار سے راہرو بھی تھا اور رہبر بھی غالب کی فطرت میں اختراع و ایجاد کی رگ بڑی قوی تھی۔ غالب نے جس جدید نثر کی بنیاد رکھی اسی پر سرسید اور اُن کے رفقاءنے ایک جدید اور قابل دید عمارت کھڑی کردی۔ سادگی ، سلاست ،بے تکلفی و بے ساختگی ، گنجلک اورمغلق انداز بیان کی بجائے سادا مدعا نگاری یہ تمام محاسن جو جدید نثر کا طرہ امتیاز ہیں مکاتیب غالب میں نمایاں نظر آتی ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غالب جدید اردو نثر کے رہنما ہیں ۔ آج نثر کی کوئی ایسی صنف موجود نہیں جس کے لئے مکاتیب غالب میں طرز ادا کی رہنمائی نہ ملتی ہو۔ بقول اکرم شیخ، ” غالب نے دہلی کی زبان کو تحریر ی جامہ پہنایا اور اس میں اپنی ظرافت اور موثر بیان سے وہ گلکاریاں کیں کہ اردو معلی خا ص و عام کو پسند آئی اور اردو نثر کے لئے ایک طرز تحریر قائم ہوگیا۔ جس کی پیروی دوسروں کے لئے لازم تھی۔ خطوط او ر غالب کی شخصیت اردو میں غالب پہلے شخص ہیں جو اپنے خطوظ میں اپنی شخصیت کو بے نقاب کرتے ہیں ۔مثال کے طور پر غالب کی شاعری سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ حالی نے انہیں حیوان ظریف کیوں کہا ہے۔ ان کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب کی طبیعت میں ظرافت تھی۔ غالب کے کلام سے غالب کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ اس غالب کی ہے جو خیال کی دنیا میں رہتا ہے۔ لیکن خطوط میں وہ غالب ہمیں ملتا ہے جس کے قدم زمین پر جمے ہیں ۔جس میں زندگی بسر کرنے کا ولولہ ملتا ہے۔ جو اپنے نام سے فائدہ اٹھاتا ہے مگر اپنے آپ کو ذلیل نہیں کرتا ۔ غالب کی زندگی سراپا حرکت و عمل ہے۔ اس کی شخصیت میں ایک بے تکلفی ،بے ساختگی اور حقیقت پسندی کی موجودگی اس کے خطوط سے چھلکی پڑتی ہے۔ اخفائے ذات اور پاس حجاب کا وہ کم از کم خطوط میں قائل نظر نہیں آتا۔ غالب نے اپنے مکاتیب میں اپنے بارے میں اتنا کچھ لکھ دیا ہے اور اس انداز میں لکھا ہے کہ اگر اس مواد کو سلیقے سے ترتیب دیا جائے تو اس سے غالب کی ایک آپ بیتی تیار ہوجاتی ہے۔ اس آب بیتی میں جیتا جاگتا غالب اپنے غموں اور خوشیوں ، اپنی آرزوں اور خواہشوں ، اپنی محرومیوں اور شکستوں اپنی احتیاجوں اور ضرورتوں ، اپنی شوخیوں ، اپنی بذلہ سنجیوں کے ساتھ زندگی سے ہر صورت نباہ کرتا ہوا ملے گا۔ غرض ان کی شخصیت کی کامل تصویر اپنی تمام تر جزئیات و تفصیلات کے ساتھ ان کے خطوط ہی میں دیکھی جا سکتی ہے بے تکلفی اور سادگی غالب کے انداز نگارش کی ممتاز ترین خصوصیت یہ ہے کہ جو کچھ لکھتے ہیں بے تکلف لکھتے تھے۔ ان کے خطوط کا مطالعہ کرتے وقت شائد ہی کہیں یہ احساس ہو کہ الفاظ کے انتخاب یا مطالب کی تلاش و جستجو میں انہیں کاوش کرنی پڑی ۔ عام ادبی بول چال کا سہارا لے کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ غالب کی تحریر ”آورد نہیں”آمد“ہے۔ مولانا حالی کے الفاظ میں ، ” مرزا سے پہلے کسی نے خط و کتابت کا یہ انداز اختیار کیا اور نہ ان کے بعد کسی سے اس کی پوری پوری تقلید ہو سکی۔ “ انھوں نے القابات کے فرسودہ نظام کو ختم کردیا۔ وہ خط کو میاں، کبھی برخودار، کبھی مہاراج ، کبھی بھائی صاحب، کبھی کسی اور مناسب لفظ سےشروع کرتے ہیں۔ اس بے تکلفی اور سادگی نے ان کے ہر خط میں ڈرامائی کیفیت پیدا کردی ہے۔ مثلا یوسف مرزا کو اس طرح خط شروع کرتے ہیں، ” کوئی ہے، ذرا یوسف مرزا کو بلائیو، لو صاحب وہ آئے ۔“ جدت طرازی غالب کی تحریر کی جان جد ت طرازی ہی ہے۔ وہ بنے بنائے راستوں پر چلنے کے بجائے خود اپنا راستہ بناتے ہیں۔ عام اور فرسودہ انداز میں بات کرنا اُن کا شیوہ نہیں۔ انہوں نے خطوط نویسی کو اپچ اور ایجاد کا طریقہ نو بخشا، جو ادبی اجتہاد سے کم نہیں، میرمہد ی کا ایک خط یوں شروع ہوتا ہے۔ ”مار ڈالا یا ر تیری جواب طلبی نے“ ایک اور خط کی ابتداءیوں کرتے ہیں، ”آہا ہاہا۔ میراپیارا مہدی آیا۔ آئو بھائی، مزاج تو اچھا ہے۔ بیٹھو۔“ غالب کی اس جدت پسندی نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ۔ اپنی اس جدت پسندی پر خود اظہار خیال کرتے ہیں کہ، ” میں نے وہ انداز تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ہے۔ ہزار کوس سے بہ زبان قلم باتیں کرو ، ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو۔ شوخئ تحریر مولانا حالی لکھتے ہیں کہ جس چیز نے ان کے مکاتیب کو ناول اور ڈراما سے زیادہ دلچسپ بنا دیا ہے وہ شوخیتحریر ہے جو اکتساب ، مشق و مہارت یا پیروی و تقلید سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے خط و کتابت میں مرزا کی روش پر چلنے کا ارادہ کیا اور اپنے مکاتبات کی بنیاد بذلہ سنجی و ظرافت پر رکھنی چاہی ہے۔ مگر ان کی اور مرزا کی تحریر میں وہی فرق پایا جاتا ہے جو اصل اور نقل یا روپ بہروپ میں پایا ہوتا ہے۔مرزا کی طبیعت میں شوخی ایسی بھری ہوئی تھی جیسے ستار میں سر بھرے ہوئے ہیں ۔ اور بقول حالی مرزا کو بجائے ”حیوان ناطق“ ”حیوان ظریف “ کہنا بجا ہے۔ غالب نے اپنی طبیعت کی شوخی اور ظرافت سے کام لے کر اپنے خطوں میں بھی بذلہ سنجی اور شگفتگی کے گلزار کھلا ئے ہیں۔ ماہ رمضان میں لکھا گیا ایک خط: ” پانی ، حقے اور روٹی کے ٹکڑے سے روزے کو بہلاتا ہوں۔“ ”میاں تمہارے دادا امین الدین خان بہادر ہیں میں تو تمہارا دلدادہ ہوں۔“ یا جیسے کہ "تم تو چشم نورس ہو اس نہال کے" ذا ت اور ماحول پورے مکاتیب غالب کو سامنے رکھ کر حیات غالب کا مکمل نقشہ تیار کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ غالب نے اپنے اردگرد کے ماحول اور حالت زندگی کی مکمل ترجمانی اپنے خطوط میں کی ہے۔ مثلاً پیدائش، خاندان، وسائل معاش ، رہائش ، دوست احباب ، خوردونوش ، شب وروز کی مشغولیات، سفر و حضر وغیرہ ۔ حیات غالب کے متعلق تمام معلومات مکاتیب میں موجود ہیں۔ ایک خط میں اپنے ماحول کے متعلق یوں رقمطراز ہیں، ” میں جس شہر میں ہوں ، اس کا نا م دلّی اور اس محلے کا نام بلی ماروں کا محلہ ہے۔ لیکن ایک دوست اس جنم کے دوستوں میں نہیں پایا جاتا ۔ واللہ ڈھونڈنے کو مسلمان اس شہر میں نہیں ملتا ۔ کیا امیر ، کیا غریب ، کیا اہل حرفہ ۔ اگر کچھ ہیں تو باہر کے ہیں۔ ہنود البتہ کچھ کچھ آباد ہوگئے ہیں۔“ ان خصوصیات کے ساتھ ساتھ غالب کئی جدید اصناف کے موجد بھی قرار پائے جن مختصرذکر ذیل میں دیا جا رہا ہے۔ مکالمہ نگاری و انشائیہ غالب نے نامہ نگاری کو مکالمہ بنا دیا ہے جس میں مکالمے بھی ہیں اور بات چیت کی مجلسی کیفیت بھی: ”بھائی تم میں مجھ میں نامہ نگاری کاہے کو ہے ۔مکالمہ ہے۔ “ باتیں کرنے کا یہ انداز نثر میں زندگی کی غمازی کرتا ہے۔ اور اسلوب کا یہ انداز ہے جو انشائیہ نگاری کے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اردو میں انشائیہ کی صنف غالب کے بعد سرسید کے زمانے میں ظہور میں آئی۔ لیکن اس صنف ادب کے لئے غالب کے اسلوب گفتگو نے زمین پہلے سے ہموار کردی تھی۔ سرسید اور اُن کے رفقاءنے جب انشائیے لکھنے شروع کئے تو مکاتیب غالب کا سادہ ، صاف اور نکھرا ہوا اسلوب ان کے کام آیا۔ ڈراما غالب نے اپنے خطوط میں مکالمہ نگاری کا جو اسلوب اپنایا ہے اس میں ڈرامائیت کی وہ اد ا نظر آتی ہے جو آگے چل کر ڈرامہ نگاری کا ایک لازمی حصہ بن گئی۔ اردو کے افسانوی ادب میں ناول اور ڈرامے کی اصناف بھی غالب کے بعد ظہور میں آئیں۔ لیکن خطوط غالب کے یہ پیرایہ ہائے بیان ان اصناف ادب کے لئے اظہار و بیان کی راہیں تیار کر گئے۔ مثال کے طور پر ایک جگہ لکھتے ہیں۔ غالب: بھئی محمد علی بیگ، لوہاروں کی سواریاں روانہ ہو گئیں؟ محمد علی: حضرت ابھی نہیں! غالب: کیا آج جائیں گی؟ محمد علی: آج ضرو ر جائیں گے! تیاری ہو رہی ہے!“ رپورتاژ مکالموں اور باتوں کے ساتھ ساتھ مجلسی زندگی کا ایک اہم پہلو خبریں سنانے کا ہے۔ خبریں اور خبروں پر تبصرے معاشرتی جبلت ہے۔ جن کی تکمیل احباب کی شبانہ روز مجلسوں میں ہوتی ہے۔ غالب نے بھی اس کے ذریعے مجلسی فضا پیدا کرکے اپنی اور احباب کی تسکین دل کا سامان کیا ہے: ” آج شہر کے اخبار لکھتا ہوں۔ سوانح لیل و نہار لکھتا ہوں۔“ ”ہم تمہارے اخبار نویس ہیں اور تم کو خبر دیتے ہیں کہ۔۔۔۔۔“ اس طرح غالب صرف واقعات و حالات ہی بیان نہیں کرتے بلکہ ردعمل اور تاثرات بھی قلم بند کر جاتے ہیں۔ اس طرح غالب کے خطوط کا یہ سرمایہ رپورتاژ کی ذیل میں آجاتا ہے۔ جسے ادب میں ایک الگ صنف کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔ آپ بیتی غالب آپ بیتی یا سر گزشت نہیں لکھ رہے تھے ۔ صرف احباب کے نام خط لکھ رہے تھے لیکن ان خطوط میں انہوں نے اپنی زندگی کے متعلق اتنا کچھ لکھ دیا ہے اور اس انداز سے لکھ دیا ہے کہ اگر اس مواد کو سلیقے سے ترتیب دیا جائے تو اس سے غالب کی ایک آپ بیتی تیار ہو جاتی ہے۔ اردو ادب میں آپ بیتی کو بعد میں اپنایا گیا لیکن مکاتیب ِ غالب میں ان کی خود نوشت سوانح نے اردو میں آپ بیتی کے لئے زمین ہموار کر دی تھی۔ مختصر کہانی دراصل خطوط غالب انسانی زندگی کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں اور مختصر کہانی کا موضوع ہی انسانی زندگی کا کوئی پہلو ہوتا ہے۔ غالب نے شخصی اور اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوئوں کو بیان کرنے میں جس رواں اور شگفتہ انداز بیاں کو اختیار کیا ہے اس نے مختصر کہانی کے لئے راہیں ہموار کیں۔ اس طرح غالب کے خطوط بیشتر اصناف ادب کے لئے پیشرو اور رہنما ثابت ہوئے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر غالب نے اپنے خطوط میں یہ راہیں نہ دکھائی ہوتیں تو اردو کے نثری اوصناف ادب کو اپنے نشونما و ارتقاء میں شائد اتنی سہولتیں نہ ملتیں۔ مجموعی جائزہ غالب کے خطوط اردو نثر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں اور اردو ادب کے عظیم نثر پاروں میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ یہ خطو ط فطری اور بامعنی ہیں۔ انہوں نے القاب و آداب غائب کر دیے ہیں۔ اور ان میں ڈرامائی عنصر شامل کر دیا ہے۔ اُ ن کا اسلوب خود ساختہ ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بیان کرنے کا سلیقہ جانتے ہیں ۔ مشاہدہ بہت تیز ہے ۔ منظر نگاری خاکہ نگاری میں بھی ملکہ حاصل ہے اُن کے خطوط کی سب سے بڑی خصوصیت لہجہ کی شیرینی اور مزاح کی خوش بینی ، ظرافت اور مزاح ہے۔ جس میں ہلکی ہلکی لہریں طنز کی بھی رواں ہیں۔ جبکہ یہی خطوط ہیں جو اردو ادب کے کئی اصناف کی ابتداءکا موجب بنے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ غالب کو اگر شاعری میں ایک انفرادی حیثیت حاصل ہے تو نثر میں بھی وہ ایک الگ اور منفرد نام رکھتے ہیں۔ بقول غلام رسول مہر: ” غالب نے اپنی سرسری تحریرات میں ذات اور ماحول کے متعلق معلومات کا جو گراں قدر ذخیرہ و ارادہ فراہم کردیا ہے ۔ اس کا عشرِ عشیر بھی کسی دوسرے مجموعے میں نظر نہ آئے گا۔“ “ غالب کے محاسنِ کلام غالب کے محاسنِ کلام ذیل مین درج میں درج ہیں۔ (۱) فلسفیانہ لہجہ غالب فلسفی شاعر تھے۔ تخیل پروازی اور فلسفیانہ انداذِ بیان انکے کلام پر حاوی ہے اور اس میں ان کا کوئی معاصر انکے مدِ مقابل نظر نہیں آتا۔ مثال کے طور پر ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا نقشِ فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا (۲) تصوف کا رنگ غالب کی غزل میں ہمیں تصوف کے حقائق بھی جابجا ملتے ہیں۔ جب وہ اس کائنات کو صوفی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو معرفت کے نہایت پاکیزہ اور باریک نکتے بیان کرتے ہیں۔ بقول آل احمد سرور: ان کا سارا فلسفہ اور تصوف انکے فکرِ روشن کی کرشمہ سازی کا نام ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ عکسِ کلام درج ذیل ہے یہ مسائلِ تصوف یہ تیرا بیان غالب تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا محرم نہیں ہے تو ہی نوہائے راز کا ہاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا (۳) عاشقانہ رنگ غالب کی رائے میں جذبہ عشق ہی ہنگامہ عالم کی بنیاد ہے۔ زندگی کی تمام رونقیں اور لذتیں جذبہ عشق کی بدولت قائم و دائم ہیں۔ مثال کے طور پر نمونہ کلام ذیل میں درج ہے عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا درد کی دوا پائی درد لا دوا پایا ان کے دیکھے سو چہرے پہ آجاتی ہے رونق وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے (۴) رشک و حسد رشک غالب کا محبوب مضمون ہے۔ وہ رقیب کے علاوہ اپنی ذات سے بھی رشک کرتے ہیں۔ بلکہ بعض انہیں خدا سے بھی رشک ہوجاتا ہے۔ مثلاً ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے مرتے ہیں کہ ان کی تمنا نہیں کرتے چھوڑا نہ رشک نے کہ تیرے گھر کا نام لوں ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جاﺅں کدھر کو میں (۵) غم پسندی غالب کے نظریہ زندگی کہ مطابق زندگی کے ہنگاموں میں احساسِ غم کا بہت بڑا حصہ ہے۔ زندگی کی یہ گہماگہمی نغمہِ الم اور غم کی وجہ سے قائم ہے۔ نمونہ کلام درج ذیل ہے قیدِ حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں غمِ ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگِ علاج شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے (۶) حقیقت پسندی غالب کی نظر انسانی فطرت کی گہرائیوں تک پہنچتی ہے۔ انہیں انسانی نفسیات کا گہرا شعور حاصل ہے اور انہیں نے اپنے اس شعور سے نہایت مفید نتائج اخذ کےے ہیں۔ مثلاً ہوچکیں غالب بلائیں سب تمام اک مرگ ناگہانی اور ہے رنج سی خوگر ہو انسان تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آساں ہوگئیں موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی (۷) ایجاز واختصار طویل مضامین کو مختصر الفاظ میں بیان کرنے کا جو سلیقہ غالب کے حصے میں آیا وہ بہت ہی کم شاعروں کو نصیب ہوا یعنی دریا کو کوزے میں بند کرنا۔ کلام کی اسی خصوصیت کو بلاغت کا جاتا ہے۔ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معانی پنہاں کرنا ان کی شاعری کا کمال ہے۔ مثلاً کیا کیا خضر نے سکندر سے اب کسے رہنما کرے کوئی ملنا اگر نہیں آساں تو سہل ہے دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں (۸) روز مرہ زبان اور محاورات کا استعمال غالب نے اپنے شاعر ی میں روزمرہ زبان اور محاورات کا بھی استعمال کیا ہے جس سے ان کے اشعار میں نکھار آگیا ہے۔ مثال کے طور پر نمونہ کلام درج ذیل ہے ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرگے لیکن خاک ہوجائیں گے ہم‘ تم کو خبر ہونے تک آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک (۹) عظمتِ انسانی غالب جب اپنے ماحول میں انسان کوذلت کی بستیوں میں گراہوا دیکھتا ہے تو پکار اٹھتا ہے۔مثلاً ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آسان ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا (۰۱) رندی ہمیں غالب کی غزل میں رندانہ مضامین کی چاشنی بھی ملتی ہے کعبہ کس منہ سے جاﺅ گے غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی پلادے اوک سے ساقی جو مجھ سے نفرت ہے پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے (۱۱) سہلِ ممتنع غالب کا کلام سہلِ ممتنع کی ایک بلند و بالا خصوصیت کا حامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بات کو اس قدر آسان انداز اور پیرائے میں بیان کیا جائے کہ سننے والا یہ سمجھے کہ وہ بھی اس طرح بات کرسکتا ہے۔ مگر جب کرنے بیٹھے تو عاجز ہوجائے۔ ان کے کلام میں سادگی اور پرکاری کی کیفیت انتہائی کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔ بقول غالب کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی دلِ نادان تجھے ہوا کیا ہے آخر اس درد کی دوا کیا ہے (۲۱) شوخی و ظرافت غالب شعر میں اظہار غم کے موقع پر جب شوخی یا طنز سے کام لیتے ہیں تو غم میں بھی شگفتگی اور زندہ دلی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔نمونہ کلام ذیل میں درج ہے ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے کیا فرض ہے سب کو ملے ایک سا جواب آﺅ نہ ہم سیر کریں کوہِ طور کی حرفِ آخر حقیقت یہ ہے کہ غالب کی شاعری بڑی پہلو دار شاعری ہے۔ ان کی شخصیت اور شاعری پر مختصر سے وقت میں تبصرہ کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ اس لئے صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ غالب ہر دور میں غالب رہے گا۔غالب کی کلام کی مندرجہ بالا خصوصیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا کلام ایک وسیع دنیا ہے۔ اہلِ دانش نے سچ کہا ہے کہ غالب اردو کی آبرو اور عروسِ غزل کا سہاگ ہیں۔ پروفیسر عزیز احمد کے یہ الفاظ غالب کی عظمت کو بیان کرنے کیلئے حروفِ آخر کا درجہ رکھتے ہیں: وہ ایک طرح کے شاعرِ آخرالزماں ہیں جن پر ہزار ہا سال کی اردو اور فارسی شاعری کا خاتمہ ہوا۔ غالب کا طلسم خانہ تحیر سعدیہ اقبال غالب اپنے دور کے عظیم تجرباتی شاعر تھے ۔اسلوب اور معنویت دونوں اعتبار سے اس قدر متنوع اور گوناگوں تجربات کا اظہار ان کی شاعری میں ہے کہ متقدمین سے لے کر متاخرین تک کوئی بھی ان کا ہم قدم اور ہم سفر نظر نہیں آتا ۔بیسویں صدی میں جتنی بھی تحریکیں وجود میں آئیں ،ہر ایک کا سرچشمہ غالب کی فکر اور فلسفہ ہے ۔ اس تعلق سے مولانا نیاز فتح پوری کا یہ قول بڑی حد تک درست ہے کہ’’اردو شاعری میں نئے رجحانات کا سراغ ہمیں غالب کے وقت سے ملتا ہے ۔ ‘‘ غالب کی شاعرانہ عظمت کو سمجھنے کے لئے ان کا یہ جملہ کہ ’’شاعری صرف قافیہ پیمائی نہیں بلکہ معنی آفرینی ہے ‘‘بڑی حد تک ہماری رہنمائی کرتا ہے اور ان کے ذہنی عوامل تک پہچنے میں ممد و معاون بھی ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ شاعر نے معنی آفرینی کی کوشش میں کس کس وادی خیال کی سیر وسیاحت کی ہے : مستانہ طے کروں ہوں رہ وادی خیال تا باز گشت سے نہ رہے مدعا مجھے غالب فطرتا مشکل پسند واقع ہوئے تھے اس کی ایک وجہ ان کے کلام میں فارسی کا غلبہ اور دوسرے بیدل کے مزاج سے ہم آہنگی تھی کہ ابتدائی دور میں انہوں نے بیدل کی اتباع کی اور یہ اعتراف کیا : طرز بیدل میں ریختہ کہنا اسد اللہ خاں قیامت ہے اس کے بعد میر کے رنگ میں بھی انہوں نے شعر کہے مگر سادگی کے باوجود ان اے اشعار میں ذہنی اور نفسیاتی پیچیدگی برقرار رہی ۔ غالب کی شاعری قنوطیت ،رجائیت ،رومانیت ،واقعیت ،رندی ،تصوف ، شوخی ،انکساری ،جیسی متضاد کیفیتوں کا حسین و جمیل مرقع ہے ۔غالب کی آزادہ روی نے انہیں کسی مخصوص فکر یا فریم سے مفاہمت نہیں کرنے دیا ۔انہوں نے زندگی کو کھلے ذہن کے ساتھ مختلف زاویوں سے دیکھا اور ایک سچے فنکار کی حیثیت سے زندگی کی متضاد کیفیتوں کو شاعری کے قالب میں ڈھالا ۔ان کے مشاہدات اس قدر وسیع تھے کہ کائنات کا ہر ذرہ ان کے لئے عرفان و آگہی کا استعارہ تھا : صد جلوہ روبرو ہے، جو مژگاں اٹھائیے طاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھائیے بخشے جلوہ گل ذوق تماشا غالب چشم کو چاہئے ہر رنگ میں وا ہو جانا غالب نے اپنے ذہن کے تمام دروازے وا رکھے اور مختلف سمتوں سے کھلی ہوا کا خیر مقدم کیا ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک ہی لے میں زندگی کا راگ نہیں الاپا ۔ایک خالص تجرباتی شاعر کی حیثیت سے وہ ہر مقام پر رنگ و آہنگ بدلتے رہے ۔ان کی شاعری کے مختلف حصوں سے الگ الگ آوازیں ابھرتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ ان صداؤں کا تعلق اردو اور فارسی کے قدیم کلاسیکی شعراء کے علاوہ خود ہماری تہذیب و ثقافت اور روایت سے بہت گہرا ہے اور یہ آہنگ اتنا پر اثر ہے کہ اجتماعی لا شعور کو بھی متاثر کرتا ہے ۔ غالب کے کلام میں ہر سطح اور ذوق کے مطالبات کی تسکین کا سامان بھی ہے ۔ایک طرف ان کی شاعری میں رومانیت کا یہ عالم ہے کہ وہ رات دن تصور جاناں کئے بیٹھے رہنا چاہتے ہیں : دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے تو دوسری طرف واقعیت کا کا یہ حال ہے کہ محبوب کی ستم شعاری کا شکوہ یوں لطیف طنزئے پیرائے میں یوں کرتے ہیں : تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے غالب ذہنی تضادات کا مجموعہ تھے ۔ ایک طرف شاعر کے ذوق گناہ کا عالم ہے کہ وہ خدا سے نا کردہ گناہوں کی حسرت کی داد چاہتا ہے : ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد یا رب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے تو دوسری طرف خدا کی رحمتوں پہ اس کا یقین اور اپنے اعمال پہ شرمندگی کا یہ عالم ہے کہ بڑی خوبصورتی سے غالب یہ کہتے ہیں : رحمت اگر قبول کرے کیا بعید ہے شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا خواہ سائنس کی دنیا ہو یا شعر وادب کی ،بعض ایسے ذہین لوگ ہوتے ہیں جو اپنی ذکاوت کے ذریعے روایت سے ہٹ کر راہ تلاش کرتے ہیں ۔ اور اس صداقت کو اپنی ذہنی گرفت میں لا تے ہیں جس کا اس وقت لوگوں کو وہم وگمان بھی نہیں ہوتا ۔غالب کا شمار بھی کچھ ایسے ہی ذہین لوگوں میں ہوتا ہے ۔مغربی ادب میں انیسویں صدی کے اواخر میں علامت پسندی اور بیسویں صدی کے آغاز میں پیکریت کی تحریک معرض وجود میں آئی لیکن اس سے نصف صدی قبل اس شاعر نے اپنی فطرت ذکاوت کے سبب علامت پسندی اور پیکریت کے تجربات سے بے شمار امکانات کو روشن کیا ۔اور دنیا کو غرق حیرت کر دیا ۔ صرف یہی نہیں غالب نے اپنے زمانے میں ایسے شعر بھی کہے ہیں جن کی قدرو قیمت اشتراکی واقعیت کے عروج کے بعد اور بڑھ گئی ۔ غالب نے اپنی فطری ذکاوت کی مدد سے سو سال بعد کے ذ ہنی انتشار ، انارکی ، بحران کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا تھا ۔ مستقبل کے مسائل کا عرفان کسی بھی دانشور اور مفکر کے لئے آسان ہے لیکن غالب کی انفرادیت اس میں ہے کہ ان کی سو سال قبل کی شاعری جدید رجحان اور ذہن کی عکاس ہے ۔ آل احمد سرور نے صحیح لکھا ہے کہ ’’غالب سے پہلے اردو شاعری دل والوں کی دنیا تھی ،غالب نے اسے ذہن دیا ‘‘ ترقی پسند دور میں غم عشق کے مقابلے غم روزگار کی اہمیت کا احساس شعراء میں جا بجا دکھائی دیتا ہے جس کی بہترین مثال غالب کا یہ شعر ہے : غم اگر چہ جاں گسل ہے پر کہاں بچے کہ دل ہے غم عشق گر نہ ہوتا ،غم روزگار ہوتا اس صنعتی کلچر اور مشینی عہد میں کسی کو اتنی فرصت نہیں کہ دوسروں کی طرف مڑ کر دیکھے ۔ہر شخص اپنی ذات کے حصار میں قید ہے ۔ اور تہذیب تنزلی کی طرف مائل ہے ۔ اس تیز گام تہذیب کے زوال کا منظر ان کی شاعری میں یوں روشن ہوا ہے : ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے خلائی سفر ، ٹکنالوجی اور روز روز کے جدید انکشافات نے انسان کا جس قدر حوصلہ بلند کیا ہے ، اس کا ذکر جدید شعرا’ کے لئے فطری بھی تھا اور لازمی بھی ۔ لیکن غالب صدیوں قبل انسان کو اس بلندی پر دیکھنے کا حوصلہ رکھتے تھے ،وہاں تک غالبا اب تک کسی بھی وجودیت پسند شاعر کی رسائی نہیں ہوئی ہے ۔ اس سلسلے کا ایک شعر : ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا غالب کے اختراعی اور خلاق ذہن نے اتنی دنیائیں دریافت کر لی تھیں کہ ہر دنیا ایک طلسم خانہ عجائب لگتی ہے ۔ ان کا ذہن مستقبلیت پسند تھا اسی لئے ان کے یہاں تمنا کے دوسرے قدم کی جستجو غالب رہی اور اسی جستجو نے ان کی شاعری سے آج کے ذہنوں کا رشتہ جوڑ دیا ہے کہ اردو زبان سے محبت رکھنے والا شاید ہی کوئی ایسا فرد ہوگا جو دیوان غالب سے متعارف نہ ہو ۔اس دیوان کے بارے میں ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کا یہ خیال بہت معنی خیز ہے کہ ’’ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں ،وید مقدس اور دیوان غالب ‘‘ غالب کی شاعری زندگی کی کشمکش کی پروردہ ہے اسی لئے ان کی شاعری میں جو رنج و الم ملتا ہے ،اور جس تنہائی ، محرومی ،ویرانی ،ناامیدی کی جھلک ملتی ہے ،وہ صرف ذاتی حالات کا عکس نہیں بلکہ اپنے عہد ،سماج اور ماحول کی آئینہ دار ہے ۔وہ فلسفی نہیں لیکن ان کے حساس دل و دماغ میں طرح طرح کے سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔غالب کے یہاں استفہامیہ اشعار کی بہتات ہے ،یہ بھی ان کا منفرد انداز ہے ۔ ان کے دیوان کا پہلا شعر ہی سوال سے شروع ہوتا ہے : نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا ایک دوسرا شعر : یارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لئے لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں غالب کی شاعری میں زندگی سے فرار نہیں ہے اور نہ ہی ماضی ان کی پناہ گاہ ہے بلکہ ان کی شاعری میں ہمیں وہ تمام وسعتیں ،حسرتیں ،اور کرب و انتشار ملتے ہیں جو جدید ذہن کا خاصہ ہیں ۔دراصل جدید دور کا آغاز غالب سے ہی ہوتا ہے ۔ غالب کی شاعری میں طنز و مزاح کی نشتریت اور خندگی ہے ۔ حالی نے غالب کو ’حیوان ظریف ‘ کہہ کر ان کی مزاجی کیفیت کی عکاسی کی ہے جبکہ ایسا نہیں کہ وہ بہت خوشحال تھے ،انہیں کوئی پریشانی نہیں تھی ۔قدم قدم پر قسمت نے انہیں چوٹ پہچائی اس کے باوجود وہ شگفتہ مزاج تھے ،شوخی رگ رگ میں سمائی ہوئی تھی ۔موقع کچھ بھی ہو ،وہ شوخی گفتار سے باز نہیں آتے ۔ظرف اتنا وسیع تھا کہ وہ اپنے آپ پر ہنسنے کا حوصلہ رکھتے تھے ۔ : طنز و مزاح کے پس پردہ غالب کی شاعری میں ہمیں غم کی ایسی زیریں لہریں ملتی ہیں جن کے چشمے غم ذات ،غم دوراں ،غم عشق سے پھوٹتے ہیں اور یہ غالب کی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے جس کے اثرات ان کی شاعری میں بخوبی محسوس کئے جا سکتے ہیں لیکن یہاں بھی غالب کا انداز نرالا ہے۔وہ غم کو آزار نہیں بناتے بلکہ اسے گوارہ بناتے ہیں اور اس سے بلند ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ اپنے آشوب آگہی کو زہر بناکر نہیں بلکہ امرت بناکر ہمارے اندر منتقل کرتے ہیں ۔لہذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ غالب نشاط زیست کے شاعر ہیں ۔ اسلوب بیان میں بھی غالب کا اپنا منفرد مقام ہے ۔وہ محض فکر ونظر کے مجتہد ہی نہیں ان کا انداز بیاں بھی ’اور‘تھا ۔وہ افکار و الفاظ کے درمیان مکمل ہم آہنگی کے قائل ہیں ۔الفاظ ہوں یا تشبیہات وہ اتنی خوبصورتی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں کہ قاری جنوں اور خرد کی کشمکش میں گرفتار ہو جاتا ہے ۔ غالب ایک عظیم شاعر تھا ،ان کی عظمتوں کی علامتیں ان کے شعروں میں نمایاں ہیں ۔عہد کوئی بھی ہو ،غالب کی عظمت سے انکار ممکن نہیں ۔غالب اسم با مسمی تھے ،ان کا نام اسد اللہ خاں اور عرفیت مرزا نوشہ تھی ۔مغل بادشاہ کی طرف سے نجم الدولہ ،دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے ،غالب ان کا تخلص تھا ۔اور اس کا اثر ان کے کلام پر بھی رہا کے کوئی انہیں مغلوب نہ کر سکا ۔ بشکریہ: اردو سخن غالب کے کلام کا نفسیاتی تجزیہ محمدصفدر ماہرین نفسیات کا قصہ مختلف ہے' مگر جب عام آدمی کسی شخص کا نفسیاتی مطالعہ کرتا ہے تو پس منظر میں اپنے حالات اور ماضی کی فلم بھی دماغ کے پردۂ سیمیں پر تیرتی رہتی ہے۔نفسیاتی حوالوں سے پیچیدہ افراد' سادہ لوگوں کا تجزیہ کرتے ہوئے بھی ان میں ایسی پیچیدگیاں تلاش کرتے رہتے ہیں کہ اگر اس شخص کو بتادیا جائے جس کے بارے میں تجزیہ کیا جارہا ہے تو وہ خود دنگ رہ جائے۔ اس لیے کسی بھی طور پر عام آدمی کے نفسیاتی تجزیوں کو اہمیت نہیں دی جانی چاہیے۔ لیکن شاعر' مصور اور تخلیق کار کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ وہ انہی نفسیاتی پیچیدگیوں کو ملحوظ رکھ کر دوسرے لوگوں کے نفسیاتی مسائل کو فنی شاہ پاروں میں تبدیل کرتا ہے۔یہ نفسیاتی پیچیدگی عام لوگوں کے لیے مرض لیکن تخلیق کار کے لیے لازوال خزانہ ہوتی ہے۔ اُردو د ان طبقہ بجا طور پر غالب کو اُردو غزل کا سب سے بڑا شاعر تسلیم کرتا ہے ۔ غالب نفسیاتی لحاظ سے پیچیدہ تھے مگر یہ نفسیاتی پیچیدگی مرض نہیں تخلیق کا گنجینہ ثابت ہوئی۔ غالب کی غزلیںاس کی اپنی نفسیاتی زندگی کی تصویریں ہیں۔شاید اسی نفسیاتی پیچیدگی ہی نے غالب میں مشکل پسندی کوٹ کوٹ کر بھردی' شعر کا نفس مضمون ہو یا تراکیب و تماثیل' اسلوب ہو یابحروں کا چنائو' غالب مشکل پسندی کو آسانی سے برتنا جانتے تھے۔ علم نفسیات کی روشنی میں غالب کے کلام کا جائزہ یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ ان میں نرگسیت کاواضح رجحان تھا۔ اس نرگسیت نے جہاں ان کے شعروں میںتعلی بھردی وہاں عشق کی جہت میں بھی ایک اضافہ ہو گیا۔روایتی غزل کے برعکس غالب کے شعروں میں جلوہ گر عاشق انا پسندہے۔غالبا اُلفتِ ذات اور جبّ تفوق کی چاہ نے غالب میں مشکل پسندی کے خدوخال اُبھارے کہ اس طرح وہ اپنی علمیت' عظمت اور برتری کا خود بھی احساس کرتا اور دنیا کو بھی احساس کراتا۔ ابتدائے شاعری میں ہی مشکل پسندی اور شعور ولا شعور میں پیدا ہوتے پیچیدہ سوالات سے شعروں کی تخلیق اور فارسی الفاظ و تراکیب کا محابا استعمال کی وجہ سے غالب اپنی علمیت اور برتری کا سکہ جمانے کی کوشش میں منہمک نظر آتے ہیں۔ بیدل کے رنگ میں شعر کو مشکل الفاظ و مضامین سے مزین کرنے والے غالب معتقدِ میر بنے تو سادگی اور سہل پسندی کی حدوں کو چھونے لگے۔ ایک وقت میں غالب کہتے تھے کہ ان کا اصل کلام تو فارسی میں ہے' اُردو میں تو میں نے ''فضول کلام'' لکھا ہے' مگر جب اُردو غزل میں ان کے نام کا ڈنکا ہر سو بجنے لگا تو غالب کو فارسی مشکل پسندی سے میر کی سادگی کی طرف مراجعت کرنا پڑی۔ اس مراجعت نے اُردو غزل کو اُردو کا سب سے بڑا شاعر عطا کردیا۔اس دور میں کہ جب ذوق کی محاورہ بندی اور نصیر کی سنگلاخ زمینوں کا چرچا تھا، غالب مشکل گوئی سے سادہ گوئی کی طرف پلٹ آئے۔ یہ امر بذات خود نرگسی انا کا اظہار ہے کہ اُلفتِ ذات کا مبتلا فنکار زمانے کی روش سے ہٹ کر چلنے کا ہی قائل ہوتا ہے۔ مگر رمز کا مارا دل مشکل گوئی ترک کرنے کے باوجود رمزیت کے ماحول کو الوداع نہ کہہ سکا۔ آل احمد سرور کا یہ تجزیہ کیسا حسبِ حال ہے : ''غالب بیدل کے چکر سے نکلنے کے باوجود بھی بیدل کی رمزیت کو نہ چھوڑ سکے۔ اسی رمزیت نے ان کی شاعری میں عجیب عجیب گل کھلائے۔ یہ معمولی بات نہیں کہ بیدل کے بعد غالب، حزین' ظہوری' عرفی اور نظیری کی طرف متوجہ ہوئے اور میر کی طرف سب سے آخر میں۔ یہ ترتیب ان کی شاعری کے ارتقا میں بڑی اہمیت رکھتی ہے''۔ ادبی تحریکوں اور دبستانوں کی زبان و ادب کے رجحانات طے کرنے میں بڑی اہمیت ہوتی۔ تحریکیں ادبی گروہوں کو جنم دیتی ہیں' ادبی گروہ اپنے تصورات و نظریات سے ہم آہنگ ماضی کے ادیبوںکے مقام کا تعین کرتے ہی۔ اس کوشش میں کبھی کوئی ادیب بری طرح سے نظر انداز کردیا جاتا ہے تو کوئی گمنامی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے شہرت کے آسمان کا روشن ستارہ بن جاتا ہے۔ غالب کی نمایاں خصوصیت میں ایک یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری کو جدید دور کے تنقیدی معیارات پر پرکھا گیا' وہ سر خرورہا' ادبی تحریکوں نے اپنی کسوٹیاں اور ترازو ہوا میں بلند کیے' وہ بھاری رہا' جدید تخلیقی تصورات نے زور پکڑا ،وہ سرخرو رہا۔ غالب کی شہرت کو گہنایا جاسکا نہ اُردو اددب کی تاریخ میں انکی اہمیت کم ہوسکی۔ غالب کا ادبی دشمن بھی انکی عظمت اور فہرست میں اولیت سے انکار نہ کرسکا۔ اپنے عصر سے دورِ حاضر تک غالب کی شمع شہرت کی لو تاباں ہی نہیں شعلے کی مانند لپکتی اور روشنی کے پھیلائو میں وسعت اختیار کرتی جارہی ہے۔ کس مقامی زبان میں غالب کا ترجمہ نہ ہوا' کس بڑی بین الاقوامی زبان میں غالب بصورتِ ترجمہ نہ گھسا اور کس زبان کے نقادوں نے اپنا قلم غالب کی مداح سرائی میں نہ چلایا۔ آگرہ میں 27 دسمبر1797ء میں پیدا ہونے والا اسد اللہ کی 13 سال کی عمر میں شادی کردی گئی۔ نسلی برتری اور خاندانی عظمت کا احساس' جو نرگسی انا کو تسکین دیتا ہوگا' ہمیشہ غالب کو رہا۔عاشقانہ مزاج تو خیر غالب کی فطرت کا ناقابل تبدیل جزو تھا ہی ۔ شادی کے بعد دہلی میں مقیم ہوے تو کرایے کے مکان میںرہنے کے باوجود رئیسانہ ٹھاٹھ سے رہے۔ مستقل آمدنی تھی نہیں، اس لیے قرض کی مے پی کر اکثر گو نہ بے خودی سے لطف اندوز ہوتے رہے ، کے مے سے غرضِ نشاط انہیں کہاں تھی۔ ''ستم پیشہ ڈومنی'' سے عشق بھی فرمایا۔ 1847ء میں جوئے کے الزام میں گرفتار بھی ہوئے اور تین ماہ سزا کاٹی۔ حصولِ پنشن کی کوششیں بے ثمر رہیں۔ مغل دربار سے وابستہ اور بہادر شاہ ظفر کے اُستاد رہے مگر ڈوبتا مغل خاندان کہاں ان کی ''عیاشیوں'' کی تکمیل کا سامان کرسکتا تھا۔ انگریزوں سے راہ و رسم بڑھانے کی کوششوں میں ملکۂ وکٹوریہ کا سینکڑوں اشعار پر مشتمل قصیدہ لکھا اور درخواست کی کہ انہیںملکہ کا درباری شاعر متعین کیا جائے' مگر کامیابی نہ ہوئی۔ گھریلو زندگی تو ہمیشہ ہی سلجھنے کا نہ سلجھانے کا معمہ بنی رہی' نہ وہ بیوی سے خوش نہ بیوی ان سے ۔ غالب کے متعلق لطیفوں کو ذہن میں لایئے اندازہ ہوجائے گا۔ الغرض مفلوک الحال' مقروض' خود پسندو حسن پرست' نفسیاتی اُلجھنوں کو بیان کرتا' محرومیوں' پژمردگیوں کے ساتھ زندہ دلی سے زندگی کرتا یہ عظیم فنکار شاہراہ ادب پرانمٹ نشان چھوڑ گیا۔ یہ نشان آنے والے کے لیے راہ نما ہیں تو غالب کے مقام کا تعین بھی کرتے ہیں۔یہ مقام ہی وہ منزل ہے جس تک اردو شاعر پہنچنے کی کوشش تو کر سکتا ہے مگر یہ رتبہ بلند جسے مل گیا' سو مل گیا۔ Allama Iqbal: Fikr o Fun سُورج کو چراغ ۔۔ علامہ اقبال (فکر و فن) کی تفہیم محمد یعقوب آسی حکیم الامّت، شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری کا خاصہ یہ ہے کہ انہوں نے فن اور مقصد کو یوں یک جان کر دیا جیسا ان سے پہلے کسی سے نہ ہوا تھا۔ علامہ کی شاعری میں زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ ساتھ عمیق افکار کا وہ رچاؤ پایا جاتا ہے جس کی مثال اردو شاعری میں کہیں اور نہیں ملتی۔ ان کے کلام کی خاص بات عالمانہ سلاست ہے۔فنِ شعر کی عمومی اصطلاح ’’سلاست‘‘ اقبال کے کلام پر یوں موزوں نہیں بیٹھتی کہ ان کے ہاں سادہ اور آسان فہم الفاظ کی بجائے فارسی کی بھاری بھرکم تراکیب زیادہ مستعمل ہیں۔ سحرطرازی کی بات یہ ہے قاری کو ان تراکیب کی ثقالت کا احساس تک نہیں ہوتا، اور وہ انہیں سلاست کے ساتھ پڑھتا چلا جاتا ہے۔ ان کی تلمیحات ان کی دقیق بصیرت کا پتہ دیتی ہیں، بلکہ بہت سے مقامات پر یہ تلمیحات استعارے بن جاتی ہیں۔ کلامِ اقبال کے اسی وصفِ خاص کو ہم نے ’’عالمانہ سلاست‘‘ کا نام دیا ہے۔ اقبال کا عرصۂ حیات وہ تھاجب پوری دنیا کی سیاسی بساط تغیر پذیر تھی اور بڑی بڑی عالمی سیاسی قوتوں پر تبدیلیوں کے سائے منڈلا رہے تھے۔ برطانوی سامراج، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہاں سورج غروب نہیں ہوتا، نوآبادیات پر اس کی گرفت کمزور پڑتی جا رہی تھی۔ پہلی عالمی جنگ کے اثرات ابھی زوال پذیر بھی نہ ہوئے تھے کہ دوسری عالمی جنگ کے سائے لرزنے لگے۔ترکی میں خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے ایک عرصہ بعد ہندوستان میں مغلیہ دور کا خاتمہ، پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریاں اور دوسری عالمی جنگ کے آثار،اسلامی دنیا کی بے حسی، چین میں سیاسی بیداری اور یورپی حکومتوں کا خلفشار، الغرض پوری دنیا بے چینی کا شکار تھی۔ ہندوستان کے اندر بھی سیاسی بیداری پیدا ہو رہی تھی اور یہاں کے دونوں بڑے مذہبی گروہ ہندو اور مسلمان بدیسی تسلط کے خلاف نہ صرف متحرک ہو چکے تھے بلکہ گاندھی اور محمد علی جناح جیسی شخصیات میدانِ عمل میں آ چکی تھیں۔ ان کی کوششوں کا رخ اگرچہ مختلف تھا، تاہم ایک قدرِ مشترک یعنی انگریزی تسلط سے نجات کی کوشش ضرور موجود تھی۔ سیاسی تحریکوں کے ساتھ ساتھ بہت سے سماجی عوامل ایسے تھے جو کسی بھی صاحبِ دل کو بے چین کر دینے کے لئے کافی تھے۔ اقبال کی دور بین نگاہوں نے وہ مناظر بھی دیکھ لئے تھے جو عام ہندوستانی مسلمان کی نظر کی رسائی میں نہیں تھے۔ جستجو کا وہ مادہ جو ایک مردِ فقیر کی شخصیت کا خاصہ ہو سکتا ہے، ان کی تمام شاعری میں نمایاں ہے۔ اسی عنصر کی کارفرمائی تھی کہ علامہ نے فارس کی تہذیب پر مابعدالطبیعیات کا مطالعہ کیا اور مذہبی افکار کی تہذیبِ نو پر کام کیا۔ انہوں نے مولانا روم سے لے کر ابن عربی اور نطشے تک کے افکار کو دیکھا پرکھا۔ اور نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کی تہذیبی اور سیاسی زندگی کا مطالعہ کیا تو امتِ مسلمہ کی حالتِ زار پر تڑپ اٹھے۔ اقبال نے اسلامی دنیا کے مسائل کا عملی حل وہی پیش کیا جو قرونِ اولیٰ میں کامیاب ثابت ہو چکا تھا۔ اقبال کے پیغام کا خلاصہ اگر ایک جملے میں بیان کیا جائے تو وہ یوں ہو گا کہ ’’مسلمانوں کو اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہوگا!‘‘۔ اس پیغام کی ترسیل کے لئے فطرت نے اقبال کو نہ صرف حکیمانہ نظر عطا کی تھی بلکہ نوائے سروش سے بھی نوازا تھا۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں اقبال کی شاعری بلا مبالغہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کے پیرائے کا تتبع بھی کسی سے نہ ہو سکا، اور اگر کہیں کسی نے کوئی ایک آدھ شعر اس ڈھنگ میں کہہ بھی لیا تو عوام الناس نے اس شعر کو بھی اقبال کے حساب میں ڈال دیا۔ آج بھی ناقدین کی اکثر محفلوں میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ: شاعری میں فن کو اولیت حاصل ہے یا مقصد کو؟ جب کہ کلامِ اقبال کی صورت میں اس سوال کا شافی جواب ہمارے پاس پہلے سے موجود ہے، جہاں فن اور مقصد دونوں ایک دوسرے کو نکھارتے دکھائی دیتے ہیں اور یوں کلامِ اقبال ایک سرمدی پیغام بن جاتا ہے۔ اقبال کی دوسری بہت بڑی خصوصیت ان کے ہاں روایت سے ایسا مضبوط رابطہ ہے جس سے جدتیں پھوٹتی ہیں۔ ان کے بہت سے معاصرین اور متقدمین کے ہاں یہ عمومی مسئلہ رہا ہے کہ بہتوں کی روایت نے جمود کی صورت اختیار کر لی اور اگر کہیں جدید تجربے ہوئے بھی تو ان میں ادبی چاشنی بری طرح متاثر ہوئی۔ موضوعات کے حوالے سے اقبال سے پہلے گنتی کے چند شعراء ایسے ہیں جنہوں نے گل و بلبل اور لب و عارض سے ہٹ کر موثر لہجے میں بات کی ہو۔ اقبال کا اعجازِ بیان یہ بھی ہے کہ انہوں نے پہلے سے رائج معروف تراکیب کو نئے معانی عطا کئے اور یہ کارنامہ محض نئے الفاظ یا افکار متعارف کرا دینے سے کہیں آگے ہے۔ ان کے ہاں ’’گل و بلبل‘‘ روایتی محب اور محبوب کے قالب سے نکل کر مابعدالطبعیاتی سطح پر پہنچ جاتے ہیں، ’’جنوں‘‘ منفی معانی کی گرفت سے آزاد ہو کر ایک نصب العین بن جاتا ہے، و علیٰ ہٰذاالقیاس۔ کلامِ اقبال کا خاصہ یہ ہے کہ دقیق موضوعات پر بات کرتے ہوئے ان کا انداز عالمانہ ہوتا ہے اور تعلقِ خاطر کے سادہ مضامین میں ان کے الفاظ نرم اور ملائم ہوتے ہیں۔ ان کا لہجہ مجموعی طور پر ’’دبنگ‘‘ ہونے کے باوجود، ان کے ہاں غزل کی نرماہٹ متاثر نہیں ہوتی اور نہ نظم کے بہاؤ میں کو رکاوٹ آتی ہے۔ ایسی کتنی ہی خصوصیات ہیں جو اقبال کے کلام کو اوروں سے ممتاز بناتی ہیں۔ علامہ اقبال (رح) اردو شاعری کے لامثال مجّدد بقلم: فدا حسین بالہامہ سرینگر انسان کی رقیق القلبی،نزاکتِ احساس اورتخلیقی تجسس کی بدولت فنونِ لطیفہ وجود میں آئے۔ لطیف خیالات ان نوزائید فنہائے دقیق کے واسطے شیرِمادرکی مانند ابتدائی غذاءکے طور استعمال ہوئے۔اہل فن نے الفاظ کا دلکش وباریک اور رنگین لباس پہناکر غنائیت کے جھولے میں جھلایا۔ نیز اپنے تمام جوہر، فن شاعری پر نثار کردیئے۔ غرض ایک شفیق ماں کی طرحپالا پوسا۔ نتیجتاً اسکی محبت میں مبتلاءہوئے۔ فن کو جو چیز بھی اچھی لگی، ا سکی خدمت میں پیش کردی۔وارفتگانِ شعروشاعری، اپنے ہی پروردہ فن کے عشق میں اس قدرمبتلاءہوئے۔ کہ اپنے اس محبوب کی ہر پسند کے سامنے وجدانی شعور خوب وذشت کو بالائےطاق رکھا۔" شراب و شباب" کی دو لفظی معجون فنِ شاعری کی وارفتہ مزاجی کو بھاگئی۔شعراءنے بھی اس معجون کا خوب استعمال کیا۔ کسی بھی روایتی شاعر کا دیوان کھولنے پرقاری محسوس کرتا ہے کہ گویا وہ میخانے میں داخل ہوگیا۔ اکثرشعراحضرات بھی اس عجیب احساس کمتری کے شکار ہو گئے کہ روایتی ڈگر کو چھوڑنا دنیائے شعر میں خود کشی کےمترادف ہے۔ اور اس دنیا میںابدی زندگی سے ہمکنار ہونے کے لئے لازم ہے کہ شاعر مے کوآب ِ حیات کا درجہ دے اس کی تعریف میں الفاظ کے دریا بہا دے ۔ یہی وجہ ہے کہ علامہجوادی کا یہ کہنا حقیقت پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ"بہترین شعروہی مانا جاتا تھا جوشراب کے مٹکے سے نکالا گیا ہو"۔ حسن پرستی کا رحجان بھی اردو ادب میں باقی تمام اہم موضوعات کے لئے سم قاتل ثابت ہوا دن رات حسن کی تعریف میں مشغول شاعر کو فرصت کہاں،کہ وہ دیگر مضامین کی طرف دھیان دے سکے۔ اکثر شعراءنے غم دوراں پر غمِ جاناںکو ترجیح دی۔ اور شراب کو آب حیات سے اولیٰ جانا۔ پیمانہ شراب، شاعری کاپیمانہ قرارپایا۔ روایت شکن غالب نے بھی پیمانے کی اس بندش کو بارہامحسوس کیاہے۔ ہر چندکہ ہو مشاہدہ حق کی گفتگو بنتی نہیں ہے، بادہ و ساغر کہے بغیر ادب کی معروف صنف یعنی غزل حسن اور معشوق پرستی کے لئے وقف ہوئی۔ "حسن زن" کے متعلق جس قدر ہمارےیہاں ادب میں مدح سرائی ملتی ہے اُس کے مقابلے میں" خالقِ زَن " کے حمد کا حصہعشر ِعشیر بھی نہیں۔ اہل ہنر نے اس صنفِ نازک کے ہر منفی و مثبت پہلو کو ابھارا۔ صرف شاعری ہی میں نہیں تقریباً ہر فنِ لطیف میں یہ بات مشترک ہے کہ اہل ہنر کے تخیل کےشیش محل میں عورت کی جلوہ گری تمام موزوعات پر چھائی رہتی ہے۔ بقولِ اقبال ہندکے شاعرو صورت گر و افسانہ نویس آہ! بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار اس بات کوتسلیم کرنے میں اہل ِفن پس و پیش کرتے تھے کہ شاعر انسانی فکر کی اصلاح کا فریضہ اثرانگیز طریقے سے انجام دے سکتاہے۔ بقول علامہ اقبال شاعر سماجی جسم میں دیدہ بینا کیحیثیت رکھتا ہے۔ جب بھی اس سماج میں سے کوئی عضو درد میں مبتلاءہو جائے۔ یعنی مفاسدکاشکار ہوجائے تو شاعرجذبہ و فن کا استعمال کرکے اپنے ہم نفس بشر کو نفسیاتی کمک فراہم کرسکتا ہے۔ لیکن اب اگر شاعر خود ہی مفاسد اور خرابیوں کے ہتھے چڑھ جائے۔ توپھر عام افراد کا خدا ہی حافظ۔! اہل فن کا بگڑنا گویا پورے سماج کا بگڑنا ہے۔ اسبات کی تصدیق علامہ اقبال کے اس قول سے بھی ہوتی ہے "کہ کسی قوم کی معنوی صحت زیادہتر اس روح کی نوعیت پر منحصر ہے جو اسکے اندر اسکے شعراءاور صاحبانِ فن پیدا کرتےہیں۔ لھٰذا کسی اہل ہنر کا مائل بہ اغلاط ضمیر اور تصور ایک قوم کے لئے ایٹ لااور چنگیز کے لشکروں سے زیادہ تباہ کن ہو سکتا ہے بشرطیکہ اسکی تصویریں یا اسکےنغمے جذب و کشش کی طاقت رکھتے ہوں۔" مندرجہ بالا قول کے حوالے سے بطورِ دلیل اردوادب سے یہ مثال پیش کی جاسکتی ہے کہ اردو شاعری کی معشوق نوازی کے منفی اثرات سےخودی،عزتِ نفس ،معرفتِ ذات اور تسخیرِ کائنات جیسے حیات بخش انسانی پہلوؤں پر بھیمردنی چھائی ہوئی تھی ۔فرضی محبوب کے سامنے خود کو حقیر گرداناایک شاعر کا شیوئہناگزیر بن گیا تھا اوروہ اس فرضی محبوب کو خد اسے بھی بڑا درجہ دینے میں نہیں کوئیعار محسوس نہیں کرتا تھا۔ اس معشوق پرستی نے ایک فرد کی خودداری کو لتاڑنے میں جوکثر اُٹھا رکھی تھی اسے پورا کرنے کے لیئے تصوف کا "فلسفہ نیستی"کام آیا۔ باالفاظ دیگر شعراءکی معشوق پرستی اور صوفیاءکے فلسفۂ نیستی نے جب فرد کی ہستی اور خودیکے خلاف ایک مشترکہ محاذ کھولا۔ تو انسانی وجود کی عزت و توقیراورسربلندی کی روح موت کی دہلیز پر دہائی دینے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ گاہے بگاہے غالب جیسا معشوق فریب عاشق اپنی خودداری کو چھوڑ کر عدم کو وجود پر فوقیت دیتا ہے۔ ڈبویا مجھ کو ہونےنے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا بڑی مدت سے اردو ادب کی روح چندمخصوص شعری مضامین کے قید میں تڑپ رہی تھی۔ اور ایک نجات دہندہ کی تلاش میں تھی۔ جو اسے ایک وسیع وعریض کائیناتِ فکر و خیال سے آشنااورایک پر وقار نظریہ ¿ حیات کےروبروکردیتا۔چنانچہ اردو شاعری کو وہ مطلوب نجات دہندہ علامہ اقبال کے روپ میں نصیب ہوا جس نے شاعری کے تمام ناقص معیارات پر سوالیہ نشاں لگا دیا۔علامہ اقبال سے قبل بھی" ادب برائے زندگی "کے تصور کی لہر تو اٹھی تھی۔ مگروہ لہر ساحل ِ مراد تک آتےآتے ہی دم توڑ بیٹھی۔ جس شان سے اس فن کے مقصد کی آبیاری علامہ نے کی اُس کی نظیرپوری ادبی تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل پائے گی۔ علامہ اقبال نے فنِ شاعری کو ایک عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ قرار دیا۔ اُ نہیں اس بات کاشدید احساس تھا کہفن کار کی قربانی کے بغیر فن کا زندہ رہنامحال ہے گویا فنکار اپنی زندگی کو فن کےلئے وقف کردیتا ہے تب جاکر اسکی جاذبیت اور دلکشی برقرار رہ پاتی ہے۔ رنگ ہو یاخشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت معجزہ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود علامہ اقبال جیسے غائتی شاعر کے دل میں یہ بات کیونکر نہ کھٹکتی کہ اہل فن کا یہ خونِ جگرمحض صنفِ نازک کے ہونٹوں کی لالی بن جائے۔ یا مئے آتشیں کی قوتِ خمار کو مزیدتقویت دینے کے کام آجائے اورصرف گلوں کی رنگت کو بڑھانے کے لئے استعمال میں لایا جائےتاکہ بلبل کی رنگین نوائی میں کچھ اور مٹھاس پیداہو۔ علامہ اقبال چاہتے تھے کہ یہ وہبی نعمت یعنی فن و ہنر کی صلاحیت جو مخصوص افراد کے حصے میں آتی ہے بامقصدو ہدف ہو۔ اسکا استعمال انسانیت کی روحانی بقاءکی خاطر ہو۔ کیونکہ فن کا تعلق براہِ راست انسانی روح سے ہوتا ہے۔ اور سب سے زیادہ اسی روح کو متاثر کرتا ہے۔ اسے حیات بخش کام لیئے جاسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ نظر کو فن کی مقصدیت سمجھاتے ہوئے کہتےہیں۔ اے اہل نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن جوشے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا مقصود ِہنر سوزِحیاتِ ابدی ہے یہ ایک نفس یا دونفس مثلِ شرارکیا شاعر کی نواہو کہ مغنی کا نفس ہو جس سے چمن افسردہ ہووہ بادِ سحر کیا ! محض ذاتی ذوق ِطبع کی خاطر فن و ہنر میں جولانی طبع دکھانااقبا ل کی نظر میں فعلِ لا حاصل ہے کیونکہ صاحب ِہنرغایت درجے کا تجرد پسند ہی کیوں نہ ہو وہ اپنے گردو پیش سے فرار اختیار نہیں کر سکتا ہے اور اس کے فنی نگارشات کےمنفی و مثبت اثرات اسے مربوط معاشرہ پر لابدی طور مرتب ہوں گے اس لئے شاعر ہو یاکوئی اور فن کار اُسے ہمیشہ اجتماعیت کی فلاح کا خیال ذہن میں ہونا چاہیئے شاعرخوابیدہ ذہنوں کوجھنجھوڑ کر بیدار بھی کرسکتا ہے اور اپنی فنی ساحری سے ہوشیار مغزافراد کو بھی مسحور کرسکتا ہے۔یعنی اسکی منفی طرزِ فکر بہت حد تک انسانی معاشرےمیں منفی خیالات پیدا کرسکتی ہے۔اپنے ہنر میں اعلی پایہ جاذبیت رکھنے والے ہنر مندافراد قومی بیداری کی عظیم ذمہ داری بطریقِ احسن نبھاسکتے ہیں ان کے پاس ایک ایسااثر انگیز آلہ ہوتا ہے جو ان کو عام افرادسے ممتاز بناتا ہے۔ اجتماعی فرض یا قومیذمہ داری سے دامن کش شاعر اپنی شاعری کے اعلیٰ نمونے پیش کرے تو کرے۔ لیکن علامہ اسطرح فن پاروں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ جنمیں پیغام ِبیداری کے بجائے حشیش وافیون کی تاثیر پائی جاتی ہو۔ اسی اصول کی بنیاد پر علامہ نے حافظِ شیرازی پر سخت الفاظ میں تنقید کی۔ اور اسکی شاعری کو افیون آلود قرار دیا۔ ہوشیار ازحافظِ صہبا گسار جامش از زہرِ اجل سرمایہ دار رہن ساقی خرقہپرہیز او مے علاجِ ہولِ رستاخیز او علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری کو ہمیشہ مقصد کے تابع رکھا۔ انہوں نے ان تمام روایات سےانحراف کیا جن سے قومی ضمیر میں غلامی و تقلیدکی خوپیداہوجاتی ہے۔ وہ اپنی راہ آپطے کرنے کے قائل تھے انہوں نے دامنِ شاعری کوفنی و فکری جوہر پاروں سے مالامال کردیا۔ غالب کے بعداقبال ہی وہ شاعر ہے جس نے غزل کے دامن کو دقیق اور رنگارنگ فلسفی اور مذہبی افکار سے بھر دیا۔انہوں نے نیا اندازاور سوز و سازکو وجود بخشا کیوںکہ وہ اپنے تئیں دوسروں کی تقلید کو حرام تصور کر تے تھے بلکہ اوروں کو بھی ایک الگ راہ وروش اپنانے کی تلقین کر تے رہے ہیئت کے اعتبارسے اقبا ل کسی نئی صنف ِ سخن کے موجد تونہیں بنے ،البتہ مو ضوع کے حوالے سے انہوں نے جدت و ندرت سے ضرور کام لیا ۔ گویا ظاہری تبدیلی کے بجائے اسکے جو ہر کو بدل ڈالا اور یوں شاعری کے جسد ِقدیم میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اقبال کے یہاں بھی غزل ونظم کا وہی روایتی قا لب ہمیں نظر آتامگر اسمیں جو فکر و خیال کا مواد ڈھلا ہوا ہے وہ یقینا اچھوتا اورغیر روایتی ہے ۔ ذوق وشوق، نیا شوالہ، مسجدِقرطبہ، ساقی نامہ، ابلیس کی مجلس شوری، خضرِراہ، شکوہ، جوابِشکوہ، شمع اور شاعر، والدہ مرحومہ کی یاد میں، امامت، وغیرہ جیسی نظموں میں حیات وکائنات، موت، ملی زبوں حالی، عصری شعور، جیسے مسائل کو فنی مہارت کے ساتھ سمو دیا۔ اسپر مستزاد یہ کہ نازک پیکر غزل کو بھی کچھ اس انداز سے فکر و فلسفہ کے بھاری بھرکم موضوعات سے مالا مال کر دیا کہ اس کی نازک مزاجی بوجھل نہ ہوئی میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں غلغلہ ہائے الاماں بتکدہ صفات میں حور و فرشتہ ہیں اسیر میرےتخیلات میں میری نگاہ سے خلل تیری تجلّیات میں وہی غزل جو اب تک محض قلبی واردات کے اظہار کا خوبصورت ذریعہ تھی اقبال کے ذہنِ رسا کی جولان گاہ بن گئی۔اور اس میں الٰہیات، قضاوقدر،نظریہ خودی ،موت و حیات کے تعلق سے مختلف اسرارمنکشف ہوئے اگرکج رو ہے انجم آسمان تیرا ہے یا میرا مجھے فکرِجہاں کیوں جہاں تیرا ہے یامیرا اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن زوالِ آدمِ خاکی زیاں تیرا ہے یامیرا اسے صبحِ ازل انکار کی جرا ت ہوئی کیوں کر مجھے معلوم کیا! وہ راز داں تیرا ہے یامیرا نئی تراکیب کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال نے اردو شاعری میں سالہا سال سے مستعمل ناگزیرتراکیب و اصطلاحا ت کابھی استعمال کیا۔ لیکن انہوں نے ان کی معنویتاثیر ہی بدل دی۔ مثال کے طور پر لفظ "عشق"کو ہی لیجئے۔ اکثر شعراءکے یہاں عشق کی نوعیت مجازی دکھائی دیتی ہے۔ مگر اقبال کے یہاں یہ لفظ حقیقی معنوں میں نہ صرف جمالی بلکہ جلالی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر دکھائی دیتا ہے۔ مرد خدا کا عمل عشق سے صاحبِ فروغ عشق ہے اصلِ حیات موت ہے اس پر حرام عشق دمجبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰ عشق خدا کا رسول عشق خدا کا کلام عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام اقبال نے کسی خیالی معشوق کے فراق میں آنسو نہیں بہائے بلکہ شاعرانہ سوز و گداز کی توسط سے دلِمسلم میں حرارت و حرکت پیدا کرنے کی پیہم سعی کی۔ اورشاعری کو خواب و خیال کی دنیاسے نکال کر جہانِ حقیقی سے روشناس کرانے میںایک اہم رول نبھایا۔ اُن کی شاعرانہ خطابت کا مدعا "عنقا" نہیں، جو دام ِو ہم و گماں میں بھی نہ آسکے،اُنہوں نے اپنےخیال کی بلند پروازی کے دوران ہمیں ایک مانوس وجود یعنی شاہین خوددارسے متعارفکرایا۔ علامہ چاہتے تو فکر و خیال کا ایک ایسا جہاں آباد کرتے جو سراسر حقیقی دنیاسے مختلف ہوتا۔لیکن ان کی ہمدردانہ اور مصلحانہ سوچ نے انہیں حقیقت کی دنیا میں رہرہے انسان سے قطع تعلق کرنے کی ہرگز اجازت نہ دی۔ یہی وجہ ہے وہ انسان کے بارے میں ہمیشہ متفکر رہے کہ کیسے اُسے کھوئی ہوئی عظمت پھر سے ہاتھ آجائے۔ اور یہ "ٹوٹاہواتارہ ماہِ کامل" بن جائے۔ اقبال عارفوں کے عالم باطن کی معرفت بھی رکھتے تھے۔ اورخارجی اور سیاسی حالت سے بھی باخبر تھے۔ ہمیشہ اسی کوشش میں لگے رہے کہ عالم باطن اور عالم ظاہر کے مابین پیداشدہ خلیج کو کم کیا جائے۔ وہ ایک زاہد کی "ذکروفکرِ صبحگاہی" کی مخموری کیفیت کو ابلیس کی تیار کردہ "شراب طہور"کا نتیجہ قراردیتے ہیں۔اگر یہ زاہد اپنے عصری حالات سے نابلد ہو۔ مست رکھو ذکروفکر صبحگاہی میں اسے پختہ ترکردو مزاجِ خانقاہی میں اسے اقبال ظاہرپرست انسان کی نارسائی پر بھی نالاں ہے کہ اُس نے عالمِ بیرون کو ہی اپنا قبلہ و کعبہ بنا دیا۔ اور درون ِ خانہ ہنگاموں سے بے خبررہا۔ نتیجتاًروز نت نئے ستاروں پر کمند ڈالنے کے باوجود اپنے باطنیعالم اکبر کو دریافت کرنے میں ناکام رہا ڈھونڈنے والا ستاروں کیگزرگاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنہ سکا مابعد الطبیاتی نظریات کو تسلیم کرنے والا اقبال ہرگز عالم حقیقی کو سنوارنے کے عمل سے دست کش نہیںہوتے۔ اور بحثیت شاعر رات اُسے اُسکی بے قراری کا سبب پوچھتی ہے۔ خاموش ہوگیا ہے تاررباب ہستی ہے میرے آئینے مین تصویر خواب ہستی بستی زمین کی کیسی ہنگامہ آفریں ہے یوں سوگئی ہے جیسے آباد نہیں ہے شاعر کا دل لیکن ناآشناسکوں سے آزاد رہ گیا تو کیونکر میرے فسوں سے اور شاعر راتوں کوچھپ چھپ رونے کا سبب یوں بیاں کرتا ہے۔ میں ترے چاند کی کھیتی میں گہر بوتاہوں چھپ کے انسانوںسے مانند سحر روتا ہوں مجھ میں فریاد جو پنہاں ہےسناﺅں کس کو تپش شوقِ نظارہ دکھاﺅں کس کو ضبطِ پیغامِ محبت سے جو گھبراتاہوں تیرے تابندہ ستاروں کو سناجاتاہوں الغرض اقبال کی شاعری اصل میں عالمگیر مشینری ہے جسمیں اسلام کا پیغام ِحرارت و حرکت مضمر ہے۔ یہ درماندہ کارواںکے لئے صدائے جرس ہے۔ اقبال کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا اقبال کا ذہنی و فکری ارتقاء شاعری کی ابتداء اقبال کی شاعری پر اظہار خیال کرنے والے مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ ان کی شاعری کا آغاز اسی وقت وہ گیا جب وہ ابھی سکول کے طالب علم تھے اس سلسلے میں شیخ عبدالقادر کہتے ہیں، ” جب وہ سکول میں پڑھتے تھے اس وقت سے ہی ان کی زبان سے کلام موزوں نکلنے لگا تھا۔ “ عبدالقادر سہروردی کا کہنا ہے کہ، ” جب وہ سکول کی تعلیم ختم کر کے اسکاچ مشن کالج میں داخل ہوئے تو ان کی شاعری شروع ہوئی۔“ ان دونوں آراءمیں اگرچہ معمولی سا اختلاف ہے لیکن یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری کا آغاز انہی دنوں ہوگیا تھا جب وہ اپنے آبائی شہر سیالکوٹ کے چھوٹے موٹے مشاعروں میں بھی شرکت کیا کرتے تھے۔ لیکن ان کی اس زمانہ کی شاعری کا نمونہ دستیاب نہیں ہو سکا ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد علامہ اقبال جب اعلیٰ تعلیم کے لئے لاہور پہنچے تو اس علمی ادبی مرکز میں ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کو ابھرنے اور تربیت پانے کا سنہر ی موقعہ ہاتھ آیا ، یہاں جگہ جگہ شعر و شاعری کی محفلوں کا چرچا تھا۔ مرزا رشد گورگانی دہلوی اور میر ناظم لکھنوی جیسے پختہ کلام اور استادی کا مرتبہ رکھنے والے شاعر ےہاں موجود تھے اور ان اساتذہ شعر نے ایک مشاعرے کا سلسلہ شروع کیاتھا۔ جو ہر ماہ بازارِ حکیماں میں منعقد ہوتا رہا۔ اقبال بھی اپنے شاعرانہ ذوق کی تسکین کی خاطر اس مشاعر ے میں شریک ہونے لگے۔ اس طرح مرزا ارشد گورگانی سے وہ بحیثیت شاعر کے متعارف ہوئے اور رفتہ رفتہ انہوں نے مرزا صاحب سے اپنے شعروں پر اصلاح بھی لینی شروع کر دی۔ اس زمانہ میں وہ نہ صرف غزلیں کہا کرتے تھے۔ اور یہ غزلیں چھوٹی بحروں میں سادہ ، خیالات کا اظہار لئے ہوئی تھیں۔ البتہ شوخی اور بے ساختہ پن سے اقبال کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اظہار ضرور ہو جاتا تھا۔ بازار حکیماں کے ایک مشاعرے میں انہی دنوں اقبال نے ایک غزل پڑھی جس کا ایک شعر یہ تھا۔ موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لئے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے اس شعر کا سننا تھا کہ محفل مشاعرہ میں موجود سخن سنج اصحاب پھڑک اُٹھے اور مرزا ارشد گورگانی نے اسی وقت پیشن گوئی کی کہ اقبال مستقبل کے عظیم شعراءمیں سے ہوگا۔ شاعری کی شہرت اقبا ل کی شاعری کا چرچا شروع شروع میں بازار حکیماں کے مشاعروں تک محدود تھا۔ یا پھر لاہور کے کالجوں کی ادبی مجالس میں انہیں شاعر کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔ لیکن زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ شہر کی ادبی مجالس میں انہیں ایک خوش گو اور خوش فکر نوجوان شاعر کی حیثیت سے پہنچانا جانے لگا۔ انہی دنوں انہوں نے غزل کے ساتھ ساتھ نظم پر بھی توجہ کی۔ ایک ادبی مجلس میں انہوں نے اپنی اولین نظم ”ہمالہ “ سنائی تو اسے بہت پسند کیاگیا۔ چنانچہ اقبال کی یہ پہلی تخلیق تھی جو اشاعت پذیر ہوئی۔ شیخ عبدالقادر نے اسی زمانہ میں اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لئے اپنا پہلا مشہور رسالہ ”مخزن “ جاری کیاتھا۔ اس کے پہلے شمارے میں اپریل ١٠٩١ءمیں اقبال کی یہ نظم شائع ہوئی یہ گویا ان کی باقاعدہ شاعری کا آغاز تھا۔ ان کے پہلے مجموعہ کلام ”بانگ درا“ کی اولین نظم یہی ہے۔ اور اسی نظم کے چھپنے کے بعد ان کی شہرت روز بروز پھیلتی چلی گئی۔ شاعری کے مختلف ادوار اقبال کے ذہنی و فکری ارتقاءکی منازل کا تعین اس کی شاعری کو مختلف ادوار میں تقسیم کرکے کیا جاتا رہا ہے کیونکہ اقبال نے اپنے افکار و خیالات کے اظہار کا ذریعہ شاعری کو ہی بنایا ہے۔ یہ طریقہ سب سے پہلے شیخ عبدالقادر نے اختیار کیاتھا۔ انہوں نے ”بانگ درا“ کا دیباچہ لکھتے وقت اقبال کی شاعری پر تبصرہ کیا ہے۔ اور اسے تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ لیکن یہ تقسیم بعد میں اس لئے قابل قبول نہیں رہی کہ شیخ عبدالقادر کے پیش نظر اقبال کا وہ کلام تھاجو ”بانگ درا“ میں شامل ہے۔ بعد کے نقادوں کے ان کے پورے کلام کو پیش نظر رکھ کر شیخ عبدالقادر کی پیروی کرتے ہوئے اُسے مختلف ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ چنانچہ مولانا عبدالسلام ندوی اور طاہر فاروقی نے اقبال کی شاعری کے چار ادوار قائم کئے ہیں۔ ان دونوں کے ہاں ادوار کا تعین تقریباً یکساں ہے۔ طاہر فاروقی نے اپنی کتاب ”سیرت اقبال“ اور عبدالسلام ندوی نے اپنی کتاب” اقبال کامل“ میں ان ادوار کا تعین کیاہے۔ان دونوں کے نزدیک اقبال کی شاعری کے مندرجہ ذیل چار ادوار ہیں۔ 1۔ پہلا دور از ابتداء1905ءیعنی اقبال کے بغرضِ تعلیم یورپ جانے تک کی شاعری 2۔دوسرا دور 1905ءتا 1908ءیعنی اقبال کے قیامِ یورپ کے زمانہ کی شاعری 3۔ تیسرا دور 1908ءتا 1924ءیعنی یورپ سے واپس آنے کے بعد ”بانگ درا “ کی اشاعت تک کی شاعری 4۔ چوتھا دور 1924ءتا 1938ء”بانگ درا “ کی اشاعت سے اقبال کے وفات تک کی شاعری بعد میں ڈاکٹر سید عبداللہ نے اپنی کتاب ”طیف اقبال“ میں یہی طریقہ استعمال کرتے ہوئے صرف ایک دور کا اضافہ کرتے ہوئے اقبال کی شاعری کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے دراصل اقبال کی شاعری کو ان سیاسی واقعات کی روشنی میں تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے جن سے ہندوستان کے مسلمان متاثر ہوتے رہے۔ اس لئے ان کی شاعری کی تقسیم ان چار ادوار میں ہی درست ہے جو مولانا عبدالسلام ندوی اور طاہر فاروقی نے متعین کئے ہیں۔ شاعری کا پہلا دور اقبال کی شاعری کا پہلا دوران کی شاعری کی ابتداءسے ٥٠٩١ءتک یا بالفاظِ دیگر اس وقت تک شمار کیا جاسکتا ہے جب وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر یورپ روانہ ہوئے ۔ اس دور کی خصوصیات ذیل ہیں۔ روایتی غزل گوئی اپنی شاعری کے بالکل ابتدائی زمانہ میں اقبال کی توجہ غزل گوئی کی جانب تھی اور ان غزلوں میں رسمی اور روایتی مضامین ہی باندھے جاتے تھے۔ واپس آنے کے بعد انہوں نے مرزا ارشد گورگانی سے اصلاح لینی شروع کی تب بھی ان کی غزلوں کا روایتی مزاج برقرار رہا ۔ البتہ ان کی طبیعت کی جدت طرازی کبھی کبھی ان سے کوئی ایسا شعر ضرور کہلوا دیتی تھی جو عام ڈگر سے ہٹ کر ہوتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب استاد داغ کی زبان دانی اور شاعری کا چرچا تمام ہندوستان میں پھیلا تھا۔ اقبال نے اصلاح ِ سخن کی خاطر داغ سے رابطہ پیدا کیا۔ وہ نہ صرف اپنی غزلوں پر داغ سے اصلاح لیتے رہے بلکہ داغ کا لب و لہجہ اور رنگ اپنانے کی کوشش بھی کی۔اور داغ کی طرز میں بہت سی غزلیں کہیں ۔ چند غزلیں جو اس دور کی یادگار کے طور پر باقی رہ گئی ہیں وہ واضح طور پر داغ کے رنگ نمایاں کرتی ہیں انہی میں سے وہ مشہور غزل بھی ہے جس کے چند اشعار یہ ہیں۔ نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیاتھی تمہارے پیامی نے سب راز کھولا خطا اس میں بندے کی سرکار کیاتھی نظم نگاری اقبال نے جلد ہی اندازہ کر لیاتھا کہ روایتی قسم کی غزل گوئی ان کے مزاج اور طبیعت سے مناسبت نہیں رکھتی اور انہیں اپنے خیالات کے اظہار کے لئے زیادہ وسیع میدان کی ضرورت ہے چنانچہ انہوں نے نظم نگاری کی جانب توجہ کی اور اس کا آغاز” ہمالہ “ جیسی خوبصورت نظم لکھ کر کیا جسے فوراً ہی قبول عام کی سند حاصل ہوگئی۔ اس سی ان کا حوصلہ بندھا اور انہوں نے پے درپے نظمیں لکھنی شروع کر دیں ۔ انہی نظموں میں ان کی وہ مشہور نظمیں شامل ہیں جو ”نالہ یتیم “ ”ہلال عید سے خطاب“ اور ”ابر گہر بار“ کے عنوان سے انجمنِ حمایت اسلام کے جلسوں میں پڑھی گئیں۔ مغربی اثرات اقبال کو شروع ہی سے مغربی ادب کے ساتھ شغف رہاتھا چنانچہ اپنی شاعری کے ابتدائی زمانہ میں انہوں نے بہت سی انگریزی نظموں کے خوبصورت ترجمے کئے ہیں۔ ”پیام صبح “ ”عشق اور موت“اور ” رخصت اے بزم جہاں“ جیسی نظمیں ایسے تراجم کی واضح مثالیں ہیں۔ اس زمانہ میں انہوں نے بچوں کے لئے بھی بہت سی نظمیں لکھی ہیں۔ مثلاً مکڑاور مکھی، ایک پہاڑ اور گلہری، ایک گائے اور بکری ، بچے کی دعا، ماں کا خواب ، ہمدردی وغیرہ یہ تمام نظمیں مغربی شعراءکے کلام سے ماخوذ ہیں۔ فلسفہ خودی اقبال کے ابتدائی دور کی کئی نظمیں اس لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہیں کہ ان میں اقبال کی فلسفہ خودی کے کئی عناصر اپنی ابتدائی اور خام شکل میں موجود ہیں۔ یہی عناصر ہیں جنہیں آگے چل کر اپنی صورت واضح کی اور مربوط و منظم ہو کر اقبال کے نظام فکر میں بنیادی حیثیت اختیار کر لی اور اس کا نام فلسفہ خودی قرار پایا۔اس فلسفہ خودی کے درج ذیل عناصر ہیں۔ 1 اقبال کے فلسفہ خودی میں انسان کی فضیلت ، استعداد اور صلاحیتو ں کابڑا زور دیا گیا ہے۔ 2 فلسفہ خودی کا دوسرا بڑا عنصر عشق اور عقل کی معرکہ آرائی میں عشق کی برتری کا اظہار ہے۔ 3 فلسفہ خودی کا ایک اور عنصر خیر و شر کی کشمکش ہے جو کائنات میں ہر آن جاری ہے۔ 4 فلسفہ خودی کا ایک بہت قوی عنصر حیاتِ جاودانی اور بقائے دوام کا تصور ہے۔ 5 اقبال کے فلسفہ خودی کا ایک اہم عنصر یہ ہے کہ زندگی کی جہد مسلسل خیال کرتے ہیں۔ اقبال کے اس ابتدائی دور کی شاعری کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو ڈاکٹر سید عبداللہ کے بقول ، ” یہ ایک طرح کا جستجو، کوشش، اظہار اور تعمیر کا دور ہے اقبال کی آنے والی شاعری کے بیشتر رجحانات اور شاعرانہ افکار کے ابتدائی نقوش و آثار اس شاعری میں مل جاتے ہیں۔“ جبکہ ڈاکٹر عبداللہ رومانی کا کہنا ہے۔ ” اس دور کا اقبال نیچر پر ست ہے اور جو چیز اس دور کی نظموں میں نمایاں نظر آتی ہے وہ تنہائی کا احساس ہے اس بھری انجمن میں اپنے آپ کو تنہا سمجھنے کا احساس اور زادگانِ فطرت سے استعفار اور ہم کلامی اقبال کی رومانیت کی واضح دلیل ہے۔“ شاعری کا دوسرا دور اقبال کی شاعری کا دوسرا دور 1905ءمیں ان کی یورپ کے لئے روانگی سے لےکر 1908ءمیں ان کے یورپ سے واپسی تک کے عرصہ پر محیط ہے۔ گویا اس دور میں ان کا وہ کلام شامل ہے جو انہوں نے اپنے قیام یورپ کے دوران لکھا اس تمام عرصہ میں انہیں شعری مشغلہ کے لئے بہت کم وقت ملا کیونکہ ان کا زیادہ وقت اعلیٰ تعلیم کے حصول پی ۔ ایچ ۔ ڈی کے لئے تحقیقی مصرفیات اور مغربی افکار کے مطالعہ میں صرف ہوتا رہا۔ شائد ان ٹھوس علمی مصروفیات کا یہی اثر تھا کہ ایک مرحلہ پر وہ شاعری کو بیکار محض تصور کرنے لگے اور اس مشغلہ کو ترک کرنے کا ارادہ کر لیا۔ شیخ عبدالقادر جو اُن دنوں انگلستان میں تھے لکھتے ہیں کہ ، ” ایک دن شیخ محمد اقبال نے مجھ سے کہا کہ ان کا مصمم ارادہ ہو گیا ہے کہ وہ شاعری کو ترک کر دیں اور قسم کھا لیں کہ شعر نہیں کہیں گے۔ میں نے ان سے کہاکہ ان کی شاعری ایسی شاعری نہیں جسے ترک کرنا چاہیے ۔ شیخ صاحب کچھ قائل ہوئے کچھ نہ ہوئے آخر یہ قرار پایا کہ آخری فیصلہ آرنلڈ صاحب کی رائے پر چھوڑا جائے ۔ آرنلڈ صاحب نے مجھ سے اتفاق رائے کیا اور فیصلہ یہی ہوا کہ اقبال کے لئے شاعری چھوڑنا جائز نہیں۔“ اس زمانہ کی شاعری کی خصوصیات درجِ ذیل ہیں، پیامبری اقبال کی اس دور کی شاعری میں یورپ کے مشاہدات کا عکس واضح نظر آتا ہے یورپ کی ترقی کے مشاہدہ نے ان پر یہ راز کھولا کہ زندگی مسلسل جدوجہد ، مسلسل حرکت ، مسلسل تگ و دو اور مسلسل آگے بڑھتے رہنے سے عبارت ہے۔ اس لئے مولانا عبدالسلام ندوی کہتے ہیں ، ” اسی زمانہ میں ان کا زاویہ نگاہ تبدیل ہوگیا اور انہوں نے شاعر کی بجائے پیامبر کی حیثیت اختیار کر لی۔ “ چنانچہ انہوں نے ”طلبہ علی گڑھ کالج کے نام“ کے عنوان سے جو نظم لکھی اس میں کہتے ہیں ، اور روں کا ہے پیام اور ، میرا پیام اور ہے عشق کے دردمند کا طرز کلام اور ہے شمع سحر کہہ گئی، سوز ہے زندگی کا راز غمکدہ نمود میں ، شرط دوام اور ہے اس طرح چاند اور تارے اور کوشش ناتمام بھی اسی پیغام کی حامل ہیں۔ یورپی تہذیب سے بیزاری اقبال یورپ کی ترقی سے متاثر ہوئے تھے لیکن ترقی کی چکا چوند انہیں مرغوب نہیں کرسکتی ہے۔ وہ صحیح اسلامی اصول و قوانین اور قرآنی احکام پر عمل کرنے اور بری باتوں سے پرہیز کرنے کے قائل ہیں۔ مغربی تہذیب کا کھوکھلا پن ان پر ظاہر ہوتا ہے وہ اس سے بےزاری کا اظہار و اشگاف الفاظ میں کرتے ہیں۔ دیار ِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ زر اب کم عیار ہوگا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پر بنے گا آشیانہ ناپا ئیدار ہوگا اسلامی شاعری مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن اور ناپائیداری کا ادراک کرنے کے بعد اورجس فن افکار نے اس تہذیب کو جنم دیا تھا ان کی بے مائیگی کو سمجھ لینے کے بعد اقبال آخر کار اسلامی نظریہ فکر کی جانب راغب ہوئے۔اسی تغیر فکر نے ان کے اندر ملتِ اسلامیہ کی خدمت کا جذبہ بیدار کیا۔ اس جذبے کی عکاسی ان کی نظم ”شیخ عبدالقادر کے نام “ میں ہوتی ہے۔ جہاں وہ لکھتے ہیں۔ اُٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق ِ خاور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کردیں شمع کی طرح جئیں بزم گہ عالم میں خود جلیں دیدہ اغیار کو بینا کر دیں فارسی شاعری کا آغاز اس دور میں اقبال نے اردو کے ساتھ ساتھ فارسی میں طبع آزمائی شروع کی ۔ فارسی زبان کی وسعت اور اس کے پیرایہ اظہار و بیان کی ہمہ گیری کے ساتھ اقبال کو اپنی شاعری کے وسیع امکانات کی بڑی مطابقت نظر آئی۔ اس دور تک پہنچتے پہنچتے اقبال کے افکار و خیالات کسی قدر واضح اور متعین شکل اختیار کرنے لگتے ہیں۔ یورپی تہذیب کی ملمع کاری اور کھوکھلے پن کا ان پر اظہار ہوگیا ہے اور وہ ملک کی نجات مشرقی افکار و نظریات میں پانے لگے ہیں۔ اس ملت کے لئے ان کے پاس اب یہ پیغام ہے کہ وہ اسلام کے اصولوں پر سختی سے کار بند ہوں۔ شاعری کا تیسرا دور اقبال کی شاعری کا تےسرا دور 1908ءمیں یورپ سے ان کی واپسی کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ اور 1924ءمیں ”بانگ درا“ کی اشاعت تک شمار کیا جاتا ہے یہ دور ان کے افکار و خیالات کی تکمیل اور تعین کا دور ہے اس دور کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔ وطنیت و قومیت اقبال نے قیام یورپ کے دوران اُن اسباب کا بھی تجزیہ کیا تھا جو مغربی اقوام کی ترقی اور عروج ممدو معاون ہونے اور ان حالات کا بی گہرا مشاہدہ کیاتھا جو مشرقی اور خاص طور پر اسلامی ممالک کے زوال اور پسماندگی کا باعث بنے۔ ان کی تیز بین نظروں کے سامنے اب وہ تمام حربے بے نقاب تھے جو مغربی اقوام نے مشرق کو غلام بنائے رکھنے کے لئے وضع کر لئے تھے۔ ان سب حربوں میں زیادہ خطرناک حربہ وطنیت اور قومیت کا نظریہ تھا۔ اس تصور کو ملتِ اسلامیہ کے لئے سب سے زیادہ نقصان دہ سمجھنے لگے اِ سی لئے انہوں نے کہا کہ ، ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے اقوام میں مخلوق ِ خدا بٹتی ہے اس سے قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے اسلامی شاعری اس دور میں اقبال صرف وطنیت اور قومیت کے مغربی نظریہ کو مسترد کرکے اس کے مقابلے میں ملت کے اسلامی نظریہ کی تبلیغ ہی نہیں کرتے۔ بلکہ اب ان کی پوری شاعری کا مرکز و محور ہی اسلامی نظریات و تعلیمات بن گئے۔ اگرچہ اس زمانہ میں انہوں نے دوسرے مذہبی پیشوائوں مثلاً رام اور گورونانک وغیرہ کی تعریف میں بھی نظمیں لکھیں ہیں۔ لیکن بحیثیت مجموعی ان کی پوری توجہ اسلام اور ملت اسلامیہ کی جانب ہے۔ ”شمع و شاعر“ اور ”خضر راہ“ اس زمانے کے حالات کا بھرپور جائزہ لیتی ہوئی نظمیں ہیں۔ فلسفہ خودی اس دور میں اقبال کا فلسفہ خودی پوری طرح متشکل ہو کر سامنے آیا۔ ان کی اس دور کی شاعری تمام کی تمام اسی فلسفہ کی تشریح و توضیح ہے۔ چنانچہ اردو شاعری میں بھی اس فلسفہ کا اظہار اکثر جگہ موجود ہے اسی زمانہ میں انہوں نے کہا ، تور از کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا! خودی کا راز داں ہو جا ، خدا کا ترجماں ہوجا خودی میں ڈوب جا غافل ، یہ عین زندگانی ہے نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہوجا شاعری کا چوتھا دور یہ دور 1924ءسے لے کران کے وفات تک ہے اس کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔ طویل نظمیں ”بانگ درا“ میں اقبال کی کئی نظمیں شامل ہیں جن میں سے اکثر خارجی اور سیاسی محرکات کے زیر اثر ہیں۔ یہ محرکات چونکہ بہت ہیجان خیز تھے اس لئے نظموں میں جوش و جذبہ کی فضا پوری طرح قائم رہی ہے۔ مثال کے طور پر ”شکوہ“ ”جواب شکوہ“ ، ”شمع و شاعر“ ، طلوع اسلام“ وغیرہ نظموں کے نام لئے جا سکتے ہیں ۔ کئی طویل نظمیں ”بال جبریل “ میں ہیں جیسے ”ساقی نامہ“ وغیرہ۔ نئے تصورات اس دور کے کلام میں کچھ نئے تصورات سامنے آئے مثلاً شیطان کے متعلق نظم ” جبریل ابلیس “ ہے مری جرات سے مشت خاک میں ذوق نمود میرے فتنے جامہ عقل و خرد کا تاروپو گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے قصہ آدم کو رنگیں کر گیا کسِ کا لہو گزشتہ ادوار کی تکمیل بیشتر اعتبار سے یہ گزشتہ ادوار کی تکمیل کرتا ہے۔ مثلاً پہلے ادوار میں وہ یورپی تہذیب سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں جبکہ اس دور میں وہ اس کے خلاف نعرہ بغاوت بلندکرتے ہیں اور اس کے کھوکھلے پن کو واشگاف کرتے ہیں۔ افکار و نظریات میں تغیر و تضاد اقبال کی شاعری کے مندرجہ بالا تفصیلی جائزہ سے یہ بات پوری عیاں ہو جاتی ہے کہ وہ فکری ارتقاءکی مختلف منازل سے ضرور گزرے ہیں۔ لیکن فکری اور نظریاتی تضاد کا شکار کبھی نہیں ہوئے ۔ ابتدائی دور میں وہ وطن پرست تھے تو آخر وقت تک محب وطن رہے ہیں لیکن وطن کی حیثیت انہوں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جو انسان کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرکے آپس میں برسرِ پیکار رہتی ہے۔ کچھ عرصہ بعد انہیں یہ شعور حاصل ہوکہ وہ ایسی ملت کے فرد ہیں جو جغرافیائی حدود میں سمونا نہیں جانتی اس کا نتیجہ یہ نہیں ہوا کہ انہوں نے اپنے ہم وطن دیگر مذاہب کے پیرووں کے لئے نفرت کا اظہار کیا ہو۔بلکہ صرف یہ ہوا کہ انہوں نے اپنا تشخص اس ملت کے حوالہ سے کیا جس کا وہ حصہ تھے۔ یہ ان کی فکری ارتقاءکے مختلف مراحل کے نشانات ہیں اور وہ بہت جلد وطن اور ملت کے متعلق ایک واضح نکتہ نظر کو اپنا چکے تھے ۔ اس کے بعد وہ آخر وقت تک اسی نکتہ نظر کی وضاحت اور تبلیغ میں مصروف رہے اور کسی مقام پر کوئی الجھائو محسوس نہیں کیا۔ اقبال کا تصورِ خودی اقبال کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے اگر چاہیں تو اس کے جواب میں صرف ایک لفظ ”خودی“ کہہ سکتے ہیں اس لئے کہ یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباحث کا محور ہے اور انہوں نے اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو اسی نام سے موسوم کیا ہے۔ اس محور تک اقبال کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں بعض سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہوئی ہے۔ انسان کیا ہے؟ کائنات اور اس کی اصل کیا ہے؟ آیا یہ فی الواقع کوئی وجود رکھتی ہے یا محض فریب نظر ہے؟ اگر فریب نظر ہے تو اس کے پس پردہ کیاہے؟ اس طرح کے اور جانے کتنے سوالات ہیں جن کے جوابات کی جستجو میں انسان شروع سے سرگرداں رہا ہے۔اس طرح کے سوالات جن سے انسان کے وجود کا اثبات ہوتا ہے۔ اردو شاعری میں اقبال سے پہلے غالب نے بھی اُٹھائے تھے۔ جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے لیکن اقبا ل کے سوالات و جوابات کی نوعیت اس سلسلے میں غالب سے بہت مختلف ہے، یہ غالب نے ”عالم تمام حلقہ دامِ خیال ہے“ اور ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔“ کے عقیدے سے قطع نظر کرکے ، وجدانی طور پر ایک لمحے کے لئے محسوس کیا ہے اسے بیان کر دیا ہے اقبال نے ان سوالوں کے جواب میں دلائل و برہان سے کام لیا ہے۔ اور اسے ایک مستقل فلسفہ حیات میں ڈھال دیا ہے۔ یہی فلسفہ حیات ہے جو بعض عناصرِخاص سے ترکیب پا کر اقبال کے یہاں مغرب و مشرق کے حکمائے جدید سے بالکل الگ ہوگیا ہے اس کا نام فلسفہ خودی ہے اور اقبال اسی کے مفسر و پیغامبر ہیں ۔ اس فلسفے میں خدابینی و خودبینی لازم و ملزوم ہیں۔ خود بینی ، خدابینی میں سے خارج نہیں بلکہ معاون ہے۔ خودی کا احساس ذات خداوند ی کا ادراک اور ذات ِ خداوندی کا ادراک خودی کے احساس کا اثبات و اقرار ہے خدا کو فاش تر دیکھنے کے لئے خود کو فاش تر دیکھنا از بس ضروری ہے۔ اگر خواہی خُدارا فاش دیدن خودی رافاش تر دیدن بیا موز اقبال کا تصورخودی تصو ر خودی کو اقبال کے فلسفہ حیات و کائنات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اگر خودی کے تصور کو سمجھ لیا جائے تو اقبال کی شاعری کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے اقبالیات کے ہر نقاد نے خودی پر کسی نہ کسی شکل میں اظہار خیال کیا ہے۔ڈاکٹر سےد عبداللہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔ ”خودی خود حیات کا دوسرا نام ہے۔ خودی عشق کے مترادف ہے۔ خودی ذوق تسخیر کا نام ہے۔ خودی سے مراد خود آگاہی ہے۔ خودی ذوق طلب ہے ۔ خودی ایمان کے مترادف ہے۔ خودی سرچشمہ جدت و ندرت ہے۔ خودی یقین کی گہرائی ہے۔ خودی سوز حیات کا سرچشمہ ہے اور ذوق تخلیق کا ماخذ ہے۔“ اقبال کے ہاں خودی سے مراد خودی فارسی زبان کا لفظ ہے جو لغوی اعتبار سے درج ذےل معانی رکھتا ہے ١) انانیت، خود پرستی ، خود مختاری ، خود سری ، خود رائی ب) خود غرضی ج) غرور ، نخوت ، تکبر ”خودی“ کا لفظ اقبال کے پیغا م یا فلسفہ حیات میں تکبر و غروریا اردو فارسی کے مروجہ معنوں میں استعمال نہیں ہوا۔ خودی اقبال کے نزدیک نا م ہے احساسِ غیرت مندی کا ،جذبہ خوداری کا اپنی ذات و صفات کا پاس و احساس کا، اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے کا، حرکت و توانائی کو زندگی کا ضامن سمجھنے کا، مظاہراتِ فطرت سے برسر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اقبال کے نقطہ نظر سے ”خودی“ زندگی کا آغاز ، وسط اور انجام سبھی کچھ ہے فرد وملت کی ترقی و تنزل ، خود ی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے۔ خودی کا تحفظ ، زندگی کا تحفظ اور خودی کا استحکام ، زندگی کا استحکام ہے۔ ازل سے ابد تک خودی ہی کی کارفرمائی ہے۔ اس کی کامرانیاں اور کار کشائیاں بے شمار اور اس کی وسعتیں اور بلندیاں بے کنار ہیں۔اقبال نے ان کا ذکر اپنے کلام میں جگہ جگہ نئے انداز میں کیا ہے۔ خودی کیا ہے راز دورنِ حیات خودی کیا ہے بیدارئی کائنات ازل اس کے پیچھے ابد سامنے نہ حداس کے پیچھے نہ حد سامنے زمانے کی دھارے میں بہتی ہوئی ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے کہیں یہ ظاہر کیا ہے کہ لاالہ الا اللہ کا اصل راز خودی ہے توحید ، خودی کی تلوارکو آب دار بناتی ہے اور خودی ، توحید کی محافظ ہے۔ خودی کا سرِ نہاں لاالہ الا اللہ خودی ہے تیغ فساں لاالہ الا اللہ کہیں یہ بتایا ہے کہ انسان کی ساری کامیابیوں کا انحصار خودی کی پرورش و تربیت پر ہے۔ قوت اور تربیت یافتہ خودی ہی کی بدولت انسان نے حق و باطل کی جنگ میں فتح پائی ہے۔ خودی زندہ اور پائندہ ہو تو فقر میں شہنشائی کی شان پیدا ہو جاتی ہے۔ اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی تصرف میں آجاتا ہے۔ خودی ہے زندہ تو ہے فقر میں شہنشاہی ہے سنجرل و طغرل سے کم شکوہِ فقیر خودی ہو زندہ تو دریائے بیکراں پایاب خودی ہو زندہ تو کہسار پر نیاں و حریر ڈاکٹر افتخار صدیقی” فروغِ اقبال “ میں اقبال کے نظریہ خودی کے بارے میں رقمطراز ہیں۔ ” نظریہ خودی ، حضرت علامہ اقبال کی فکر کا موضوع بنا رہا ۔ جس کے تما م پہلوئوں پر انہوں نے بڑی شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے ۔ اقبال نے ابتداءہی میں اس بات کو واضح کر دیا کہ خودی سے ان کی مراد غرور و نخوت ہر گز نہیں بلکہ اس سے عرفان ِ نفس اور خود شناسی مراد ہے۔ “ چنانچہ ”اسرار خودی“ کے پہلے ایڈیشن کے دیباچے میں لکھتے ہیں ، ” ہاں لفظ”خودی “ کے متعلق ناظرین کو آگاہ کردینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اس نظم میں بمعنی ”غرور “استعمال نہیں کیا گیا جیسا کہ عام طور پر اُردو میں مستعمل ہے اس کا مفہوم محض احساس نفس یا تعینِ ذات ہے۔“ تقریباً یہی مفہوم اقبال کے اس شعر میں ادا ہوا ہے۔ خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں جو ناز ہو بھی تو بے لذت نیاز نہیں اقبال کے تصور ِ خودی میں صوفیانہ فکر کے بیشتر عناصر ملتے ہیں لیکن صوفیوں کی خودی کا تصور روحانی ہوتا ہے ان کی روحانی انا اس درجہ محکم ہے کہ وہ مادی خودی کو وجود مطلق کا جز قرار دیتے ہیں۔ جبکہ اقبال خودی کے مادی لوازم کو نظر انداز نہیں کرتے اور اس مادی خودی کو بھی بر حق اگرچہ تغیر پذیر جانتے ہیں، صوفی وجود اور خودی کو تسلیم کرلینے کے بعد فنائے خودی میں اپنی نجات سمجھتا ہے۔ اُس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اس خودی کو بے خودی میں بد ل دے تاکہ وہ اپنی اصل سے مل جائے ۔ صوفی اسے ترکِ خود یا نفی خود کے نام سے یاد کرتے ہیں جبکہ اقبال عارضی خودی کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں اور بے خودی تک پہنچنے کے لئے خودی کو ہی ذریعہ اور وسیلہ بناتے ہیں۔ اقبال کے تصور خودی کے ماخذ اقبال کے تصور خودی کا ماخذ ڈھونڈنے کے لئے نقادوں نے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کیں ۔ اس سلسلے میں نطشے، برگساں ، ہیگل، اور لائڈ ماتھر وغیر ہ کا نام لیا گیا ۔ جبکہ خود اقبال نے اس قسم کے استفادے سے انکار کیا۔ خلیفہ عبد الحکیم کے خیال میں اقبال نطشے سے نہیں فشٹے سے متاثر تھے۔ کیونکہ نطشے تو منکر خدا ہے۔ اقبال کو نطشے کی تعلیم کا وہی پہلو پسند ہے جو اسلام کی تعلیم کا ایک امتیازی عنصر ہے۔ اگرچہ ”اسرار خودی“ کے اکثر اجزاءفلسفہ مغرب سے ماخوذ ہیں اور یہاں مسلمان فلسفیوں کے خیالات بہت کم ہیں لیکن اسلامی تصوف میں عشق کا نظریہ اقبال نے مولانا روم سے لیا ہے۔ اور اقبال کی شاعری کا انقلاب انگیز پیغام دراصل رومی کے فیض کا نتیجہ ہے۔ اس بارے میں عبدا لسلام ندوی لکھتے ہیں کہ ، ” خودی کا تصور ڈاکٹر صاحب کے فلسفہ کی اساس ہے اور اسی پر ان تما م فلسفیانہ خیالات کی بنیاد ہے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ یورپین فلسفہ بالخصوص نطشے سے ماخوذ ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس تخیل کو ڈاکٹر صاحب نے مولانا روم سے اخذ کیا ہے۔ “ بقول خلیفہ عبدالحکیم ، ”رومی انفرادی بقا ءکا قائل ہے اور کہتا ہے کہ خدا میں انسان اس طرح محو نہیں ہو جاتا جس طرح کہ قطرہ سمندر میں محو ہو جاتا ہے۔ بلکہ ایسا ہوتا ہے جیسے کہ سورج کی روشنی میں چراغ جل رہا ہے جیسے لوہا آگ میں پڑ کر آگ ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی انفرادیت باقی رہتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے فلسفہ خودی کے لئے بھی یہی نظریہ مناسب تھا اس لئے انہوں نے اس کو مولانا روم سے اخذ کیا ہے۔“ اس سے یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہیے کہ ڈاکٹر صاحب کے فلسفے کی اپنی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اُن کے فلسفہ خودی کے تمام اساسی مضامین درحقیقت قرآن سے ماخوذ ہیں۔ خودی اور فطرت اقبال کے نزدیک خودی اپنی تکمیل اور استحکام کے لئے غیر خودی سے ٹکراتی ہے جس نسبت سے کوئی شے خودی میں مستحکم اور غیر خو د پر غالب ہے اُسی نسبت سے اُس کا درجہ مدارج حیات میں نفیس ہوتا ہے۔مخلوقات میں انسان اس لئے برتر ہے کہ اس کی ذات میں خودی ہے ۔ اور اس خودی سے فطرت ِ انسانی مشاہدہ کی پابند ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ خودی کی منزل زمان و مکاں کی تسخیر پر ختم نہیں ہوتی شاعر کا چشمِ تخیل انسان کی جدوجہد و عمل کے لئے نئے نئے میدان دکھاتا ہے۔ خودی کی یہ ہے منزل اولیں مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں تری آگ اس خاکداں سے نہیں جہاں تجھ سے تو جہاں سے نہیں خودی اور عشق خودی کو آگے بڑھانے میں ایک چیز بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اقبال نے اسے کبھی آرزو اور کبھی عشق کا نام دیا ہے۔ ارتقائے خودی میں عشق سب سے بڑا محرک ثابت ہوتا ہے۔ عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوزِ دم بدم اقبال نے عشق کے کئی مدارج بیان کئے ہیں، عشق فقیہہ حرم ، عشق امیر جنود عشق ہے ابن اسبیل ، اس کے ہزاروں مقام چنانچہ کہیں عشق جمالی صورت اختیار کر لیتا ہے اور کہیں جلالی رنگ میں جھلک دکھاتا ہے۔ عشق کے مضراب سے نغمہ تارِ حیات عشق سے نورِ حیات عشق سے نارِ حیات ڈاکٹر عابد حسین ”خودی اور عشق کا راستہ واضح کرتے ہوئے اپنے مضمون’ ’ اقبال کا تصور خودی میں لکھتے ہیں ، ” اس راہ میں ایک رہنما کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور وہ رہنما عشق ہے عشق اُس مرد ِکامل کی محبت کو کہتے ہیں جو معرفت نفس کے مدارج سے گزر کر خودی کی معراج پر پہنچ چکا ہے۔ “ مردِ خدا کاعمل ، عشق سے صاحب فرو غ عشق ہے اصلِ حیات ، موت ہے اس پر حرام خودی اور فقر طلب و ہدایت کے لئے کسی مرد ِ کامل کے آگے سرِ نیاز جھکانا توخودی کو مستحکم کرتا ہے۔ لیکن مال و دولت و منصب کے لئے دست نگر ہونا اس ضعیف بناتا ہے۔ گدائی صرف اِ سی کا نام نہیں کہ مفلس دولت مند کا طفیلی بن جائے بلکہ دولت جمع کرنے کا ہروہ طریقہ جس میں انسان محنت نہ کرے بلکہ دوسروں کی محنت سے فائدہ اُٹھائے اقبال کے نزدیک گداگری ہے۔ حتیٰ کہ بادشا ہ جو غریبوں کی کمائی پر بسر کرتا ہے سوال و گداگر ی کا مجرم ہے میکدے میں ایک دن ایک مرد زیرک نے کہا ہے ہمارے شہر کا سلطان گدائے بے نوا اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی دینے والا کون ہے مرد ِ غریب و بے نوا گدائی اور فقر میں زمین و آسمان کا فرق ہے گدائی مال کی حاجت میں دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلا تا ہے جبکہ فقر مادی لذتوں سے بے نیاز کائنات کی تسخیر کرنا، فطرت پر حکمرانی اور مظلوموں کو ظالموں کے پنجے سے نجات دلانا ہے۔ ایک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچھری اک فقر سے کھلتے ہیں اسرارِ جہانگیری اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری اک فقر سے مٹی میں خاصیت ِ اکسیری تربیت خودی کے تین مراحل خودی سے تعمیری کام لینے کے لئے اس کی تربیت ضروری ہے بے قید و بے ترتیب خودی کی مثال شیطان ہے۔ اقبال بھی گوئٹے کی طرح اسے تخلیق کی عظیم الشان قوت سمجھتے ہیں جو صراط ِ مستقیم سے بھٹک گئی ہے۔خودی کی منازل کے علاوہ تربیت خودی کے مراحل انتہائی اہم ہیں یہ مراحل تین ہیں ۔ 1) اطاعت الہٰی:۔ اقبال کے نزدیک خودی کا پہلا درجہ اطاعت ہے یعنی کہ اللہ کے قانون ِ حیات کی پابندی کرنا 2) ضبط نفس:۔ دوسرا درجہ ضبط نفس ہے انسان نفس کو جس کی سرکشی کی کوئی حد نہیں قابو میں لائے 3) نیابت الہٰی:۔ ان دونوں مدار ج سے گزرنے کے بعد انسان اس درجے پر فائز ہو جائے گا ۔ جسے انسانیت کا اوج کمال سمجھنا چاہیے ۔ یہ نیابت الہٰی کا درجہ ارتقائے خودی کا بلند ترین نصب العین ہے۔ خودی اور خدا کا تعلق طالب خودی ”مرد خدا“ کی محبت اس قدر برتر اور سرشار ہوتی ہے اور کیف و سرور کی وجہ سے خدا کی اتنی محبت اس کے دل میں پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ خودی کے کل مراحل طے کرنے کے باوجود اپنے آپ کو ناتمام محسوس کرتا ہے اسی کشش کا نام عشق ِ حقیقی ہے۔ عشق بھی ہو حجاب میں ، حسن بھی ہو حجاب میں یا تو خود آشکار ہو، یا مجھے آشکار کر تو ہے محیطِ بیکراں ، میں ہوں ذرا سی آب جو یا مجھے ہم کنار کر ، یا مجھے بے کنا ر کر متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی مقام ِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی بندگی میں انسان کو سکون ملتا ہے بحرحال یہ جدائی انسان کے لئے مبارک ہے کیونکہ یہی خودی وجہ حیات ہے۔ بے خودی اقبال کے فلسفہ خودی کی تفصیلات اور جزئیات کے مطالعہ سے اس قانون کا علم ہوتا ہے جس پر عمل کرکے انسان اس درجہ کو پالینے کے قابل ہو جاتا ہے جو اسے حقیقتاً خلیفتہ اللہ کے منصب کا اہل بنا دیتا ہے۔ اس قانون کی پابندی خودی کی تکمیل کے لئے لازمی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ انسان تنہائی کی زندگی نہیں گزارتا وہ لازماً کسی معاشرہ ، کسی قوم اور کسی ملت کا فرد ہوتا ہے۔ فرد اور ملت کے درمیان رابطہ کے بھی کچھ اصول اور قوانین ہوتے ہیں اسی رابطے اور قوانین و اصولوں کواقبال نے بے خودی سے تعبیر کیا ہے اس رابطہ کو واضح کرنے کے لئے اقبال نے تصوف کی ایک مشہور اصطلاح استعمال کی ہے۔ فارسی اور اردو کے صوفی شعرا نفس انسانی کو قطرے سے اور ذات ایزدی کو دریا سے تشبیہ دیتے آئے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ ” عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا“ لیکن اقبال نے اس تمثیل کو فرد اور ملت کے درمیان ربط و تعلق ظاہر کرنے کے لئے استعما ل کیا ہے۔ فرد کی مثال ایک قطرہ کی ہے اور ملت دریا کی طرح ہے۔ مگر اقبال کی نظر میں یہ قطرہ ، دریا میں مل جانے کے بعد اپنی ہستی کو فنا نہیں کر ڈالتا بلکہ اس طریقہ سے اس کی ہستی مزید استحکام حاصل کر لیتی ہے۔ وہ بلند اور دائمی مقاصد سے آشنا ہو جاتا ہے ۔ اس کی قوتیں منظم اور منضبط ہو جاتی ہیں اور اس کی خودی پائیدار اور لازوال بن جاتی ہے۔ فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں دراصل ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بے خودی سے اقبال کی مراد اجتماعی خودی ہے۔ انفرادی خودی اور اجتماعی خودی کا تعلق ڈاکٹر سید عبداللہ ”طیف اقبال ‘ ‘ میں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ”خودی کی ایسی صورت جو اپنے علاوہ دوسرے انسانوں کو نظر انداز کر ے وہ تخریب اور بگاڑ کی ایک شکل ہے۔ لہٰذا انسانی تجربے نے بتا یا کہ خودی کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہم رنگ قسم کی خودی ، شعور، سے متحد ہو جاتی ہے۔ یہاں سے ایک اجتماعی خودی کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ جس طرح افراد کا شعور ایک جزو ہوتا ہے، اسی طرح اجتماعی خودی کا شعور بھی انفرادی خودی کے مانند ہم رنگ کے ساتھ شیرازہ بند ہوتا ہے۔ گویا انفرادی خودی اور اجتماعی خودی ایک دوسرے سے متضاد اور متصادم نہیں ہیں ۔ بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں۔ فرد اپنی خودی کے ارتقاءاو ر استحکام کے بعد ملت کا ایک بیش قیمت سرمایہ بنتا ہے۔ اور ملت اپنے آئین اور قوانین کو فرد پر لاگو کرکے اُس کی خودی کو تعمیری اور تخلیقی حدود کی پابند رکھتی ہے۔ یہی وہ حقیقی ربط ہے جو فرد اور ملت کے درمیان لازماً موجود ہونا چاہیے۔یعنی اقبال کی بے خودی دراصل ملت اسلامیہ یا اسلامی ریاست کا قیام ہے۔ جس کے قانون کے اندر رہتے ہوئے خودی کے مکمل اور بہترین تربیت ہو سکتی ہے۔ تکمیل خودی کے لئے ملت اسلامیہ کی ضرورت مندرجہ بالا بحث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ خالص فلسفیانہ نظریے کی حد تک انسانیت کا ایک عالمگیر تصور ممکن ہے۔ لیکن جب اس تصور کو ایک معین اور زندہ نصب العین کی صورت دی جائے تو وسیع سے وسیع نظر رکھنے والا شخص بھی اس بات پر مجبور ہو جاتا ہے کہ انسانیت کی تکمیل کا معیار کسی خاص ملت کو بنائے۔ اقبال کے نزدیک ملت بیضائے اسلام اس معیار پر پوری اترتی ہے۔ ان کی نظر میں انسان کی خودی کی حقیقی تکمیل اور فرد و ملت کا متوازن ربط صرف اسلام ہی کی ذریعہ ممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرد ملت کا متوازن ربط صرف اسلام ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں فرد اور ملت کا رشتہ نسل یا وطن کے روابط کی بنیاد پر استوار نہیں ہوتا بلکہ توحید اور رسالت کا وسیع اور ہمہ گیر عقیدہ اس کی بنیاد بنتا ہے۔ جہاں تک فرد کا تعلق ہے اسے حقیقی آزادی ملت اسلامیہ کے اندر ہی حاصل ہوئی کیونکہ اسی ملت نے نوع انسان کو حقیقی معنوں میں حریت، مساوات، اور اخوات کا نمونہ دکھایا ۔ توحید کے عقیدہ نے نسل و انسب کے امتیاز کو مٹا دیا ۔ غریبوں کو امیروں اور زیر دستوں کو زبردستوں کے تسلط سے آزاد کرکے عدل و انصاف کے اعلیٰ ترین معیار کو قائم کئے اور اسلام کے رشتوں سے انسانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا ۔ دوسری جانب جماعت کے بارے میں بھی یہی ملت اعلیٰ ترین معیار قائم کرتی ہے۔ڈاکٹر سید عبداللہ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں ”ملت محمد کوانسانی اجتماعی خودی کے لئے ایک مثالی جماعت کہا جاسکتا ہے۔ بے خودی سے خودی کا استحکام آخر ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ فرد کے لئے جس طرح اپنی خودی کی تربیت ، ارتقاءاور استحکام ضروری ہے اسی طرح اس خودی کو ایک آئین اور قانون کی حدود میں لانا بھی ضروری ہے۔ یہ آئین اور قانون وہ ملت مہیا کرتی ہے۔ جس میں وہ فرد رکن ہوتا ہے۔ اس آئین کی حدود میں آنے کے بعد وہ تمام افراد جن کی انفرادی خودی تربیت کے مراحل سے گزر چکی ہے، ایک اجتماعی خودی کو تشکیل دیتے ہیں۔ یہ اجتماعی خودی مربوط ہو جانے کے بعد ایک جگہ پھر افراد کی انفرادی خودی کے تحفظ اور استحکام کے وسائل پیدا کرتی ہے۔ لیکن ایسی ملت جو انفرادی اور اجتماعی طور پر خودی کی تربیت اور استحکام کے وسائل پیدا کر سکے اور دنیا میں منشائے خداوندی کو پورا کرنے کا باعث بن سکے۔ وہ صرف ملتِ اسلامیہ ہی ہو سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ اور کسی قوم میں وہ خصوصیات موجود نہیں جو ایک عالمگیر انسانی برادری کی تشکیل کرنے کے لئے ضروری ہیں۔ صرف ملت اسلامیہ ہی وہ قوم ہے جو رنگ ، نسل ، زبان ، ملک ، علاقہ اور قبیلہ جیسے محدود امتیازات کو ختم کرکے ایک وسیع انسانی برادری کا تصور دیتی ہے۔ ایسا ہمہ گیر اور وسیع تصور دنیا کی اور کسی قوم کے پاس موجود نہیں ہے۔ احساسِ خودی کی توسیع بے خودی یا اجتماعی خودی کی تشکیل کے بعد ملت کے احساس خودی کی تو سیع کے لئے جن ذرائع کی ضرورت ہے وہ علم ِ کائنات اور تسخیر کائنات ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی لازمی ہے کہ ملت اپنی تاریخ اور روایات کی حفاظت کرے ۔ تاریخ اقوام کی زندگی کے لئے قوتِ حافظہ کا درجہ رکھتی ہے۔ اور حافظہ ہی وہ چیز ہے جس سے مختلف ادراکات کے درمیان ربط اور تسلسل پیداہوتا ہے۔ خارجی حیات کے ہجوم میں ”میں “ یا ”ان “ کا مرکز حافظہ کے ذریعے ہی ہاتھ آٹا ہے ۔ گویا حافظہ کے ذریعے فرد اپنے احساس ِ خودی کی حفاظت کرتا ہے اس طرح تاریخ کے ذریعہ ملت کی زندگی کے مختلف ادوار میں ربط اور تسلسل پیدا ہوتا ہے۔ یہی شیرازہ بندی ہے اس کے شعورِ خودی کی کفیل اور اس کے بقائے دوام کی ضامن بنتی ہے۔ دنیا میں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنے حال کا رشتہ ایک طرف ماضی سے اور دوسری طرف مستقبل سے استوار رکھتی ہے۔ تمام بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اقبال بے خودی یا اجتماعی خودی کی صورت میں ایک ایسی ملت یا ریاست کا تصور پیش کرتے ہیں جس کے زیر اثر رہتے ہوئے انفرادی خودی کو استحکام اور دوام حاصل ہو سکے۔ مجموعی جائزہ الغرض خودی کا تصور اقبال کی شاعری کا بنیادی تصور ہے جس کے بغیر ہم اقبال کی شاعری کا تصور بھی نہیں کرسکتے یہ اقبال کے فلسفہ حیات کی بنیادی اینٹ ہے خودی کا لفظ اقبال نے غرور کے معنی میں استعمال نہیں کیا بلکہ اس کا مفہوم احساسِ نفس یا اپنی ذات کا تعین ہے یہ ایک چیز ہے ، جس کے بارے میں احادیث میں بھی موجود ہے۔ ترجمہ:۔ ”یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا “ یوں سمجھ لیجئے کہ اقبال ہمیں اپنی ذات کے عرفان کا جو درس دے رہے ہیں وہ دراصل اپنے رب کو پہچاننے کی تلقین کا دوسرا نام ہے۔ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے اقبال کا تصورِ خودی پروفیسر محمد اقبال خان علامہ اقبال نے فرمایا ہے: خودی وہ بحر ہے جس کوئی کنارہ نہیں تو آبِ جُو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں حقیقت یہ ہے کہ خودی ایک بحر بے کنار ہے لیکن بدقسمتی سے ہم نے اسے ایک چھوٹی سی ندی سے زیادہ نہیں سمجھا۔ خودی کیا چیز ہے؟ اس کی وضاحت ایک مرتبہ علامہ اقبال نے ڈاکٹر نکلسن کی خواہش پر کی تھی۔ علامہ صاحب کی وضاحت کا خلاصہ یہ تھا: ”حیات تمام و کمال انفرادی حیثیت رکھتی ہے ۔ ہر موجود میں انفرادیت پائی جاتی ہے ایسی کوئی شے موجود نہیں جسے حیات ِکلّی کہہ سکیں۔ خود خدا بھی ایک فرد ہی ہے لیکن ایسا فرد جس کا عدیل و نظیر نہیں۔ کائنات افراد کے مجموعے کا نام ہے مگر اس مجموعے میں جو نظم و ترتیب ہم دیکھتے ہیں وہ کامل و دائم نہیں ۔ ہمارا قدیم تدریجی طور پر بد نظمی اور انتشار سے نظم و ترتیب کی طرف بڑھ رہا ہے اور کائنات مراتبِ تکمیل طے کر رہی ہے۔ ہنوز مکمل نہیں ہوئی۔فعلِ تخلیق بھی برابر جاری ہے اور جس حد تک انسان کائنات کے اندر ربط و ترتیب پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے اس حد تک گویا وہ خود بھی فعلِ تخلیق میں حصہ لیتا ہے ۔ حیات دراصل ایک آگے بڑھنے والی اور کائنات کو اپنے اندر جذب کرلینے والی حرکت کانام ہے۔ انسان کا اخلاقی اور مذہبی منتہائے مقصود اپنی انفرادی ہستی کو فنا کر دینا نہیں بلکہ اسے قائم رکھنا ہے۔ اور اس کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے اندر زیادہ سے زیادہ انفرادیت پیدا کرے اور زیادہ سے زیادہ بے عدیل بنے۔ پس فرد کا دوسرا نام حیات ہے اور فرد کی اعلیٰ ترین صورت جو اس وقت تک معلوم ہو سکی ہے وہ خودی ہے۔“ اقبال کے نزدیک خودی اپنی تمام جلوہ آرائیوں کے ساتھ اس کائنات میں اپنا اظہار چاہتی ہے اس کی اصل روح روحانی ہے اقبال فرد کی ترقی کے لیے خودی کی تربیت پر بہت زور دیتے ہیں کیونکہ اس کی تربیت انسان کی زندگی کا حقیقی نصب العین ہے۔ جس دور میں اقبال نے آنکھ کھولی وہ مسلمانوں کے لیے ابتلاءاور تکالیف کا دور تھا ۔ دنیا میں مسلمان جہاں کہیں بھی تھے غلامی کی زنجیر پہنے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کے علاقوں کو یورپی اقوام نے کالونیاں بنا رکھا تھا۔ مسلمان حوصلہ ہا ر چکے تھے اور حالات سے ناامید ہوگئے تھے ۔ لیکن شاعرِ مشرق قطعاً ناامید نہیں تھے ۔ آپ کے خیال میں مسلمانوں کی پستی اور زوال کا سبب خودی کو بھولنا تھا۔ شاعرِ مشرق کے نزدیک خودی کا مطلب غرور تکبر کرنا نہیں نہ ہی اپنے آپ کو بڑا سمجھنا خود ی ہے بلکہ خودی کامطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچان سکے ۔ دوسرے لفظوں میں خودی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر جو صلاحیتیں اور قابلیتیں موجود ہیں اُن کو پہچاننا اور ان کا صحیح استعمال ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے جبکہ باقی ساری کائنات کو انسان کے لیے پیدا کیا ۔ یہ انسان کا کام ہے کہ اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو استعمال کرکے تسخیرِ کائنات کا کردار ادا کرے ۔ علامہ اقبال مسلمانوں سے فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے جبکہ خودی اس کو استعمال کرنے کا نام ہے۔ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے خودی کے ارتقاءکے لیے اقبال کے نزدیک دو چیزیں ازبس ضروری ہیں ایک استحکامِ خودی اور دوسرے اس کا اجتماعی مقصد سے ہم آہنگ ہونا۔ چنانچہ اقبال نے ”اسرار خودی“ اور ”رموز بے خودی“ میں ان دونوں مقاصد پر بحث کی ہے۔ آپ کے نزدیک فرد کو اپنی امکانی صلاحیتوں کو اس طرح نشوونما دینی چاہیے کہ جماعت بھی زیادہ سے زیادہ ارتقاءکر سکے۔ آپ کے نزدیک شانِ یکتائی پیدا کرنے کے لیے خودی کو تین منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے ان میں اتباع شریعت ، ضبطِ نفس اور نیابت الہٰی شامل ہیں۔ آپ کے مطابق نیابتِ الٰہی دنیا میں انسانی ارتقاءکی آخری منزل ہے جو شخص اس منزل پرپہنچ جاتا ہے اس دنیا میں خلیفہ اللہ ہوتا ہے ۔ اگر انسان کا اپنے اللہ پر ایمان مضبوط ہو تو اس کی خود مضبوط ہوتی ہے۔ اگرانسان کا اللہ کے ساتھ رشتہ مضبوط ہو تو وہ ہر کام کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی حکیم الامت بہادری کو بھی خودی کی ترقی کے لیے ضروری گردانتے ہیں۔ اگر انسان بہادر ہو ۔ حق بات کہنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اس کی خودی ترقی کے منازل طے کرتی ہے۔ فرماتے ہیں: آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں رُوباہی اقبال نے ان فلسفیانہ مذاہب کی تردید کی ہے جو بقا کے بجائے فنا کو انسان کا نصب العین قرار دیتے ہیں ۔ یہ مذاہب انسان کو بزدلی سکھاتے ہیں کیونک حیات کی راہ میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے یعنی مادّہ وہ اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ اور مادّہ کا مقابلہ کرکے اُسے جذب کرلینے کے بجائے اس سے گریز کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ علامہ اقبال کے خیال میں خوف کی بجائے بہادری اور جرات کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ انسان میںصرف خوفِ خدا ہونا چاہیے۔ تب انسان میں خودی کا مادہ پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات شاعرِ مشرق کے نزدیک خودی مسلسل جدوجہد کی حالت کا نام ہے شخصیت کی بقاءاسی حالت کے باقی رہنے پر منحصر ہے اگرچہ یہ حالت قائم نہ رہے تو لازمی طور پر تعطل یا ضعف دستی کی حالت طاری ہوجاتی ہے اور یہ چیز علامہ کے نزدیک خودی کے لیے زہر ہے۔ جبکہ جدوجہد ہی دراصل زندگی ہے۔ فرماتے ہیں۔ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے رومی کی طرح اقبال بھی نظریہ ارتقا کا حامی ہے اس کے عقیدے کے مطابق انسان جمادی نباتی اور حیوانی مدارج سے گزر کر انساینیت کے موجودہ مرتبے پر فائز ہوا ہے۔ مگر یہ اس کی آخری منزل نہیں ہے ابھی اسے اور آگے بڑھنا اور ملکوتی درجے پر پہنچنا ہے انسان ملکوتی اور حیوانی عناصر کا مجموعہ ہے ملکوتی عنصرکا دوسرا نام خودی ہے اور اسی کی تربیت انسان کی زندگی کا حقیقی نصب العین ہے۔ اقبال نے عرفانِ خودی اور تعمیر خودی پر بہت زور دیا ہے اور درحقیقت ان کی ساری شاعری کا لُبّ لبُاب عرفانِ خودی اور تعمیر خودی ہے۔ بشکریہ : "آہنگ" علامہ اقبال اور فلسفہ خودی جاوید عباس رضوی علامہ اقبال ایک ہمہ جہت شاعر ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ فقط ایک شاعر ہی نہیں، مفکر اور فلسفی بھی ہیں۔ ایک ایسے مفکر جنہوں نے حیات و کائنات کے مختلف اور متنوع مسائل پر غور و فکر کیا اور برسوں کی سوچ و فکر کے بعد شاعری اور نثر کے ذریعے حکیمانہ اور بصیرت افروز خیالات پیش کئے۔ انھیں اقبال کی ندرت فکر کا شاہکار کہا جاسکتا ہے، علامہ اقبال نے انسان کو خودی کا درس دیا ہے، علامہ اقبال کی خودی، خود پرستی نہیں ہے، خود سوزی نہیں ہے بلکہ خود شناسی ہے یعنی خود کو پہچانا، یعنی خود کی معرفت حاصل کرنا، یعنی انسان کو اﷲ نے اس دنیا میں کیوں بھیجا ہے کہاں جانا ہے کس لئے آیا ہے، اقبال کی خودی خانقاہی نہیں ہے اقبال کی خودی خود شناسی ہے، معرفت نفس ہے۔ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن اقبال کے نزدیک خودی کے اثبات، پرورش اور استحکام ہی سے اسے غیر فانی بنایا جاسکتا ہے، خودی اپنی پختگی ہی سے حیات جاوداں حاصل کر سکتی ہے یعنی بے مثل انفرادیت کو اس طرح قائم و بر قرار رکھے کہ موت کا دھچکا بھی اس کا شیرازہ نہ بکھیر سکے، خودی کا جوہر ہے یکتائی، وہ کسی دوسری خودی میں مدغم نہیں ہوسکتی، نہ اس کا ظہور کسی دوسری خودی کے طور پر ہو سکتا ہے، نہ وہ کسی کمتر خودی میں منتقل ہوسکتی ہے اگر خودی کی تربیت نہیں کی گئی تو اس کا مستقبل مخدوش ہے وہ فنا بھی ہوسکتی ہے۔ خودی کی پرورش و تربیت یہ ہے موقوف کہ مشت خاک میں پیدا ہو آتش ہمہ سوز اقبال کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے اگر چاہیں تو اس کے جواب میں صرف ایک لفظ ’خودی‘ کہہ سکتے ہیں۔ اس لئے کہ یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباحث کا محور ہے۔ اور انھوں نے اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو اسی نام سے موسوم کیا ہے اور محور تک اقبال کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں بعض اہم سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہوئی ہے، انسان کیا ہے؟ انسانی زندگی کیا ہے؟ کائنات اور اس کی اصل کیا ہے؟ آیا یہ فی الواقع کوئی وجود رکھتی ہے یا محض فریب نظر ہے؟ اگر فریب نظر ہے تو اسکے پس پردہ کیا ہے؟ اس طرح کے اور نہ جانے کتنے سوالات ہیں جن کے جوابات کی جستجو میں انسان شروع سے ہی سرگرداں رہا ہے۔ اقبال کے فلسفہ خودی یا پیغام کی تخلیق کا خاص پس منظر ہے، قیام یورپ کے زمانے میں انھوں نے فلسفے کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ ایران کی مختلف ادبی اور لسانی تحریکوں اور لٹریچر کو غور کی نظر سے دیکھا تھا اور اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اسلامی تہذیب کی ابتری خصوصیت سے جنوبی ایشیاء میں مسلمانوں کی تباہی کی ذمہ دار وہ فارسی شاعری بھی ہے جس نے افلاطونی فلسفے کی موشگافیوں میں پھنس کر حیات کے سر چشموں کو خشک کر دیا، اس کے بعد سکون بے عملی کو زندگی کا عین تصور کیا جانے لگا، افراد میں خودی اور خودداری کی بُو نہ رہی اور ذلت و نکبت موجب فجر سمجھی جانے لگی اور روگ آہستہ آہستہ پوری قوم کے رگ و پے میں سرایت کرتا گیا۔ اردو ادب بھی اس سے مستثنٰی نہ تھا۔ ”خودی“ کا لفظ اقبال کے پیغام یا فلسفہ حیات میں تکبر و غرور یا اردو، فارسی کے مروجہ معنوں میں استعمال نہیں ہوا، خودی اقبال کے نزدیک نام ہے احساس غیرت مندی کا، جذبہ خودداری کا، اپنی ذات و صفات کے پاس و احساس کا، اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے کا، حرکت و توانائی کو زندگی کی ضامن سمجھنے کا مظاہرات فطرت سے بر سر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا، یوں سمجھ لیجئے کہ اقبال کے نقطہ نظر سے”خودی“زندگی کا آغاز وسط اور انجام سبھی کچھ ہے فرد و ملت کی ترقی و پستی خودی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے۔ خودی کا تحفظ زندگی کا تحفظ، خودی کا استحکام زندگی کا استحکام، ازل سے ابد تک خودی ہی کی کار فرمائی ہے اس کی کامرانیاں اور کارکشائیاں بے شمار اور اس کی وسعتیں اور بلندیاں بے کنار ہیں، اقبال نے ان کا ذکر اپنے کلام میں جگہ جگہ نت نئے انداز سے کیا ہے۔ خودی کیا ہے راز درون حیات خودی کیا ہے بیدارئی کائنات ازل اس کے پیچھے ابد سامنے نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے زمانے کے دھار میں بہتی ہوئی ستم اسکی موجوں کی سہتی ہوئی ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی خاک آدم میں صورت پزیر خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے کہیں یہ ظاہر کیا ہے کہ لااِلٰہ اِﷲ کا اصل راز خودی ہے، توحید خودی کی تلوار کو آب دار بناتی ہے اور خودی توحید کی محافظت کرتی ہے۔ خودی کا ستر ِنہاں لااِلٰہ اِﷲ خودی ہے تیغ فساں لااِلٰہ اِﷲ کہیں یہ بتایا ہے کہ انسان کی ساری کامیابیوں کا انحصار خودی کی پرورش و تربیت پر ہے، قوت اور تربیت یافتہ خودی ہی کی بدولت انسان نے حق و باطل کی جنگ میں فتح پائی ہے۔ خودی ہی زندہ اور پائندہ ہو تو فقر میں شہنشاہی کی شان پیدا ہو جاتی ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے تصرف میں آجاتا ہے۔ خودی ہے زندہ تو ہے فقر میں شہنشاہی نہیں ہے سنجر وطغرل سے کم شکوہ فقیر خودی ہو زندہ تو ہے دریائے بیکراں نایاب خودی ہو زندہ تو کہسار پر نیاں و حریر بعض جگہ خودی کو فرد اور ملت کی زندگی کا مرکز خاص قرار دیا۔ اس مرکز کا قرب سارے جہاں کا حاصل اور اس سے دوری موت کا پیغام ہے۔ قوموں کے لئے موت ہے مرکز سے جدائی ہو صاحب مرکز تو خودی کیا ہے خدائی ہر چیز ہے محو خود نمائی ہر ذرہ شہید کبریائی بے ذوق نمود زندگی موت تعمیر خودی میں ہے خدائی خودی کے اوصاف میں اقبال کے بے شمار بیانات، ان کی تصانیف میں بکھرے پڑے ہیں اور بے شمار ایسے اشعار ہیں جن میں خودی کا والہانہ تذکرہ آیا ہے۔ اقبال کا یہ فلسفہ حیات یا پیغام خودی جس پر انہوں نے اتنا زور دیا ہے اور فرد و قوم کی بقا و ترقی کی اساس ٹھہرایا ہے، جذبات کے لمحائی جوش کا نہیں بلکہ انسان کے نفس اور اس کی تہذیبی زندگی پر کامل غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ بعض مقامات پر خودی اور خدا کے وجود کو لازم و ملزوم بتا کر وجود کی تعریف یہ کی ہے کہ جوہر خودی کی نمود کا دوسرا نام وجود ہے۔ اس لئے انسان کو اپنے وجود کا ثبوت دینے کے لئے خودی کی نمود سے غافل نہیں رہنا چاہئے، خودی کی بھر پور نمود انسان کو امر بنا دیتی ہے۔ خودی کو زندہ و پائندہ رکھنے اور اسے توانا و طاقتور بنانے کے عوامل کا تذکرہ تھا۔ اس کے بعد خودی کی تربیت کی ارتقائی منزلیں زیر بحث آتی ہیں یہ تین ہیں، اطاعت، ضبط نفس اور نیابت اِلٰہی، اطاعت سے مراد فرائض کی ادائیگی اور شریعت الٰہیہ کی عملی تائید ہے۔ جو شخص ان سے بھاگتا ہے وہ گویا دینِ محمدی ص کے آئین کے خلاف ورزی کرتا ہے اور اس کی حدود سے باہر قدم رکھتا ہے، ضبط نفس سے مراد، نفسانی خواہشوں اور ذاتی اغراض پر قابو پانا ہے چونکہ انسان کے نفس میں خوف اور محبت کے دو عنصر ایسے ہیں جو اسے راہ راست سے اکثر ہٹا دیتے ہیں اسلئے ضروری ہے کہ اس پر کڑی نظر رکھی جائے ،نفس کو مغلوب ہونے سے بچایا جائے۔ جب اطاعت و ضبط نفس کی منزلوں سے کسی فرد کی خودی کامیاب گزر جاتی ہے تو وہ اعلیِ منصب پر فائز ہوجاتا ہے جو تخلیق انسانی کا مقصدِ خاص ہے، نیابت اور جس حصول کے لئے انسان روز اول سے سرگرم عمل اور مزاحمتوں سے بر سر پیکار ہے۔ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے (اقبال) علامہ اقبال کے فلسفہ حیات یا پیغام کی تخلیق اس طور پر کرسکتے ہیں کہ فرد کی طرح ملت کی بھی خودی ہوتی ہے، چنانچہ فرد کی خودی کی تربیت و استحکام کے ساتھ ساتھ لازم ہے کہ ملت کی خودی کو بھی مرتب و مستحکم بنایا جائے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ فرد اپنی خودی کو ملت کی خودی میں اس طرح خم کر دے یا اس کا تابع بنا دے کہ ملت کی خودی کو فرد کی خودی پر فضیلت حاصل ہو جائے کہ ذاتی اغراض و مفادات پر ملت کے اغراض و مفادات کو ترجیح دی جائے اور مقدم سمجھا جائے، ایسا کرنے سے فرد کی خودی مجروح نہیں ہوتی، تقویت حاصل کر لیتی ہے، اس میں جماعت کی سی قوت پیدا ہو جاتی ہے اور جماعت میں مزید پختگی آجاتی ہے۔ در جماعت خود شکن گردو خودی نارِ گل ،برگ چمن گردو خودی کثرت ہم مدعا وحدت شود پختہ چوں وحدت شود ملت شود انفرادی اور اجتمائی خودی کی تربیت و تنظیم اور استحکام و استقلال کے لئے عہد حاضر کی ساری ملتوں میں ملت اسلامیہ ہی موزوں ترین ہے اور اس وقت دنیا میں جتنے آئین مروج ہیں ان سب میں آئین اسلامی یعنی قرآن مجید ہی ایک ایسا آئین ہے جس کے تحت فرد اور جماعت کی خودی اطاعت اور ضبط نفس کی منزلوں سے کامیاب گزر کر کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے، فرد قوم کی خودی پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ مسلمان اور ملت اسلامیہ کی خودی کی شرائط اور فتوحات دوسروں کی خودی سے بہت مختلف ہیں اور اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ اس کا مزاج دوسری قوموں کے مزاج سے مختلف ہے۔ اپنی ملّت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی اگر مسلمانوں نے ترکیب رسول ہاشمی اپنائی ہوتی تو آج مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی، مسلمانوں نے اپنی خودی کو نہیں پہچانا اس لئے دوسروں کی تقلید کی اور مسلمان اس حالت پر پہنچے کہ آج مسلمان مظلوم ہے، ہمارا قُدس مُبارک امریکی پِٹھو اسرائیل کے ہاتھوں پائمال ہوتا جا رہا ہے اور مسلمان ابھی بھی سوئے ہوئے ہیں، مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے، مسلمان ممالک ویران کئے جارہے ہیں اور ہم ذاتی اغراض میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ کسی کو اقتدار کی بھوک، کسی کو گھر کی بھوک، جب تک مسلمانوں کا صفایا ہوجائے گا تب تک ہم سوئے رہیں گے، کب تک ہم مغرب کی غلامی کریں گے اور یہی مغرب والے مسلمان کومسلمان سے لڑاتے ہیں۔ اگر مسلمان خود شناس اور متحد ہوتے تو اہل مغرب کی مجال نہ ہوتی کہ پیغمبر اسلام ص کی شان میں توہین کرتے، اے کاش اقبال کی آرزو پوری ہوتی کہ ملت اسلامیہ میں خودی کا مقام حاصل ہوجائے اور ہم مسلمان آباد، خوشحال اور امن امان میں رہتے اور روحِ اقبال خوش ہو جاتی، اقبال کسی خاص علاقے یا ملت کا شاعر نہیں ہے وہ پورے عالم انسانیت کا شاعر ہے اور اس کا پیغام صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ سب کے لئے ہے۔ ہر درد مند دل کو رونا میرا رولا دے بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے بشکریہ : اسلام ٹائمز اقبال کا تصور عقل و عشق اقبال کے یہاں عشق اور ان کے مترادفات و لوازمات یعنی وجدان ، خود آگہی، باطنی شعور ، جذب ، جنون ، دل ، محبت ، شوق ، آرزو مندی ، درد ، سوز ، جستجو، مستی اور سرمستی کا ذکر جس تکرار، تواتر، انہماک سے ملتا ہے ۔اُس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کے تصورات میں عشق کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق ایک عطیہ الہٰی اور نعمت ازلی ہے۔ انسانوں میں پیغمبروں کا مرتبہ دوسروں سے اس لیے بلند تر ہے کہ ان کا سینہ محبت کی روشنی سے یکسر معمور اور ان کا دل بادہ عشق سے یکسر سرشار ہے۔محبت جسے بعض نے فطرت ِ انسانی کے لطیف ترین حسی پہلو کا نام دیا ہے۔ اور بعض نے روح ِ انسانی پر الہام و وجدان کی بارش یا نورِ معرفت سے تعبیر کیا ہے۔اس کے متعلق اقبال کیا کہتے ہیں اقبال ہی کی زبان سے سنتے چلیے ، یہ ان کی نظم ”محبت “ سے ماخوذ ہے۔ تڑپ بجلی سے پائی ، حور سے پاکیزگی پائی حرارت لی نفس ہائے مسیح ِ ابن مریم سے ذرا سی پھر ربو بیت سے شانِ بے نیازی لی ملک سے عاجزی ، افتادگی تقدیر ِ شبنم سے پھر ان اجزاءکو گھولا چشمہ حیوان کے پانی میں مرکب نے محبت نام پایا عرشِ اعظم سے یہ ہے وہ محبت کا جذبہ عشق جو اقبال کے دائرہ فکر و فن کا مرکزی نقطہ ہے۔ یہی تخلیق کا ئنات سے لے کر ارتقائے کائنات تک رموزِ فطرت کا آشنا اور کارزارِ حیات میں انسان کا رہنما و کار کُشا ہے۔ بقول اقبال کائنات کی ساری رونق اسی کے دم سے ہے۔ ورنہ اس سے پہلے ، اس کی فضا بے جان اور بے کیف تھی۔ عقل اور عشق ڈاکٹر عابد حسین اپنے مضمون ”عقل و عشق۔۔۔اقبال کی شاعری میں“ میں لکھتے ہیں کہ ، ” عقل اور عشق کی کشمکش اردو اور فارسی شاعری کا پرانا مضمون ہے عشقیہ شاعری میں عقل ،مصلحت اندیشی اور احتیاط کے معانی میں آتا ہے۔ اور عشق اس والہانہ محبت کے معانی میں جو آدابِ مصلحت سے ناآشنا اور وضع احتیاط سے بیگانہ ہے ظاہر ہے کہ یہ دونوں چیزیں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔ “ متصوفانہ شاعری میں عقل سے مراد منطقی استدلال ہے جس کے ذریعے ظن ظاہر کا دھندلا تصور قائم ہوتا ہے۔ جبکہ عشق سے مراد جذبِ باطن جس کی بدولت طالب ِ تعینات کے پردوں کو ہٹا کر حقیقت کی بلاواسطہ معرفت حاصل کرنا ہے۔ اقبال نے عقل اور عشق کے تصورات صوفی شاعروں سے لے کر ان پر جدید فلسفہ وجدانیت کا رنگ چڑھایا۔ صوفی شعراء”ہمہ اوست“ کے قائل ہیں ان کے نزدیک کائنات کا وجود ہمارے حواس ظاہری کا فریب ہے۔ جبکہ جدید فلسفہ وجدانیت کے سب سے ممتاز فلسفی برگساں کے خیال میں انسان کے زہن کاکام یہ ہے کہ حسی وظیفہ کو حرکتی وظیفہ میں منتقل کر دے اقبال بھی برگساں سے متاثر تھے۔ بقول اقبال عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں ہوں مفسر کتا ب ِ ہستی کی مظہر شان کبریا ہوں میں جواب میں دل کہتا ہے کہ، علم تجھ سے تو معرفت مجھ سے تو خدا جو خدا نما ہوں میں عقل راز کو سمجھ کر اس کا ادراک کرتی ہے۔ جبکہ عشق اسے آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ یعنی حقیقت ہستی کا بلاِ واسطہ مشاہدہ کرتا ہے۔ عقل زمان و مکان کی پابند جبکہ عشق زمان و مکاں کی حدود سے نکل کر اُ س عالم نا محدود میں پہنچ جاتا ہے۔ جہاں حقیقت بے حجاب ہوتی ہے۔ اور یہ معرفت کا مقام ہے۔عقل کی منزل مقصود ہستی مطلق کی معرفت وہ خدا جو ہے لیکن اس کی جستجو ناتمام ہے عشق خدانما ہے جو راہ طلب میں عقل کی رہبری کرتا ہے۔گویا اقبال کے نزدیک عقل اور عشق میں بنیادی تضاد اتنا زیادہ نہیں بلکہ ابتدائی مراحل پر تو عقل کی ہی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ فطرت کو خر د کے روبر کر تسخیر مقامِ رنگ و بو کر؟ عقل میں بہت سی صفات موجود ہیں البتہ اس میں وہ جوش و خروش ، تڑپ ، حرکت اور وہ جرات نہیں جو عشق کا شیوہ ہے۔ عقل اگرچہ آستانِ حقیقت سے دور نہیں لیکن اکیلی اس تک پہنچ نہیں سکتی ۔ عقل گو آستا ںسے دور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں علم میں بھی سرور ہے لیکن یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں دل بینا بھی کر خدا سے طلب آنکھ کا نور دل کا نور نہیں اقبال کے ہاں عشق سے مراد اقبال کے ہاں عشق سے مراد ایمان ہے ایمان کا پہلا جُز حق تعالیٰ کی الوہیت کا اقرار ہے اور اس پر شدت سے یقین ، اس شدت کو صوفیاءکرام نے عشق سے تعبیر کیا ہے۔ عقل ہمیں زندگی کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا حل سمجھاتی ہے لیکن جو شے عمل پر آمادہ کرتی ہے وہ ہے عشق ۔ عشق و ایمان سے زیادہ قوی کوئی جذبہ نہیں، اس کی نگاہوں سے تقدیریں بد ل جاتی ہیں۔ کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا نگاہ ِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں بقول مولانا روم، ” عقل جُزئی قبر سے آگے نہیں دیکھ سکتی ۔۔۔۔ قبر سے آگے عشق کا قدم اُٹھتا ہے اور عشق ایک جست میں زمان و مکان والی کائنات سے آگے نکل جاتا ہے۔ عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں اقبال کے نزدیک عقل و علم کی سب سے بڑی کوتاہی یہ ہے کہ اس کی بنیاد شک پر قائم ہے۔ اس وجہ سے عقل و علم میں وہ خواص موجود نہیں جو تربیت خودی کے لیے ضروری ہیں۔ اس کے مقابلے میں عشق بے خوفی ، جرات اور یقین و ایمان پیدا کرتی ہے۔ اس لیے وہ خدا سے صاحبِ جنوں ہونے کی آرزو کرتے ہیں۔ بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر عقل پر اقبال کا اعتراض ڈاکٹر سید عبداللہ ”عقل و خودی“ کے عنوان سے ”طیف اقبال“ میں اس امر پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں ، ” اقبال کے خیال میں عقل ایک ناتمام چیز ہے یعنی عقل حقیقت کی کلیت کا ادراک نہیں کر سکتی۔۔۔۔ عقل جو حواس پر مبنی ہے حقیقت تک پہنچنے کے لئے یقینی راستہ نہیں ہے۔ “ گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے عقل کے خلاف اقبال کا اعتراض ہے کہ عقل میں گرمی، جذب ، سرور و جنوں نہیں ۔ خودی کی تقویت کے لیے جس سرگرمی جذب و سرور کی ضرورت ہوتی ہے۔ عقل اس سے محروم ہے۔ خودی کی تسخیر کے لیے آگے بڑھنے کی جدوجہد کے لیے یقین کی ضرورت ہے مگر وہ یقین عقل کے ذریعے حاصل نہیں ہو سکتا ۔ عقل کی باتیں یقینی نہیں ہوتیں۔ عقل کی ایک بڑی کمزوری یہ بھی ہے کہ وہ شک میں گرفتار رہتی ہے اس لیے خودی میں و ہ حرکت اس سے پیدا نہیں ہوتی جو عشق یعنی یقین سے پیدا ہوتی ہے۔ بحرکیف عقل ایسی چیز نہیں جس سے نفرت ہو، اقبال نے عملی اور جزوی امور میں اس کی مخالفت نہیں کی انہوں نے عقل سے اختلاف اس لیے کیا ہے کہ کلی امور میں یہ فوراً انکار کر دیتی ہے۔ اک دانش ِنورانی ، اک دانش برہانی ہے دانش ِ برہانی، حیرت کی فراوانی عشق اور خودی اقبال کے تصورِ خودی کو ان کے تصورِ عشق سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا تربیت خودی کے لیے سب سے بڑا وسیلہ اقبال کے نزدیک عشق ہے جس کے بغیر خودی نہ ترقی کر سکتی ہے اور نہ پختہ ہو سکتی ہے۔ صوفیوں کے نزدیک نصب العین تک پہنچنے کے لیے خودی کو مٹانا ضروری ہے۔ ان کے نزدیک عشق کے کمال کی علامت یہ ہے کہ مادی وجود کو خود مٹایا جائے اقبال کے نزدیک خودی کی تربیت ضروری ہے نہ کہ مٹا دینا۔ اقبا ل نے بار بار کہا ہے کہ خودی عشق سے استوار ہوتی ہے۔ اور یہ عشق نہ تو وہ صوفیانہ عشق ہے جو خود کو فنا کرکے کمال حاصل کرتا ہے اور نہ وہ مجازی عشق جو معمولی آرزوں کے لیے تڑپنا ہے۔ اقبال کے نزدیک اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ مرد خدا کا عمل ، عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل ِ حیات ، موت ہے اس پر حرام عشق دمِ جبرئیل ، عشق دل ِ مصطفی عشق خدا کا رسول ، عشق خدا کا کلام عشق کی تقویم میں، عصرِ رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام ڈاکٹر سید عبداللہ ”طیف اقبال “ میں لکھتے ہیں۔ ” اقبال کے نزدیک عشق اورخودی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ۔ عشق پا لینے مسخر کرنے کی صلاحیت اور آرزو رکھتا ہے اور خودی کا خاصہ بھی یہی ہے کہ وہ غیر خودی کو مسخر کرنے یا پانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ عشق کا خاصہ ہے۔۔۔۔۔ کہ اس کا یقین اٹل اور محکم ہوتا ہے اور خود ی بھی یقین محکم کے پہیوں پر چلتی ہے۔ عشق پریشانیوں ، رنگا رنگیوں اور بد نظمی میں ترتیب ِحیات کرتا ہے۔ خودی کا بھی یہ وصف ہے کہ تنظیم حیات کرتی ہے۔ “ الغرض اقبال کے نزدیک خودی نہ صرف عشق سے استوار ہوئی ہے بلکہ عشق خودی کا دوسرا نام ہے مولانا عبدالسلام ندوی”اقبال ِ کامل “ میں لکھتے ہیں کہ ، ”ڈاکٹر صاحب کے نزدیک عقل و عشق دونوں خودی کا جزو ترکیبی ہیں۔“ عشق کو عقل پر ترجیح دینے کے اسباب اقبال اگرچہ عقل کے مقابلے میں عشق کی برتری کے قائل ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ عقل کے مخالف ہیں بلکہ وہ ایک حد تک اس کی اہمیت کے قائل ہیں تاہم یہ درست ہے کہ اقبال عشق کو عقل پر ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک عشق سے ہی حقائق اشیا کا مکمل علمِ بصیرت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے خیال میں زندگی کی ساری رونق عشق سے ہے علم و عقل انسان کو منزل کے قریب تو پہنچا سکتے ہیں لیکن عشق کی مدد کے بغیر منزل کو طے نہیں کر سکتے۔ عقل گو آستاں سے دور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں اگر چہ عام طور پر عقل سے رہنمائی کا کام لیا جاتا ہے لیکن عشق عقل سے زیادہ صاحبِ ادراک ہے زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک اقبال کو اپنے ہم مشربوں سے شکایت ہے کہ وہ اس جنوں سے محروم ہیں ، جو عقل کو کارسازی کی راہ و رسم سکھا سکے۔ ترے دشت و در میں مجھ کو وہ جنوں نظر نہ آیا کہ سکھا سکے خرد کو راہ و رسم کارسازی بغیر نورِ عشق کے علم و عقل کی مدد سے دین و تمدن کی جو توجیہ کی جائے گی۔ وہ حقیقت پر کبھی بھی حاوی نہیں ہو سکتی ۔ عقل تصورات کا بت کدہ بنا سکتی ہے ۔ لیکن زندگی کی صحیح رہبری نہیں کر سکتی۔ عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و دیں بُت کدہ تصورات اقبال کے نزدیک عقل کی کمزوری یہ ہے کہ اس میں جرات رندانہ کی کمی ہے۔ جب تک عشق اس کی پشت پناہ نہ ہو آگے نہیں بڑھتی ۔ عقل اسباب کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر اصل حقیقت سے دور رہتی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اقبال سراسر عقل کا مخالف نہیں۔ چنانچہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ وہ تمام امور جن سے قوموں کی زندگی بدل گئی کسی نہ کسی جذبہ کے تحت انجام پاتے ہیں اسی خیال کو اقبال اس طرح ادا کرتے ہیں۔ بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محوِ تماشائے لب بام ابھی زندگی کے جس چاک کو عقل نہیں سی سکتی اس کو عشق اپنی کرامات سے بے سوزن اور بغیر تارِ رفو سی سکتا ہے۔ وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں عشق سیتا ہے انہیں بے سوزن و تارِ رفو عقل کی عیاری اور عشق کی سادگی اور اخلاص کو اس طرح ظاہر کیا ہے۔ عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے عشق بے چارہ نہ مُلا ہے نہ زاہد نہ حکیم روحانی ترقی ، جسے اقبال حیات ِ انسانی کا اصل مقصود گردانتے ہیں۔ عشق کی رہبری کی محتاج ہے اور اس میں اقبال عقل و علم کو بے دست و پا خیال کرتے ہیں ، خود انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے۔ خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ کبھی کبھی پاسبان ِ عقل کی موجودگی انسان کو تنگ کرنے لگتی ہے خاص طور پر جب وہ تنقید ہی کو مطمع نظر بنا لے ایسے موقعوں پر اقبال اعمال کی بنیاد عقل کے بجائے عشق پر رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ عقل کو تنقید سے فرصت نہیں عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ کبھی کبھی اقبال کے ضمیر میں معرکہ ہونے لگتا ہے۔ اور انہیں احساس ہوتا ہے کہ عشق ہی حق ہے اور عقل اس کے مقابلے میں وہی درجہ رکھتی ہے جو رسول ِ پاک کے مقابلے میں ابولہب کا تھا۔ تازہ میر ے ضمیر پر معرکہ کہن ہوا عشق تمام مصطفی، عقل تمام بولہب ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں عقل سے کسی قسم کی رہنمائی کی توقع رکھنا بے جا ہی ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اقبال عشق کو عقل سے برتر و بلند قرار دیتے ہیں ۔ اگر اقبال کے تصور عشق کے بارے میں ایک فقرے میں بات کی جائے تو حضرت علامہ کے شعر کے صرف ایک مصرعے میں ہی بات مکمل کی جاسکتی ہے۔ عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام یہی وجہ ہے کہ اقبال عقل کے بجائے عشق سے کام لینے کا مشورہ دیتے ہیں جس کی ایک جست سے سارا قصہ تمام ہو جاتا ہے جس فاصلے کو انسان بیکراں سمجھتا ہے ، عشق ایک چھلانگ میں اُسے عبور کرا دیتی ہے۔ ان تفصیلات سے اقبال کے تصور عشق کا پتہ چلتا ہے۔ وہ اگر چہ عشق کو عقل پر فوقیت دیتے ہیں ، تاہم عقل کی اہمیت سے انکار نہیں ہے۔ درج بالا تفصیلات سے یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اقبال کا تصور عشق اردو فارسی کے دوسرے شعرا سے کتنا مختلف ہے ۔ اقبال کے نزدیک عشق ، محض اضطراری کیفیت ، ہیجان جنسی ہوس باختہ از خود رفتگی ، فنا آمادگی ، یا محدود کو لامحدود میں گم کر دینے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ ان کے یہاں عشق نام ہے ایک عالمگیر قوتِ حیات کا ، جذبہ عمل سے سرشاری کا۔ فلسفی شاعر:تصور ِعشق کی جہتیں ڈاکٹر ریاض توحیدی عشق کی اصطلاح ایک تشریح طلب موضوع کا اقتضا کرتی ہے جس کے لئے ایک مبسوط مقالے کی ضرورت ہے چونکہ زیر نظر مضمون ایک مخصوص موضوع پر منحصر ہے اس لئے عشق کے تعلق سے چند بنیادی باتوں پر ہی توجہ دی جاسکتی ہے تاکہ عشق کے ضمن میں جن لوگوں کے اذہان ایک مخصوص تصور کے اسیر ہو چکے ہیں، وہ بھی اس اصطلاح کے متفرق پہلوئوں کی طرف ذہنی طور پر مائل ہوسکیں۔ عشق کی ایک سمت، نظریہ وجدانیت (Intuition-ism) سے سروکار رکھتی ہے۔ یہاں یہ باطنی یا ظاہری وجدان کے روپ میں اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ عشق، ایک جذبے، ایک قوت محرکہ، ایک روحانی کیفیت کا نام ہے جو انسانی نفسیات میں سمایا ہوا ہے اور مختلف صورتوں میں نمودار ہوتا رہتا ہے۔ دولت کمانے کا جنون، مذہب سے لگائو، کتب بینی کا شوق، تخلیقی کام کی رغبت، اقتدار کا نشہ، حسن پرستی، وطن یا قوم پرستی، اولاد کی محبت وغیرہ عناصر عشق کے مختلف پہلو ہیں۔ اب کسی انسان کا ذہنی میلان عشق کے کس پہلو کی طرف زیادہ ہے اس کا تجزیہ بھی اسی حیثیت سے کیا جاسکتا ہے۔ دراصل عشق کا تعلق وجدانی سوچ سے ہے۔ ادب میں عشق کے تعلق سے دواصطلاحیں زیادہ معروف ہیں، ایک عشق حقیقی اوردوسری عشق مجازی، عشق مجازی کے زمرے میں عشق کے وہ عناصر آتے ہیں جو انسانی ذات سے ہی مطابقت رکھتے ہیں اور عشق حقیقی سے مراد عموماً وہ عشق ہے جس کا تعلق عابد کا اپنے معبود سے ہوتا ہے یا دوسرے لفظوں میں، جس کا تعلق ہماری آنکھوں سے مستور، ذاتِ خداوندی یا اللہ سے ہو۔ شاعری کے حوالے سے اگر عشق کا جائزہ لیں تو دوسرے شعراء کے برعکس علامہ اقبالؔ کا نظریہ انفرادیت کا حامل ہے۔ علامہ اقبال کے نزدیک عشق،اضطراری، چھا جانے والا، محو کر دینے والا جذبہ نہیں، جس کا جادو انسان اور ان کی پوری ہستی کو محصور کر دے بلکہ عشق ان کے نزدیک ایک مستقل اور عظیم الشان حقیقت کا تصور ہے۔ انہوں نے لفظ عشق میں اتنی رفعت اور بلندی پیدا کر دی کہ اس کو قوم کے لئے لائحہ عمل بنا کر پیش کیا۔ پروفیسراسلوب احمد انصاری نے علامہ اقبالؔ کے تصور عشق کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے : ’’…اقبال کے لئے عشق ارتقاء کی قوتِ نامیہ ہے جو حیاتیاتی سطح پر حسن اور اکملیت کی طرف راجع ہے اور اس پر منتج ہوتی ہے۔یہی حیات کی ابتداء اور یہی اس کا انجام ہے۔ عشق کو ’’صہبائے خام‘‘ اور ’’کاس الکرام‘‘ سے ہم رشتہ کرنا گویا اس امر کا اعادہ کرنا ہے کہ یہ بیک وقت اس کی تکونی قوت بھی ہے اور اس کی تتزیہی شکل بھی ‘‘۔ ؎ عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاس الکرام علامہ اقبال کے کلام میں بعض نئی اصطلاحیں بھی نظر آتی ہیں اور انہوں نے مروجہ الفاظ کو اپنے ڈکشن کے مطابق نئے معنی بھی عطا کئے۔ لفظ ’’عشق‘‘ اس کی ایک مثال ہے۔ اقبالؔ نے اس لفظ کو نئی معنوی وسعت سے آشنا کیا اور اپنی فکر کو اس میں سمویا۔ڈاکٹر یوسف حسین خان کے الفاظ میں ’’اقبال کا تصور عشق، دوسرے شعراء کے متصوفانہ یارسمی عشق سے بالکل مختلف ہے۔ عشق ان کے یہاں زندگی کا ایک زبردست حرکی عمل ہے جو ایک طرف تسخیر فطرت میں انسان کی مدد کرتا ہے، دوسری طرف اسے کائنات کے ساتھ متحد رکھتا ہے‘‘۔ علامہ اقبال، جملہ کمالات کا منہج اور تمام فیوض و برکات کا سرچشمہ عشق کو ہی قرار دیتے ہیں ۔اس تعلق سے دیکھیں تو ان کے یہاں ’’عشق‘‘ اور ان کے مترادفات اور لوازمات یعنی ’’وجدان، خود آگہی، باطنی شعور، جذبہ، جنون، دل، شوق، آرزو مندی، جستجو، مستی اور سرمستی کا ذکر جس تکرار،تواتر، انہماک اور شدتِ احساس کے ساتھ ملتا ہے کسی اور موضوع کا نہیں ملتا‘‘۔ اقبال کا تصور عشق انسان کے اندر حرکی قوت پیدا کرتا ہے۔ وہ اس عشق سے سخت نفرت کرتے ہیں جو انسان کو خوابیدہ کرے اور اس کے اخلاق کو بگاڑے۔ زیادہ تر شعراء کے کلام میں عشق اور عورت کا ذکر ساتھ ساتھ نظر آتا ہے جس کی وجہ سے سنجیدہ قسم کے لوگ ان شعراء کا کلام پڑھنے یا سننے سے دور ہی رہتے ہیں،لیکن علامہ اقبال نے معنوی وسعت دے کر عشق کے لفظ کو وقار اوراثرعطا کیا۔ ماہر القادری اپنے ایک مضمون میں علامہ اقبالؔ کے تصور عشق کی مناسبت سے لکھتے ہیں : ’’اقبال کے عشق میں نہ کوچۂ رقیب ہے نہ دنیوی محبوب کے نقش پا پر سجدے کی ذلتیں ہیں۔ اقبال کا عشق خیبر کشا ہے جہاں پازیب کی نہیں،تلوار کی جھنکار سنائی دیتی ہے…عشق اقبالؔ کے ہیروقیس و فرہاد نہیں،صدیقؓ و فاروقؓ اور علی مرتضی رضی اللہ عنہم ہیں جنہوں نے خوبصورت عورتوں کے رخسار و گیسو کا نہیں آیات الٰہی کا مشاہدہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے عشق میں محو ہوگئے …‘‘ مردِ خدا کا عمل، عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات، موت ہے اس پر حرام رسول اللہؐ کی ذات اقدس سے محبت رکھنا، ایک مسلمان کے ایمان کا جزو ہے ۔علامہ اقبال نے اپنے فلسفۂ عشق میں جس عقیدت و احترام کے ساتھ رسول اللہؐ کی ذات اقدس سے محبت کا اظہار کیا ہے وہ مثالی حیثیت کا حامل ہے۔ علامہ کے نزدیک عشقِ رسولؐ کی بدولت ہی ایک مسلمان میں صفات رسولؐ کا رنگ پیدا ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم اس مناسبت سے لکھتے ہیں : ’’اقبال کے نزدیک عشق کی بہترین مثال رسول کریمؐ کی حیاتِ مبارک ہے جس میں خلوت اور جلوت کا توازن پایا جاتا ہے۔ عقل جلوت کی طرف کھینچتی ہے اور عشق خلوت کی جانب،لیکن زندگی کی تکمیل دونوں کے توازن سے ہوتی ہے‘‘۔ وہ دانائے سُبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا بشکریہ:روزنامہ کشمیر عظمی' علامہ اقبال (شاعرِ عظمتِ انسان)۔ پروفیسر محمد علی عثمان قبال شاعر مشرق ہے ، اقبال فلسفی شاعر ہے ، اقبال شاعر قرآن ہے ، اقبال مفکر پاکستان ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ وہ خطابات ہیں جو اقبال کے چاہنے والوں نے ان کو دئیے ہیں۔ کسی نے اقبال کی شاعری میںفلسفے کو پایا تو اُس نے فلسفی شاعر کا خطاب دیا۔ کسی نے آ پ کے اشعار میں قرآن عظیم الشان کے آیات کی تفسیر پائی تو اُس نے اقبال کو شاعر قرآن کے عظیم خطاب سے نوازا۔ کسی اور کو آپ کے خطبات میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ ریاست کا تصور نظر آیا تو اُس نے آپ کو مفکر پاکستان کہا۔ علامہ کو خود ہی اپنی اہمیت کا اور اپنی شاعری کا تا ابد زندہ رہنے کا احساس تھا۔ آپ جانتے تھے کہ اگر نطشے ، گوئٹے ، ملٹن اور شیکسپیئر مغرب کے نمائندہ شعراءتھے اور ان کو مغرب میں ایک بلند مقام حاصل تھا تو وہی رتبہ علامہ اقبالؒ کو مشرق میں ملا تھا۔ اگر مغرب میں کوئی نطشے اور شیکسپیئر کو پرستش کی حد تک چاہتا تھا تو مشرق میں ایسے لوگ تھے اور ہیں جو اقبال کا پوجا کی حد تک احترام کرتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اقبال نے اپنے آپ کو”شاعرِ مشرق“ گردانا: تہذیبِ نوی کارگہ شیشہ گراں ہے ! آدابِ جنوں شاعرِ مشرق کو سکھا دو بلا شبہ اقبال کی شاعری کے پرتو اتنے ہمہ جہت ہیں کہ ہر پڑھنے والے کو اس میں بسا اوقات اپنے افتاد طبع کے طفیل ، کوئی نہ کوئی پہلو ایسا نظرآ جاتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ حضرت علامہ نے فلاں بات پر سب سے زیادہ زور دیا ہے اور پھر اُس سے رہا نہیں جاتا بلکہ وہ ان کو ایک نئے خطاب سے نواز جاتا ہے ۔ اقبال کی شاعر کا ایک رُخ یہ ہے کہ وہ عزت کے ساتھ جینے ، اپنے حقوق کو دوسروں کے ہاتھوں غضب ہو نے سے بچانے اور دنیا کی رہبری کا حق ادا کرنے کے لیے ایمان کے ساتھ ساتھ بے پناہ مادی ، مالی اور حربی طاقت کاحصول لازمی قرار دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ دنیا میں قوموں کو زندہ رہنے کے لیے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر قوت کا حصول ازبس ضروری بلکہ ناگزیر ہے ۔ محض فلسفہ اور بحث و تکرار سے کام نہیں چلتا: میرے لیے ہے فقط زور حیدری کافی ! تیرے نصیب فلاطوں کی تیزی ادراک میری نظر میں یہی ہے جمال زیبائی ! کہ سر بسجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک نہ جلال تو حسن و جمال بے تاثیر ترا نفس اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک ! اس طرح کی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جنہیں حضرت اقبال طاقت کے حصول کی وکالت کرتے ہیں۔ لیکن یہاں پر راقم اقبال کی شاعری بلکہ فلسفہ کے جس پہلو کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہے اُس پر شاید بہت کم لکھا گیاہے ۔ وہ ہے نظام ہست بود میں انسانی عظمت اور اُس کا مقام ۔ بدقسمتی سے ہمارے عام لوگ بالعموم اور مولوی حضرات بالخصوص انسان کو کبھی نطفہ غلیظ کی پیداوار قرار دیتے ہیں تو کبھی اس کا منبع و ماخذ پیشاب کو ٹھہراتے ہیں ۔ کبھی اس کو گندگی کے ڈھیر سے تعبیر کرتے ہیں تو کبھی اس کو کائنات میں ایک حقیر کیڑے سے زیادہ بلند حیثیت دینے پر آمادہ نہیں ہوتے ۔ یہ سب کچھ اُس ہستی کے بارے میں کہا جاتا ہے جسے اللہ نے اپنے کمال قدرت سے مٹی سے بنایا ہے اور پھر اُس کے قالب میں ”اپنی “ روح پھونک کر کارخانہ قدرت میں سب سے خوبصورت اور سب سے عظیم الشان ہستی کا اضافہ کیا ۔ پھر اُس کو سب کچھ سے نوازا جن پر خود اللہ کو ناز ہے ۔ مثلاً اللہ سراپا علم ہے ۔ اُس نے انسان کو ، اور یاد رہے صرف انسان کو ، علم کی دولت سے مالامال فرمایا ۔ اللہ سراپا حسن ہے اوراُس نے انسان کو خوبصورت ترین سانچے میں ڈھالا ۔ اللہ سجدہ کے لائق ہے اور اُس نے انسان کو مسجود ملائک بنایا۔ اللہ خالق ہے۔ اُس نے انسان کو ایجاد کی خوبی سے سرفرار فرمایا ۔ کیا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو محروم رکھا ہو ۔ اس دنیا کو اور جوکچھ اس میں ہے کو انسان کی خاطر پیدا فرمایا اور خود انسان کو اپنے لیے: نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے پھر انسان کو اللہ نے اپنا خلیفہ نامزد کرکے بلند ترین مقام پر فائز کیا ۔ ایک اوسط درجے کا قاری بھی اس حقیقت سے آشنا ہے کہ خلیفہ کا کام اپنے پیرو مرشد کے سبھی افعال کو سرانجام دینا ہوتا ہے جو اُس کا مرشد اُس سے دور کہیں اور بیٹھا سر انجام دے رہا ہوتا ہے ۔ اقبال انسان کے اس مقام سے بخوبی واقف ہے ۔ اپنی نظم ”مسجد قرطبہ “ میں اقبالاسی حقیقت سے پردہ اُٹھاتا ہے: ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں ، کار کشا ، کار ساز خاکی و نوری نہاد بندہ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی ، اس کا دل ِ بے نیاز انسان کی خوبصورتی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”بے شک ہم نے انسان کو نہایت خوبصورت سانچے میں ڈھالا“۔ انسان کا خوبصورت سراپا بھی اُس کے عظیم ہونے پردا ل ہے۔ اقبال اپنی کتاب ”بالِ جبریل“ کی نظم ”فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں“ میں فرشتوں کے اُس رشک کا بہت حسین پیرائے میں ذکر کرتے ہوئے ان کی زبان میں انسان سے مخاطب ہے: سنا ہے خاک سے تیری نمود ہے ، لیکن تری سرشت میں ہے کوکبی و مہتابی! جمال اپنا اگر خواب میں بھی تو دیکھے ہزار ہوش سے خوشتر تری شکر خوابی دنیا کے تقریباً تمام الہامی مذاہب کے پیروکار اس بات پر متفق ہیں کہ جب آدمؑ کو جنت سے بے دخل کرکے زمین پر اتارا گیا تو وہ بہت رنجیدہ اور پژمردہ ہوا تھا۔ اوراُس نے بہت آہ و بکا کی تھی۔ لیکن اقبال کی نظر فلک رسا اور حیران کن بلندی تخیل کچھ اور ہی دیکھ رہی ہے۔ اُنہیں آدم کی اس افتاد میں اُس کی شہنشاہیت اور لامحدود خود مختاری نظرآرہی ہے ۔ اقبال کی ولولہ انگیز نظم ”روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے“ میں دنیا کی روح انسان سے مخاطب ہے: ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل ، یہ گھٹائیں یہ گنبد افلاک ، یہ خاموش فضائیں یہ کوہ ، یہ صحرا ، یہ سمندر ، یہ ہوائیں تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ ! سمجھے گا زمانہ تیری آنکھوں کے اشارے ! دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے ! ناپید تیرے بحرِ تخیل کے کنارے ! پہنچیں گے فلک تک تیری آہوں کے شرارے تعمیرِ خودی کر ، اثرِ آہِ رسا دیکھ ! اقبا ل انسان کی خودی اوراس خودی کی تعمیر و پرورش کی بدولت انسان عظمت کی جو بلندیاں حاصل کرتا ہے اُن سے بخوبی آگاہ بھی ہے اور اُن کا قائل بھی ۔ آپ انسان کو خودی اور جہد مسلسل کے توسط سے اس دنیا کواپنے لیے جنت نظیر بنانے کی تعلیم دیتے ہوئے اسی نظم میں انسان سے مخاطب ہے: خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں آباد ہے ایک تازہ جہاں تیرے ہنر میں جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں جنت تیری پہناں ہے تیرے خونِ جگر میں اے پیکرِ گل کوششِ پیہم کی جزا دیکھ ! یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ انسان کا پیوند مٹی سے ہے اورمٹی ہی میں اُسے اُترنا ہے ۔ اسلام اور عسائیت ہر دو مذاہب کے پیشوا انسان کو اسی نسبت سے عاجزی وانکساری اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ سیاسی رہنما وطن سے محبت اور اپنی مٹی سے وفاداری برتنے کی تبلیغ کرتے ہوئے نہیں تھکتے ۔ اقبال اس حقیقت سے انکاری نہیں ہے لیکن اُن کے پاس اس برعکس یہ دلیل ہے کہ مانا کہ انسان کا خمیر مٹی سے اُٹھایا گیا ہے لیکن اس کا جوہر ، اس کی روح جو خداوند عظیم سے اُس کو ملی ہے ، وہ اُس کو ایسی عظیم ہستی میں تبدیل کرتی ہے جس کا تعلق مٹی سے ہونے کے باوجود خدائی صفات سے متصف کرتی ہے۔ اگر وہ اپنی اس عظمت کا ادراک کرے ، باالفاظ ِ دیگر وہ اپنی خودی کی پرورش کرے تو عجب نہ ہوگا کہ وہ زمان و مکان کی قیود کو توڑ کر حدود پھلانگ کر امر بن جائے: خاکی ہے مگر اس کے انداز ہیں افلاکی رومی ہے نہ شامی ہے کاشی ، نہ سمرقندی سکھلائی فرشتوں کو آدم کی تڑپ اُس نے آدم کو سکھاتا ہے آدابِ خداوندی اس موضوع کو تھوڑے سے مختلف الفاظ میں بیان کرتے ہوئے اقبال اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ یہ مسلّم ہے کہ انسان کی تخلیق مٹی سے کی گئی ہے لیکن اللہ نے اُس کو ایسے عظیم جوہر عطا کیے ہیں جن کی بناءپر اُس کا تعلق زمین سے کم اورسماوی چیزوں سے زیادہ ہے۔ فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی ! خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند اقبال فرماتے ہیں کہ انسان کا مقام ستاروں ، سیاروں ، چاند اور سورج سے کہیں اعلیٰ و ارفع ہے۔ انسان ایک زندہ حقیقت ہے جسے قدرت نے لازوال و لامتناہیخوبیوں سے مالامال کیا ہے۔ زمین سے نسبت رکھنے کے باوجود وہ کارہائے نمایاں سرانجام دے رہا ہے کہ عقل حیران اور خرد پریشان ۔ ایک انسان جو زندہ جاوید ہستی ہے اور جو اتنا عظیم کہ ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے قطعاً ستاروں کی گردش کا تابع ہو ہی نہیں سکتا: ستارہ کیا میری تقدیر کی خبر دے گا وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں اور: تیرے مقام کو انجم شناس کیا جانے کہ خاک زندہ ہے تو تابع ستارہ نہیں اسی دلیل کو تھوڑا آگے بڑھاتے ہوئے اقبال اپنی مشہور نظم ”ساقی نامہ “ میں فرماتے ہیں کہ انسان کے اندر آگ کی مانند روح اور اس روح کے طفیل جوشیلے جذبے کا تعلق آب و گل سے عبارت اس کرّہ سے ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ دنیا اگر دنیا ہے تو اس کی اہمیت اس بناءپہ ہے کہ یہ انسان جیسی عظیم ہستی کا مسکن ہے اور انسان کو اس حقیقت کا ادارک کرنا چاہیے ۔ سنگ و خشت کی یہ دنیا اُس کے پاﺅں کی زنجیر نہیں بننی چاہیے بلکہ انسان کو چاہیے کہ وہ اس کو ٹھوکرمار کر لافانی و لازوال بلندیوں کی جانب پرواز کرے: تری آگ اس خاکداں سے نہیں جہاں تجھ سے ہے ، تو جہاں سے نہیں بڑھے جا یہ کوہِ گراں توڑ کر طلسمِ زمان و مکاں توڑ کر ! اقبال سمجھتا ہے کہ بالآخر جب انسان اپنی شناخت پالیتا ہے اور وہ اپنے اندر خدا کی ودیعت کردہ ملکوتی صفات سے روشناس ہوجاتا ہے تو اُس کا مسکن یہ دنیا ہونے کے باجود اس کا رشتہ ناطہ اس سے کٹ جاتا ہے اور وہ روحانی طور پر اتنا پاکیزہ اور ذہنی لحاظ سے اتنا بلند آہنگ رتبہ حاصل کرلیتا ہے کہ وہ اپنی خودی کی بدولت خدا تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ تب مکان و لامکان میں فاصلے مٹ جاتے ہیں اور اُسے احساس ہونے لگتا ہے کہ : اگر یک سرِ موے برتر پرم فروغ تجلی بسو زد پرم اور: تو اے اسیر مکاں! لامکاں سے دور نہیں وہ جلوہ گاہ ترے خاکداں سے دور نہیں پھر وہ چاند ، سورج ، ستاروں اور سیاروں کو پیچھے چھوڑ کر اُن سے کہیں آگے نکل جاتا ہے: فضا تری مہ و پرویں سے ہے ذرا آگے! قدم اُٹھا یہ مقام آسماں سے دور نہیں اس مقام پر پہنچنے کے بعد خالق اور مخلوق کے درمیان نہ صرف تمام پرد ے ہٹ جاتے ہیں بلکہ یہی انسان جس کو ناسمجھ لوگ تقدیر کی زنجیروں میں جھکڑا ہوا سمجھتے ہیں بذات خود اللہ تعالیٰ کی تقدیر بن جاتا ہے ۔ وہ حقیقی معنوں میں ید اللہ بن جاتا ہے اور یہ دنیا و مافیہا اس کے تصرف میں آجاتے ہیں اور اُس میں وہ طاقت آجاتی ہے کہ کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اُس کا تابع فرمان بن جاتا ہے اور اس کی آنکھوں کے اشارے پر چلتا ہے: لوح بھی تو قلم بھی تو ، تیرا وجود الکتاب گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حَباب ! عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوعِِ آفتاب ! اقبال کا انسان جو پہلے بھی ملائک کا ہمرکاب تھا اپنی جائے سکونت تبدیل کرنے اور آسمان کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں میں جاگزیں ہونے کے باوجود اپنی عظمت سے ہاتھ نہیں بیٹھا بلکہ اُسی طرح ان کی ہمسری بلکہ برتری برت رہا ہے ۔ خطہ ہائے زمین اُس کو پابند اور اُس عظمت سے محروم نہیں کرسکتے جو روز اوّل سے اس کو میسر ہے: ہمسایہ جبریلِ امیں بندہ خاکی ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں اور تو اور اقبال جبرئیل ؑ کو بھی اپنا ہمسر نہیں گردانتا ۔ وہ سمجھتا ہے کہ جبریل کو اور کچھ سکھایا ہی نہیں گیا سوائے تسبیح و مناجات کے اور نہ اس کو آدم کی طرح نفس و خواہش ، جاہ جلال کی بھوک ، جنس و شہوت اور لالچ و حرص میں مبتلا کیا گیا ہے ۔ جبرئیل ؑ کی اصلی عظمت تو تب ہوتی اگر اس کو انسان کی طرح ان آزمائشوں میں ڈالا جاتا اور وہ پھر بھی اپنا سارا وقت ذکر و تسبیحات میں گزارتا ۔ اقبال جبرائیل ؑسے مخاطب ہے : نہ کر تقلید اے جبریلؑ میرے جذب و مستی کی تن آساں عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف اولیٰ اب رہ جاتا ہے یہ سوال کہ آیا سانس کھینچنے والا ہر آدمی اُس اعلیٰ معیار پر پورا اترتا ہے اور وہ عظمت کی اُن بلندیوں کا دعویٰ کرنے کا حقدار ہے جن کے بارے میں اقبال کبھی اُس کو ہمسایہ جبریلؑ امیں ٹھہراتا ہے تو کبھی اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اُس کا مقام ماہ و ستارہ سے بھی آگے ہے ۔ کبھی اُس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : وہ بحر ہے آدمی کہ جس کا ہر قطرہ ہے بحرِ بے کرانہ تو کبھی اُس کو لوح و قلم اور کبھی اللہ کا ہاتھ قرار دیتے ہیں۔ بنی نوع انسان پر ایک اجمالی نظر ڈالنے سے اس سوال کا جواب ہمیں نفی میں ملتا ہے ۔ وہ انسان جس کا مقام انتہائی ارفع ہے ابھی تک پوری استعداد و استطاعت کے مطابق نتائج دینے میں کامیاب نہیں ہوا۔ وہ مسلسل تگ و دو میں ہے کہ اللہ نے اس کو جن خوبیوں سے نوازا ہے اُن سب کو بروئے کار لا کر اپنے آ پ کو حقیقی معنوں میں خدا کا خلیفہ ثابت کرے : مہ و ستارہ سے آگے مقام ہے جس کا ! وہ مشت خاک ابھی آوارگانِ راہ میں ہے ! آئیے ذرا غور کریں کہ اقبال کی نظر میں وہ کونسے عوامل اور اعمال ہیںجن کو اختیار کرنے سے انسان ”ہمسایہ جبریلِ امین ‘ ‘ اور اللہ کا ہاتھ بن جاتا ہے۔ شاعر کی نظر میں انسان کا مقام سوائے اللہ کے ہر چیز سے بلند ہے ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان کوزمینی زندگی بہت مختصر عطا کی گئی ہے ۔ اس مختصر زندگی میں وہ عملِ پیہم کے ذریعے آگے ہی آگے بڑھتا جارہا ہے۔ اقبال انسان کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ اللہ نے انسان کے لیے جو اعلیٰ ترین معیار اور بلند ترین مقام پسند فرمایا ہے وہاں اللہ تک پہنچنے کے لیے سعی مسلسل کی ضرورت ہے اور انسان کو چاہیے کہ وہ مہد سے لحد تک اس مقام تک پہنچنے کے لیے انتھک جدوجہد اور سفر کرتا رہے: ہر ایک مقام سے آگے مقام ہے تیرا حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں رہی یہ بات کہ انسان کو اس مشکل اور پُر خار سفر کے دوران کیا سامان کرنا چاہیے اور کیا زادِ راہ اپنے پاس رکھنا چاہیے تاکہ وہ اس بلند مقام تک رسائی حاصل کر سکے جو خداوند تعالیٰ نے اس کے لیے مقرر کیا ہے۔ اقبال کی نظر میں اولین شرط یہ ہے کہ آدمی کو سب سے پہلے اپنے آپ کو پہچاننا چاہیے کہ وہ کون ہے ، کیا ہے ، اُس کا مقصد ِ تخلیق کیا ہے ، وہ کیا مقاصد ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو زمین پر بھیجا ، کائنات میں اس کا مقام کیا ہے اور خدا کی دیگر مخلوقات کے ساتھ اس کی نسبت کیا بنتی ہے ۔ ان تمام تفاصیل کا اجمالی نام ”خودی“ ہے ۔ا گر انسان اس خودی کی پرورش کر سکا تو خاک و خون کا یہ چھوٹا سا جاندار جسے عرف عام میں انسان کہتے ہیں ایک ایسے لافانی شعلے کی حیثیت حاصل کر لے گا جو اپنے اردگرد باطل کی تمام خس و خاشاک کو جلا کر راکھ کر دینے کی صلاحیت کا متحمل ہوگا اور خود کندن بن کر لازوال ہو جائے گا: خودی کی پرورش و تربیت پہ ہے موقوف کہ مشت ِ خاک میں پیدا ہو آتشِ ہمہ سوز ! اقبال ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اگر انسان واقعی قیمتی بننا چاہتا ہے اور بلند مقام پر فائز ہونے کی آرزو رکھتا ہے تو اُس کو اپنی خودی کی حفاظت کرنی ہوگی ورنہ ا س کا مقام بھی دوسرے جانداروں سے مختلف نہیں ہوگا: گراں بہا ہے تو حفظِ خودی سے ہے ، ورنہ گہر میں آبِ گہر کے سوا کچھ اور نہیں عظیم بننے اور خدا کے متعین کردہ مقام پر متمکن ہونے کے لیے اقبال ہمیں ایک اور گُر سے روشناس کراتا ہے ۔ وہ ہے گریہ نیم شبی اوراپنے خالق ، مقصد تخلیق کائنات، مقصدِ زیست اور ان تمام چیزوں کے ساتھ اپنے تعلق و نسبت کے بارے میں عمیق غور و فکر ۔ اگر انسان یہ سب کرسکا اور پھر حاصل کردہ افکار کی روشنی میں سفر حیات پر چل پڑا تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اُس مقام پر کمند نہ ڈال سکے جو اُس کے لیے متعین شدہ ہے۔ دھیرے دھیرے یہی خاک سے عبارت انسان وہ رفعت حاصل کر لے گا کہ بلند آسمان کے بلند ستارے زمین کے بظاہر پست انسان کی بلند پروازی سے خائف ہو جائیں گے: عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا ماہِ کامل نہ بن جائے لیکن یہ تب ممکن ہوگا اگر: واقف ہو اگر لذتِ بیداری شب سے اونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاکِ پُراسرار ! آغوش میں اس کی وہ تجلی ہے کہ جس میں کھو جائیں گے افلاک کے سب ثابت و سیار ! حاصل ِ کلام یہ کہ اگر انسان اپنی خودی کی حفاظت و پرورش کر سکا ، اپنی زندگی کو جہد مسلسل سے تعبیر کرسکا ، اپنے اندر عقابی روح بیدار کر سکا جو ہمیشہ بلند پروازی پر اُکساتی ہے اور اپنے آپ کو شب بیداری کی لذت سے آشنا کر سکا تو وہ ایک انسانِ کامل کا روپ دھار لے گا اور اُس کی فکر و نظر میں وہ وسعت اور گہرائی آ جائے گی کہ مستور کا ئنات میں تمام پردے اُس کے لیے اُٹھ جائیں گے اور زمین و آسمان ، چاند اور سورج ، پہاڑ و دریا الغرض کہ فطرت بذات خود اس کی چمک دمک سے خیرہ و مسحور ہو جائے گی ۔ اقبال انسان سے مخاطت ہے: دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے افلاک منور ہوں تیرے نورِ سحر سے خورشید کرے کسبِ ضیاءترے شرر سے ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے دریا متلاطم ہوں تری موجِ گرہ سے شرمندہ ہو فطرت تیرے اعجازِ ہنر سے اقبا ل کی نظر میں انسان وہ عظیم ہستی ہے جسے اللہ نے کائنات کی ظاہر و باطن تمام چیزوں کی خلافت و قیادت کے لیے پیدا کیا ۔ نظام ہستی میں انسان کا وجود ایک لپکتے اور تابناک شعلے کی مانند ہے جو باقی مخلوقات کی قید میں آہی نہیں سکتا۔ خداوند قدس نے اسی شعلے کے مصداق آزاد پیدا کیااور یہی وجہ ہے کہ وہ آزادی کا دلداہ اور غلامی سے متنفر ہے ۔ علاوہ ازیں یہ کائنات و مافیہا اللہ نے انسان کے تصرف کے لیے پیدا کیے ہیں۔ انسان کو ان چیزوں سے اعلیٰ اور افضل تخلیق کیا اور اُسے ان تمام چیزوں کارہبر بنا کر بھیجا ۔ لیکن اقبال حیران ہے کہ انسان اپنی پوری استعداد کے مطابق حقِ رہبری ادا کرنے سے قاصر کیوں ہے اور وہ ان چیزوں کا غلام کیوں بنا جو اُس کے غلام ہونے چاہیے تھے۔ اقبال انسان سے فرماتا ہے : تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلامِ خس و خاشاک؟ مہر و مہ و انجم نہیں محکوم تیرے کیوں ؟ کیوں تیری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک؟ انسان کی تمام ترعظمت اور دوسری تمام مخلوقات پر اُس کی فضیلت بیان کرنے اور اُ س کی ہمہ جہت صفات و اشگاف الفاظ میں آشکارا کرنے کے باوجود اقبال کو شکوہ ہے کہ دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو انسان کو حقیر سمجھتے ہیں۔ انسان کو زمین پر بھیجنے کے الٰہی منصوبے کی اکثر لوگ غلط توضیح کرتے ہوئے آدمی کو پیدائشی گناہگار اور پتہ نہیں کیا کیا سمجھتے ہیں۔ ان کم فہم لوگوں سے اقبال گلہ کرنے کے انداز میں فرماتے ہیں کہ انہوں نے تمام اسرار و رموز سے پردے ہٹادئیے اگر پھر بھی آپ کو انسان کی عظمت سمجھ میں نہیں آتی تو یہ تیری نظر کا فتوراور لاعلاج مرض ہے: میں نے توکیا پردہ اسرار کو بھی چاک دیرینہ ہے تیرا مرضِ کور نگاہی بشکریہ: آہنگ ادب اقبال کا تصور عورت عورت کے بارے میں اقبال کا نظریہ بالکل اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے وہ عورت کے ليے وہی طرز زندگی پسند کرتے ہیں جو اسلام کے ابتدائی دور میں تھا کہ مروجہ برقعے کے بغیر بھی وہ شرعی پردے کے اہتمام اور شرم و حیا اور عفت و عصمت کے پورے احساس کے ساتھ زندگی کی تما م سرگرمیوں میں پوری طرح حصہ لیتی ہیں۔ اس ليے طرابلس کی جنگ میں ایک لڑکی فاطمہ بنت عبداللہ غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی تو اس واقعہ سے وہ اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اسی لڑکی کے نام کوہی عنوان بنا کر اپنی مشہو ر نظم لکھی ۔ فاطمہ! تو آبرو ئے ملت مرحوم ہے ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر! ہے جسارت آفریں شوق شہادت کس قدر! یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی اقبال کی نظر میں عورت کا ایک مخصوص دائرہ کار ہے۔ اور اسی کے باہر نکل کر اگر وہ ٹائپسٹ، کلرک اور اسی قسم کے کاموں میں مصروف ہو گی تو اپنے فرائض کو ادا نہیں کرسکے گی۔ اور اسی طرح انسانی معاشرہ درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ البتہ اپنے دائرہ کار میں اسے شرعی پردہ کے اہتمام کے ساتھ بھی اسی طریقہ سے زندگی گزارنی چاہیے کہ معاشرہ پر اس کے نیک اثرات مرتب ہوں اور اس کے پرتو سے حریم ِ کائنات اس طرح روشن ہو جس طرح ذاتِ باری تعالی کی تجلی حجاب کے باوجود کائنات پر پڑ رہی ہے۔ مرد کی برتری اس سلسلہ میں ڈاکٹر یوسف حسین خان”روح اقبال “ میں لکھتے ہیں ۔ ”اقبال کہتا ہے کہ عورت کو بھی وہی انسانی حقوق حاصل ہیں جو مرد کو لیکن دونوں کا دائرہ عمل الگ الگ ہے دونوں اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ تعاون عمل کرکے تمدن کی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ وہ (اقبال ) مرد اور عورت کی مکمل مساوات کا قائل نہ تھا۔“ عورت پر مرد کی برتری کی وجہ اقبال کی نظر میں وہی ہے جو اسلام نے بتائی ہے کہ عورت کا دائرہ کار مرد کی نسبت مختلف ہے اس لحاظ سے ان کے درمیان مکمل مساوات کا نظریہ درست نہیں۔ اس عدم مساوات کا فائدہ بھی بالواسطہ طور پر عورت کو ہی پہنچتا ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری مرد پر آتی ہے۔ اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور کیا سمجھے گا وہ جس کی رگو ں میں ہے لہو سرد نے پردہ ، نہ تعلیم ، نئی ہو کہ پرانی نسوانیت زن کا نگہبان ہے فقط مرد جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد یہی احتیاج اور کمزوری و ہ نکتہ ہے جس کے باعث مر د کو عورت پر کسی قدر برتری حاصل ہے اور یہ تقاضائے فطرت ہے۔ اس کے خلاف عمل کرنے سے معاشرے میں انتشار لازم آتا ہے۔ پردہ اقبال عورت کے ليے پردہ کے حامی ہیں کیونکہ شرعی پردہ عورت کے کسی سرگرمی میں حائل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں ایک عورت زندگی کی ہر سرگرمی میں حصہ لے سکتی ہے اور لیتی رہی ہے اسلام میں پردہ کا معیار مروجہ برقعہ ہر گز نہیں ہے اسی برقعہ کے بارے میں کسی شاعر نے بڑ ا اچھا شعر کہا ہے۔ بے حجابی یہ کہ ہر شے سے ہے جلوہ آشکار اس پہ پردہ یہ کہ صورت آج تک نادید ہے بلکہ اصل پردہ وہ بے حجابی اور نمود و نمائش سے پرہیز اور شرم و حیا کے مکمل احساس کا نام ہے اور یہ پردہ عورت کے ليے اپنے دائرہ کا ر میں کسی سرگرمی کی رکاوٹ نہیں بنتا ۔ اقبال کی نظر میں اصل بات یہ ہے کہ آدمی کی شخصیت اور حقیقت ذات پر پردہ نہ پڑا ہو اور اس کی خودی آشکار ہو چکی ہو۔ بہت رنگ بدلے سپہر بریں نے خُدایا یہ دنیا جہاں تھی وہیں ہے تفاوت نہ دیکھا زن و شو میں ، میں نے وہ خلوت نشیں ہے! یہ خلوت نشیں ہے! ابھی تک ہے پردے میں اولاد آدم کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے اس بارے میں پروفیسر عزیز احمد اپنی کتاب ”اقبال نئی تشکیل “ میں لکھتے ہیں : ” اقبال کے نزدیک عورت اور مرد دونوں مل کر کائنات عشق کی تخلیق کرتے ہیں عورت زندگی کی آگ کی خازن ہے وہ انسانیت کی آگ میں اپنے آپ کو جھونکتی ہے۔ اور اس آگ کی تپش سے ارتقاءپزیر انسان پیدا ہوتے ہیں۔۔۔۔ اقبال کے نزدیک عورت کو خلوت کی ضرورت ہے اور مرد کو جلوت کی۔“ یہی وجہ ہے کہ اقبال ، عورت کی بے پردگی کے خلاف ہیں ان کے خیال میں پرد ہ میں رہ کر ہی عورت کو اپنی ذات کے امکانات کو سمجھنے کا موقعہ ملتا ہے۔ گھر کے ماحول میں وہ سماجی خرابیوں سے محفوظ رہ کر خاندان کی تعمیر کا فرض ادا کرتی ہے ۔ جو معاشرہ کی بنیادی اکائی ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اپنے گھر میں وہ یکسوئی کے ساتھ آئند ہ نسل کی تربیت کا اہم فریضہ انجام دیتی ہے اس کے برخلاف جب پردے سے باہر آجاتی ہے تو زیب و زینت ، نمائش ، بے باکی، بے حیائی اور ذہنی پراگندگی کا شکار ہو جاتی ہے چنانچہ یہ فطری اصول ہے کہ عورت کے ذاتی جوہر خلوت میں کھلتے ہیں جلوت میں نہیں۔ ”خلوت“ کے عنوان سے ایک نظم میں اقبال نے کہا ہے۔ رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے روشن ہے نگہ آئنہ دل ہے مکدر بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے وہ قطرہ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر خلوت میں خودی ہوتی ہے خود گیر و لیکن خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر! عورتوں کی تعلیم اقبال عورت کے ليے تعلیم کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن اس تعلیم کا نصاب ایسا ہونا چاہیے جو عورت کو اس کے فرائض اور اس کی صلاحیتوں سے آگاہ کرے اور اس کی بنیاد دین کے عالمگیر اُصولوں پر ہونی چاہیے۔ صرف دنیاوی تعلیم اور اسی قسم کی تعلیم جو عورت کو نام نہاد آزادی کی جانب راغت کرتی ہو۔ بھیانک نتائج کی حامل ہوگی۔ تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت ہے حضرت انسان کے ليے اس کا ثمرموت جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن ہے عشق و محبت کے ليے علم و ہنر موت اقبال کے خیال میں اگر علم و ہنر کے میدان میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکے تو اس کا مرتبہ کم نہیں ہو جاتا ۔ اس کے ليے یہ شرف ہی بہت بڑا ہے کہ زندگی کے ہر میدان میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے مشاہیر اس کی گود میں پروان چڑھتے ہیں اور دنیا کا کوئی انسان نہیں جو اس کا ممنونِ احسان نہ ہو۔ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز ِ دروں شرف میں بڑھ کر ثریا سے مشت خا ک اس کی کہ ہر شرف ہے اسی درج کادر مکنوں! مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن! اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں آزادی نسواں اقبال اگرچہ عورتوں کے ليے صحیح تعلیم ، ان کی حقیقی آزادی اور ان کی ترقی کے خواہاں ہیں۔ لیکن آزادی نسواں کے مغربی تصور کو قبول کرنے کے ليے وہ تیار نہیں ہیں اس آزادی سے ان کی نظر میں عورتوں کی مشکلات آسان نہیں بلکہ اور پیچیدہ ہو جائیں گی ۔ اور اس طرح یہ تحریک عورت کو آزاد نہیں بلکہ بے شمار مسائل کا غلام بنا دے گی۔ ثبوت کے طور پر مغربی معاشرہ کی مثال کو وہ سامنے رکھتے ہےں جس نے عورت کو بے بنیاد آزادی دے دی تھی تو اب وہ اس کے ليے درد ِ سر کا باعث بنی ہوئی ہے۔ کہ مرد و زن کا رشتہ بھی کٹ کر رہ گیا ہے۔ ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا! مگر یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ پرویں فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور! کہ مرد سادہ ہے بےچارہ زن شناس نہیں اقبال کی نظر میں آزادی نسواں یا آزادی رجال کے نعرے کوئی معنی نہیں رکھتے بلکہ انتہائی گمراہ کن ہیں۔ کیونکہ عورت اور مرد دونوں کو مل کر زندگی کا بوجھ اُٹھانا ہوتا ہے۔ اور زندگی کو آگے بڑھانے اور سنوارنے کے ليے دونوں کے باہمی تعاون ربط اور ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے دونوں کے کامل تعاون کے بغیر زندگی کاکام ادھورا اور اس کی رونق پھیکی رہ جاتی ہے۔ اس ليے ان دونوں کو اپنے فطری حدود میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے زندگی کو بنانے سنوارنے کا کام کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کا ساتھی ثابت ہونا چاہیے۔ نہ کہ مدمقابل چنانچہ آزادی نسواں کے بارے میں وہ فیصلہ عورت پر ہی چھوڑ تے ہیں کہ وہ خود سوچے کہ اس کے ليے بہتر کیا ہے۔ اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں کر سکتا گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے ، وہ قند کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش مجبور ہیں ، معذور ہیں، مردان خرد مند کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ آزادی نسواں کہ زمرد کا گلوبند! امومیت اقبال کی نظر میں عورت کی عظمت کا راز اس کے فرض امومیت میں پوشیدہ ہے معاشرتی اور سماجی زندگی میں ماں کو مرکز ی حیثیت حاصل ہے۔ اور خاندانوں کی زندگی اسی جذبہ امومیت سے ہی وابستہ ہے۔ ماں کی گود پہلا دبستان ہے جو انسان کو اخلاق اور شرافت کا سبق سکھاتا ہے۔ جس قوم کی مائیں بلند خیال عالی ہمت اور شائستہ و مہذب ہو گی اس قوم کے بچے یقینا اچھا معاشرہ تعمیر کرنے کے قابل بن سکیں گے۔ گھر سے باہر کی زندگی میں مرد کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن گھر کے اندر کی زندگی میں عورت کو فوقیت حاصل ہے ۔ کیونکہ اس کے ذمہ نئی نسل کی پرورش ہوتی ہے۔ اور اس نئی نسل کی صحیح پرورش و پرداخت پر قوم کے مسقبل کا دارمدار ہوتا ہے۔ اس ليے عورت کا شرف و امتیاز اس کی ماں ہونے کی وجہ سے ہے۔ جس قوم کی عورتیں فرائض ِ امومت ادا کرنے سے کترانے لگتی ہے اس کا معاشرتی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اس کا عائلی نظام انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ افراد خاندان کے درمیان رشتہ عورت کمزور پڑ جاتا ہے۔ اور اخلاقی خوبیاں دم توڑ دیتی ہیں ۔ مغربی تمد ن کی اقدار عالیہ کو اس ليے زوال آگیاہے کہ وہاں کی عورت آزادی کے نام جذبہ امومت سے بھی محروم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ کوئی پوچھے حکیم یورپ سے ہند و یونان ہیں جس کے حلقہ بگوش! کیا یہی ہے معاشرت کا کمال مرد بےکار و زن تہی آغوش! عورتوں کے ليے مغربی تعلیم کی بھی اقبال اسی ليے مخالفت کرتے ہیں کہ اس سے ماں کی مامتا کی روایت کمزور پڑتی ہے اور عورت اپنی فطری خصوصیات سے محروم ہو جاتی ہے۔ اقبال کی نظر میں دنیا کی تمام سرگرمیوں کی اصل ماں کی ذات ہے ، ماں کی ذات امین ممکنات ہوتی ہے اور دنیا کے انقلابات مائوں کی گود میں ہی پرور ش پاتے ہیں۔ اسی ليے ماں کی ہستی کسی قوم کے ليے سب سے زیادہ قیمتی متاع ہوتی ہے۔ جو قوم اپنی مائوں کی قدر نہیں کرتی اس کا نظام ہستی بہت جلد بکھر جاتا ہے۔ جہاں رامحکمی از اُمیات ست نہاد شان امین ممکنا ت ست اگر ایں نکتہ را قومی نداند نظام کروبارش بے ثبات ست ماں کی ہستی اس قدر بلند مرتبت ہے کہ قوم کہ حال و مسقبل انہی کے فیض سے ترتیب پاتا ہے۔ قوم کی تقدیر بنانے میں ماں کا کردار بنیادی ہے اس ليے عورت کو چاہیے کہ فرض امومیت کی ادائیگی میں اپنی پوری صلاحیتیں صرف کر دی کہ اس کی خودی کا استحکام اسی ذریعہ سے ہوتا ہے۔ مثالی کردار اقبال نے حضرت فاطمہ کے کردار کو عورتوں کے ليے مثال اور نصب العین قرار دیا ہے بےٹی ، بیوی اور ماں کی حیثیت سے حضرت فاطمہ نے جو زندگی بسر کی وہ دنیا کے تما م عورتوں کے ليے نمونہ ہے۔ فررع تسلیم را حاصل بتول مادراں راسوہ کامل بتول فطرت تو جذبہ ہا دارد بلند چشم ہوش از اُسوہ زُ ہرا مند اقبال کے نزدیک انسانی خودی کے بنیادی اوصاف فقر، قوت ، حریت اور سادگی سے عبارت ہیں اور یہ تمام حضرت فاطمہ کی زندگی میں بدرجہ اتم جمع ہوگئے تھے۔ انہی اوصاف نے ان کے اُسوہ کو عورتوں کے ليے رہتی دنیا تک مثالی بنا دیا ہے۔ اور ان کی ہستی کی سب سے بڑھ کریہ دلیل ہے کہ حضرت امام حسین جیسی عظیم و مدبر شخصیت کو انہوں نے اپنی آغوش میں پروان چڑھایا ۔ اقبال کی نظر میں عورت کے بطن سے اگر ایک ایسا آدمی پیدا ہوجائے جو حق پرستی اور حق کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین اور مقصد قرار دے تو اس عورت نے گویا اپنی زندگی کے منشاءکو پورا کر دیا۔ اسی ليے وہ مسلمان عورتوں سے مخاطب ہو کرکہتے ہیں۔ اگر پندے ز درد پشے پذیری ہزار اُمت بمیرد تو نہ میری! بتو ے باش و پنہاں شواز یں عصر کہ در آغوش شبیرے بگیری! حاصل کلام عورت کے بارے میں اقبال کے خیالات کا ہر پہلو جائزہ لینے کے بعد یہ الزام قطعاً بے بنیاد ثابت ہو جاتا ہے کہ انہوں نے عورت کے متعلق تنگ نظری اور تعصب سے کا م لیا ہے دراصل ان کے افکار کی بنیاد اسلامی تعلیمات پر ہے اور عورت کے متعلق بھی وہ انہی حدود و قیود کے حامی ہیں جو اسلام نے مقرر کی ہیں۔ ےہ حدود و قیود عورت کو نہ تو اس قدر پابند بناتی ہیں جو پردہ کے مروجہ تصور نے سمجھ لیا ہے۔ اور نہ اس قدر آزادی دیتی ہیں جو مغرب نے عورت کو دے دی ہے۔ نہ یہ پردہ اسلام کا مقصد ہے اور نہ یہ آزادی اسلام دیتا ہے۔ اسلام عورت کے ليے ایسے ماحول اور مقام کا حامی ہے جس میں وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں بہتر طور پر استعمال کرسکے اور یہی بات اقبال نے کہی ہے یہ فطرت کے بھی عین مطابق ہے اس کی خلاف ورزی معاشرت میں لازماً بگاڑ اور نتشار کا باعث بنتی ہے۔ ایک تعارف رقصاں ہے لفظ لفظ میں اِک موجِ زندگی بخشا ہے اُس نے نثر کو صدِ کیفِ نغمگی خواجہ علی حسن نظامی اردو انشاءپردازی کے ایک مشہور و معروف ادیب گزرے ہیں۔ اُن کے دلچسپ اور اثرانگیز افسانے اُن کی شہرت کا باعث بنے۔علم دوست شخصیتوں نے علی حسن کے سفرناموں، افسانوں اور مضامین کو اپنے کتب خانوں کی زینت بنایا اور بہت کم عمر میں ہی وہ ایک صاحبِ طرز نثر نگار کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے۔ اُنہوں نے معمولی مضامین خوبصورت اور دِل نشین انداز میں رقم طراز کئے اور اردو نثر کو جدت کی راہ پر گامزن کر دیا۔ آپ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے علامہ اقبال فرماتے ہیں: اگر میں خواجہ حسن نظامی جیسی نثر لکھنے پر قدرت رکھتا ہوتا تو کبھی شاعری کو اظہارِ خیال کا ذریعہ نہ بناتا۔ بلاشبہ اردو نثر نگاروں میں خواجہ حسن نظامی کی ذات قابلِ قدر ہے اور وہ ایک منفرد رنگ کے مالک ہیں۔ چند تصنیفات
طرزِ تحریر کی خصوصیات خواجہ حسن نظامی کے طرزِ تحریر کی خصوصیات درج ذیل ہیں: (۱) سادگی و سلاست خواجہ حسن نظامی زبان و بیان کی سادگی سے کام لیتے ہیں اور نہایت سہل زبان کو استعمال کرتے ہوئے بڑے مشکل مطالب بیان کر جاتے ہیں۔عام فہم الفاظ کے خوبصورت استعمال کی بدولت اُن کے نثر کی خوبصورتی برقرار رہتی ہے اور بوجھل پن محسوس نہیں ہوتا۔ بقول رام بابو سکسینہ: خواجہ صاحب کی تحریریں نہایت سادہ، سلیس اور دلکش ہوتی ہیں۔ (۲) شوخی و ظرافت زبان کی چاشنی اور چٹکلوں سے خواجہ حسن نظامی نے اپنی تحریروں میں مزاح کا رنگ پیدا کیا ہے۔ وہ جب کبھی مزاح کی چٹکی لیتے ہیں تو عام اور سیدھی بات کو گلاب کی سی رعنائی بخش دیتے ہیں۔ اُن کے مضامین میں عبارات ظرافت، شوخی اور لطافت کی چاشنی سے معمور نظرآتی ہیں۔ مثال کے طور پر وہ اپنے ایک مضمون پیاری ڈکار میں لکھتے ہیں: یہ نئے فیشن کے مچھر کو زور سے ڈکار نہیں لینے دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ڈکار لینے لگے تو ہونٹوں کو بھینچ لو اور ناک کے نتھنوں سے اُسے چُپ چاپ اُڑا دو۔ آواز سے ڈکار لینی بڑی بدتمیزی ہے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں: میڈیکل اسٹور کی طرف جانا ہو تو میرے پیارے ڈاکٹر کا کان مڑوڑ دینا اور پریمی پیارا ملے تو اُسے منہ چڑا دینا۔ (۳) ندرتِ موضوعات خواجہ صاحب کا کمالِ فن اُس وقت عروج پر نظر آتا ہے جب آپ کے انوکھے اور اچھوتے مضامین نظر سے گزرتے ہیں۔ انہوں نے نہایت انوکھے موضوعات پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے اپنی مہارت کی معراج کو پایا اور بڑی خوبصورتی سے اِن مضامین کو پُر لیف بنا دیا۔ ایک مضمون گلاب تمھارا کیکر ہمارا میں لکھتے ہیں: آخر یہ میاں گُلا ب کس مرض کی دوا نہیں۔ پیٹ میں درد ہو تو گل قند کھلاﺅ، ہیضہ ہو جائے تو گلاب پلاﺅ اور اگر مر جاﺅ تو قبر پر چڑھاﺅ۔ اِس کے علاوہ اُن کا یہ رنگ مندرجہ ذیل مضامین میں نظر آتا ہے:
شہزادی کی بپتا میں لکھتے ہیں: باﺅ بلبلا گئی۔ وہ کبھی پھول کی چھڑی سے نہ پٹی تھی۔ اب ایسا طمانچہ لگا کہ اُس کے رونے سے مجھ کو بھے بے اختیار روناآ گیا۔ (۵) عارفانہ وصوفیانہ طرزِ بیان ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ حسن علی ایک صاحبِ دل صوفی بھی تھے۔ رشد و ہدایت کی مسند انہیں ورثے میں ملی تھی۔ وہ اپنے خیالات کو قلم بند کرتے ہوئے معرفت الٰہی کے رنگ میں بڑی خوبصورتی سے پرو دیتے ہیں۔ اسلوب میں والہانہ جوش اور ایک سچے عاشق کے دل کی صدا سنائی دیتی ہے۔ بقول رام بابو سکسینہ: خواجہ صاحب کی کتاب کرپشن بیتی کو اہلِ اسلام اور خاص کراربابِ تصوّف نے بہت پسند کیا۔ (۶) محاورات و اختصار پسندی نثرنگار کے مضامین کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ کی تحریروں میں فقرات مختصر اور جامع ہوتے ہیں۔ آپ آزاد کی طرح چھوٹے مگر با محاورہ جملے ترتیب دیتے ہیں جن میں روانی اور لطافت کا عنصر نمایاں طور پر پایا جاتا ہے۔ آپ کی تحریروں میں تسلسل کا دارومدار اِنہیں مختصر،سادہ و شیریں جملوں پر ہے۔ (۷) جذبات نگاری خواجہ حسن نظامی کی تحریریں انسانی زندگی کے سچے واقعات کی عکاس ہیں۔ آپ اِن واقعات کوترتیب دیتے ہوئے جذبات کے اظہار کا بھرپور خیال رکھتے ہیں۔ مطالعہ کرنے کے بعد قاری کے دل و ذہن پر متاثر کن اثر باقی رہتا ہے جو قاری کے دلی جذبات سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ بیگمات کے آنسو میں وہ لکھتے ہیں: مجھے بخار چڑھ رہا ہے۔ میری پسلیوں میں شدت کا درد ہو رہا ہے۔ مجھے سردی لگ رہی ہے۔ میری ماں مجھ سے بچھڑ گئی ہے اور بابا حضرت جلا وطن ہو گئے۔ میں اینٹ پر سر رکھے لیٹی ہوں۔ میری بدن میں کنکر چبھ رہے ہیں۔ بابا اٹھو! کب تک سو گے؟ ناقدین کی آراہ خواجہ علی حسن نظامی کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے مختلف نقاد اُن کی تعریف بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ صلاح الدین احمد کہتے ہیں: خواجہ صاحب کو رنج و الم کے مضامین بیان کرنے کا جو سلیقہ ہے اُس میں علامہ راشد الخیری کے علاوہ اُن کا کوئی ہم پلہ نہیں۔ بابائے اردو مولوی عبد الحق بیان کرتے ہیں: اگر تم صاف ستھری اور نکھری ہوئی اردو پڑھنا اور سیکھنا چاہتے ہو تو خواجہ صاحب کی نثر پڑھو۔ زبان کے ساتھ ساتھ دلّی کے واقعات کا بھی ایک جہاں آباد ہے۔ اُن کے کسی دوست کا کہنا ہے: حسن نظامی کی پیری اور پیرزادی نے اُن کی انشاءپردازی کو چمکایا اور اُن کی انشاءپردازی نے اُن کی پیرزادی اور پیری کو شہرت دی۔ ڈاکٹر کلیم الدین احمد کہتے ہیں: خواجہ صاحب کا اصل رنگ، خواجہ صاحب کی اصلی اہمیت اُن کی انشاءہے۔ وہ نہایت ہی آسان ، سادہ اور پُر تکلف طرز میں لکھتے ہیں۔ ایک تعارف سیّد احمد شاہ بخاری خالص مزاح کے علم بردار قلمکار ہیں۔آپ نے اس مشکل ترین صنفِ ادب میں خامہ فرسائی کی اور قارئین سے زبردست دادِ تحسین وصول کی۔ آپ نے اپنے مضامین میں مزاح نگاری کونہایت خوبصورت انداز میں استعمال کیا ۔آپ کی ذہانت کی عکاس آپ کی وہ تحریریں ہیں جن میں واقفیت، حسنِ تعمیر، علمی ظرافت، زیرِ لب تبسم، شوخی، طنز اور مزاح کا بھرپور عکس نظر آتا ہے۔ پطرس کے زورِ قلم کا کُل اثاثہ ۵۵۱ صفحات کا کتابچہ المعروف بہ مضامینِ پطرس ہے۔ ان چند مضامین نے اردو ادب کی صنفِ مزاح میں ایک انقلاب برپا کر دیا اور پطرس اس حلقے میں سب سے ممتاز ہو گئے۔ اُن کے قلم کی تخلیق دائمی شہرت اور عظمت کا سبب بنی اور انہوں نے اپنے ہم عصر مزاح نگاروں کے درمیان ایک نمایاں مقام حاصل کر لیا۔ بقول آل احمد سرور: پطرس نے بہت تھوڑے مضامین لکھے، مگر پھر بھی ہماری چوٹی کے مزاح نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اتنا تھوڑا سرمایہ لے کر بقائے دوام کے دربار میں بہت کم لوگ داخل ہوئے ہیں۔ طرزِ تحریر کی خصوصیات پطرس کے طرزِ تحریر کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔ (۱) اسلوب کی شگفتگی پطرس بخاری زبان و بیان کی سادگی سے کام لیتے ہوئے الفاظوں سے اس طرح کھیلتے ہیں کہ ان کو دل سے داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ سادگی، صفائی، روانی ، محاورات کے برجستہ استعمال اور شگفتگی کی بدولت اُن کے مضامین میں ایک کشش ہے۔ آپ کی تحریروں کے مطالعے کے بعد ایسا لگتا ہے گویا اپنے کسی دوست سے نہایت بے تکلفانہ انداز میں ہمکلام ہیں۔ وہ اپنی کتاب مضامینِ پطرس کے دیباچہ میں رقم طراز ہیں: اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت میں بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں سے چُرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ اب بہتر یہ ہے کہ اس کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں۔ (۲) ظرافت کی خصلت پطرس کے مضامین میں جو مزاح نظر آتا ہے وہ خالصتاً مزاح ہے۔ اس میں بدتمیزی، طنز، تمسخر اور عامیانہ پن جیسی اصناف سے زبردستی ہنسانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ آپ کی نگارش میں مزاح وشوخی کی آفاقی خصلت ہے جو ہر موڑ پر نظر آتی ہے۔ آپ نے شرارت کے سلیقے کو برقرار رکھتے ہوئے ظرافت کے میدان کو وسیع و غیرمحدود کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر وہ ہاسٹل میں پڑھنا میں لکھتے ہیں: اب قاعدے کی رو سے ہمیں بی۔اے کا سرٹیفکیٹ مل جانا چاہیے تھا۔ لیکن یونیورسٹی کی اس طِفلانہ ضد کا کیا علاج کہ تینوں مضمونوں میں بیک وقت پاس ہونا ضروری ہے۔ (۳) واقعہ نگاری واقعہ نگاری پطرس کے نگارش کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ وہ لفظوں کے انتخاب اور فقروں کی ترتیب کا حسن استعمال کرتے ہوئے مضحکہ خیز واقعات کی تصویرکشی ایسی مہارت اور خوبصورتی سے کرتے ہیں کہ چشم تصور اُن کو ہو بہو اپنے سامنے محسوس کرتی ہے۔ مثال کے طورپر ”مرحوم کی یاد میں“ کے اس اقتباس میں وہحُسنِ انتخاب سے ایک مزاح آمیز ماحول پیدا کرتے ہیں: تمام بوجھ دونوں ہاتھوں پر تھا جو ہینڈل پر رکھے تھے اور برابر جھٹکے کھا رہے تھے۔ اب میری حالت تصور میں لائیں تو معلوم ہوگا جیسے کوئی عورت آٹاگوندھ رہی ہے۔ (۴) عکاسِِ زندگانی مصنف نے معاشرے اور روزمرّہ زندگی کا بھرپورتجزیہ کیا ہے اور اِس جائزے سے انسانی زندگی کے نازک ، لطیف اور نرم و ملائم پہلوﺅں پر قلم اُٹھایا ہے۔ آپ کی تحریروں میں پیش کئے گئے کرداروںاور واقعات کا تعلق کسی خاص معاشرے سے نہیں ، بلکہ آپ نے تمام تہذیبوں میں پائی جانے والی یکساں صفات کی عکاسی کی ہے۔ اسی لئے پطرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ: پطرس نے اپنی ظرافت کا مواد زندوں سے لیا ہے۔ ہاسٹل میں پڑھنا دنیا کے تمام طالب علموں کی عمومیت اور ہمہ گیری کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔ (۵) تحریف (Parody) احمد شاہ پطرس بخاری نے اپنی تحریروں میں تحریف نگاری کو نہایت مہارت سے پروکر ایک انوکھی خوبصورتی پیدا کر دی ہے۔ آپ نے اس مشکل فن سے شوخ اور ظریف رنگ پیدا کیا اور قارئین کے لئے ہنسنے کے دلکش مواقع پیدا کئے ہیں۔ مثال کے طور ایک مصنف نے لکھا ہے: بچہ انگوٹھا چوس رہا ہے اور باپ اُسے دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہا ہے۔ پطرس اس کو یوں بیان کرتے ہیں: باپ انگوٹھا چوس رہا ہے، بچہ حسبِ معمول آنکھیں کھولے پڑا ہے۔ بعض مواقعات پر آپ نے یہ کمال اشعار سے بھی ظاہر کیا ہے۔ وہ غالب کے شعر کی تحریف کچھ اس طرح کرتے ہیں کہوں کس سے میں کہ کیا ہے سگ رہ بری بلا ہے مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا اصل شعر کچھ اس طرح سے ہے کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بری بلا ہے مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا (۶) مغربی ثقافت کا رنگ احمد شاہ بخاری چونکہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے ہیں اس لئے اُن کا مغربی ادب کا بھرپور مطالعہ تھا۔ انہوں نے مغربی مزاح نگاری کا گہرا تجزیہ کیا اور اُس کی تمام تر خوبصورتی اور لطافتوںکو سمیٹ کر مشرقی رنگ میں ڈھالا۔ آپ کے مضامین میں جو ثقافتِ مغرب کا رنگ نظر آتا ہے وہ قاری کو ذرا بھی گراں نہیں گزرتا اور نہ کسی تحریر کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔ بقول پروفیسر تمکین: پطرس نے انگریزی ادب کی روح کو ہندوستانی وجود دے کر اپنی نگارش میں ایک خاص لطف و نکھار اور رکھ رکھاﺅ پیدا کر دیا ہے جو اپنی وضع کی ایک ہی چیز ہے۔ (۷) کردار نگاری پطرس کے طرزِ تحریر میں ایک اور خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ کرداروں کے ذریعے ایک لطف اندوز ماحول پیدا کرتے ہیں۔ انسانی فکروشعورکے تمام پہلوﺅں پر مکمل عبور رکھتے ہوئے آپ اس طرح اپنے مضمون کو جملہ بہ جملہ تخلیق کرتے ہیں کہ مطالعہ کرنے والاشخص ایک مزاح آمیز ماحول میں گم ہو جاتا ہے اور بے اختیار مسکرا دیتا ہے۔ مرید پور کا پیر میں پیر کا کردار، ہاسٹل میں پڑھنا میں طالب علم کا کردار ، یہاں تک کہ کتّے میں کتوں کا کردار اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ (۸) اِختصاروجامعیت پطرس کے مختلف مضامین ایک کامل اور ماہر ادیب کے فنون کی عکاسی کرتے ہیں۔ آپ اپنی بات کہنے پرمکمل عبور رکھتے ہیں او ر بڑے سے بڑے موضوع کو نہایت مختصر ،جامع ور دل نشین انداز میں رقم کر دیتے ہیں۔ آپ کا حسنِ انتخاب ہی وہ وجہ ہے جس کی بدولت آپ کا سرمایہ ادب لافانی بن گیا۔مثال کے طور پر ”ہاسٹل میں پڑھنا“ میں انہوںنے ایک جملے سے کیا بات کہہ ڈالی: ہم پہ تو جو ظلم ہوا سو ہوا، یونیورسٹی والوں کی حماقت ملاحظہ فرمائیے، کہ ہمیں پاس کر کے اپنی آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ ہاتھ سے گنوا بیٹھے۔ ناقدین کی آرائ مختلف نقاد پطرس کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں پطرس کی تعریف بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ حکیم یوسف حسن پطرس کے بارے میںکہتے ہیں: اگر میں یہ کہ دوں تو بے جا نہ ہوگا کہ ہند وپاکستان کے تمام مزاحیہ کتابوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں ڈالا جائے اور پطرس کے مضامین دوسرے پلڑے میں رکھے جائیں تو پطرس کے مضامین بھاری رہیں گے۔ غلام مصطفی تبسم لکھتے ہیں: بخاری کی نظر بڑی وسیع اور گہری ہے اور پھر اُسے بیان پر قدرت حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُس کا مزاح پڑھنے والوںکی دل میں شگفتگی پیدا کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر خورشید السلام کا بیان ہے کہ: اُن کے اندازِ فکر اور طرزِ بیان میں انگریزی ادب کا اثر موجود ہے اور اندازِبیان میں تخیّل کا عمل فرحت اللہ بیگ سے زیادہ قریب ہے۔ حاصلِ تحریر اردو ادب کے گلشنِ مزاح میں پطرس نے جو پھول کھلائے ہیں اُن کی خوشبو آج تک علم دوست لوگوں کے اذہان کو مہکا رہی ہے۔آپ نے چند مضامین میں مزاح نگاری کے جوجوہر دکھائے وہ دادِ تحسین کا باعث بنے اور آپ کو شہرت کی معراج تک لے گئے۔ آپ کا ہر مضمون قابلِ قدر ہے اور مزاح نگاری کی نئی نئی جہتوں سے روشناس کراتے ہوئے مسکراہٹوں کے مواقع پیدا کرتا ہے۔ احمد شاہ پطرس بخاری اس شعبہ �¿ ادب میں ہمیشہ ممتاز رہیں گے اور اُن کا نام تاقیامت زندہ رہے گا۔ بقول شاعر ادب میں لطافت کے جلوے بکھیرے ہٹا کر افسردہ دلوں کے اندھیرے تو لایا تبسم کے روشن سویرے اے پطرس! بہت خوب ہیں کام تیرے ایک تعارف سنگِ تربت ہے مرا گرویدہِ تقدیر دیکھ چشم باطن سے اس لوح کی تحریر دیکھ سر سید احمد خان جیسا مردِ مومن کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ یہ انہیں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم میں معاشرے کے دردواَلم کا احساس موجود ہے۔ وہ ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے جب مسلمانانِ ہند انگریز کی غلامی میںگمراہی و ضلالت کی تاریک چادر اوڑھے سو رہے تھے‘ انسانی ضمیر کچلا جا رہا تھا ‘ انسانیت پس رہی تھی اور صاحبِ دولت طبقہ غیر ملکی آقاﺅں کی سرپرستی میں کمزور اور بے حس عوام پرحکومت کر رہا تھا۔ یہ دنیا کا اصول ہے کہ جب ظلم و ستم کی تاریک گھٹائیںاندھیروں کاروپ اختیار کر لیتی ہیں تو انہی مظلوموںمیں سے ایک ایسی کرن پھوٹتی ہے جو بڑی تیزی سے اس تاریکی کو چیرتی ہوئی ہر طرف اجالا پھیلا دیتی ہے ۔ اسی کرن کی بدولت نورپھیلتاہے‘ اذانیں سنی جاتی ہیں‘ پرندے چہکتے ہیں اور انسانیت خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر عباد ت گاہوں کا رخ کرتی ہے۔ سر سید احمدخان اس کی ایک تابندہ مثال ہیں۔ اٹھارویں صدی میں سر سیّدمعاشرے کی اصلاح کا بیڑا اپنے سر لیتے ہے۔ ان کے کارخانہئِ فکر میں ایسے گہر ہائے آبدا ر تخلیق پاتے ہیں جن کی تابانیاں صفحہِ قرطاس پر منتقل ہونے کے بعد نہ صرف مسلمانانِ ہند کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرتی ہیں بلکہ اردو ادب کی لا متناہی ترقی کا سبب بھی بنتی ہیں۔ آپ اردو ادب کو سادگی اور سلاست کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں اورتحریروں میں مقصدیت پیدا کرتے ہیں۔آپ کی اردو ادب کے لئے اَن گنت خدمات کے باعث آپ کو جدید اردو ادب کا بانی کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔ طرزِ تحریر کی خصوصیات سر سیّد احمد کے طرزِ تحریر کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔ (۱) مقصدیت سر سیّد احمد خان کی زندگی کا مقصد برِصغیر کے مسلمانوں کو حُسن و عشق کی فضاﺅں سے نکال کر میدانِ عمل میں لے جانا تھا۔ اس وقت کے ادیب طرزِ بیان پر زور دیتے تھے اور ان کی تحریریں بے مقصد ہوتی تھیں۔ انہوں نے زمانے کی اس روایت سے بغاوت کرتے ہوئے تحریروں میں طرزِ بیان سے زیادہ مقصدیت پرزور دیا اور ایسی تحریریں قلم بند کی جن سے قوم میں شعور پیدا ہو۔ سر سید کا کہنا ہے۔ ایک اچھا ادیب وہی ہے جو کسی مقصد کے تحت لکھے۔ بطور مثال ایک مضمون میں لکھتے ہیں۔ پس اے میرے نوجوان ہم وطنو! اور میری قوم کے بچو! اپنی قوم کی بھلائی پر کوشش کرو تاکہ آخری وقت میں اس بڈھے کی طرح نہ پچھتاﺅ۔ ہمارا زمانہ تو آخر ہے‘ اب خدا سے یہ دعا ہے کہ کوئی نوجوان اٹھے اور اپنی قوم کی بھلائی میں کوشش کرے۔ آمین ! (۲) اضطراب سر سید کی شخصیت ایک پُر جوش شخصیت تھی اور وہ ایک انقلابی ذہن کے مالک تھے۔ وہ چونکہ اس مقصد کی تحت لکھتے تھے کہ قوم کو بیدار کیا جائے اس لئے ان کی تحریروں میں ایک اضطرابی کیفیت پائی جاتی ہے۔ وہ اپنا مدعا بیان کرتے وقت اس قدر پر جوش ہو جاتے کہ انہیں جملوں کی خوبصورتی اور فقروں کی ہم آہنگی میں دلچسپی نہیں رہتی اور ان کا قلم جذبات کی رو میں بہہ جاتا۔ (۳) انگریزی الفاظ سر سید چونکہ جملوں کی ساخت کو اہمیت نہیں دیتے تھے اس لئے ان کی تحریروں میں انگریزی کے الفاظ بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ ان الفاظ کے استعمال کے باوجود ان کی تحریریں پُر اثر ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک جگہ وہ لکھتے ہیں۔ علیگڑھ کالج کے اسٹوڈنٹس میںسے ون پرسنٹ بھی نہیں ہیں جنہیں ہائی سروسز کے قابل سمجھا جائے۔ (۴) استدلالی تحریریں سر سیّد احمد خان نے تحریک چونکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت چلائی تھی اس لئے انہوں نے تحریروں میں اپنا مقصد دلائل کے ساتھ واضح کیا ہے ۔ انہوں نے علمی‘ ادبی‘ دینی‘ اخلاقی اور معاشرتی تحریروں میں جذباتی اندازِ بیان اختیار کرنے کے بجائے استدلال سے کام لیا ہے اور ہر بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ بقول ڈاکٹر سید عبداللہ۔ ان کی تحریروں میں منطقیانہ استدلال پایا جاتا ہے جو ہر قسم کے علمی اور تعلیمی مباحثے کے لئے موضوع ہے۔ (۵) سادگی و سلاست سر سیّد احمد خان کے دور میں جتنے بھی مشہور و معروف ادیب گزرے ہیں وہ اپنے نثر کے طرز تحریر پر توجہ دیتے تھے اور اردو نثر میں شاعرانہ رنگینی اور آرائشوں کا بہت دخل تھا۔ اردو نثر طوالت اور بے جا تکلفات سے بوجھل ہو رہی تھی۔ سر سیّد ان پابندیوں کو خیرباد کہتے ہوئے اپنی تحریروں میں سادہ اور فطری انداز اختیار کرتے ہیں اور صاف اور آسان عبارات میں اپنا مقصد بیان کرتے ہیں۔ بقول ابو اللّیث صدّیقی۔ زندگی کی جو سادگی اور توانائی سر سید کے کردار میں پائی جاتی ہے وہی اُن کی تحریروں میں بھی موجود ہے۔ بطور مثال نمونہ پیش ہے۔ اے مسلمان بھائیو ! کیا تمہاری یہی حالت نہیں ہے ؟ تم نے اس عمدہ گورنمنٹ سے جو تم پر حکومت کر رہی ہے‘ کیا فائدہ اٹھایا ؟ (۶) پُر اثر مضامین سر سیّد احمد خان نے اردو ادب کو جو سرمایہ فراہم کیا وہ ایسے مضامین کا سرمایہ ہے جن کا مطالعہ کرنے سے قاری کی وہی کیفیت ہو جاتی ہے جو مصنف کی تحریر کے وقت ہوتی ہے۔ ان کی تحریروں سے ان کی شخصیت کا جوش جھلکتا ہے اور ان کے نثر پارے شمشیرِ آبدار کی سی کاٹ رکھتے ہیں۔ بقول حالی۔ جس طرح تلوار کی کاٹ درحقیقت ایک باڑ میں نہیں بلکہ سپاہی کے کرخت ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اسی طرح کلام کی تاثیر اس کے نڈر دل میں اور بے لاگ زبان میں ہے۔ (۷) تنوعِ مضامین سر سیّد احمد خان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے مضامین میں حیرت انگیز تنوع پایا جاتا ہے۔ وہ موضوعِ مضمون کے ساتھ پورا انصاف کرتے ہیں اور مضمون کو اسی کی مناسبت سے قلم بند کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں ہر رنگ کا جلوہ حسبِ موقع موجود ہے۔ اگر ان کی ادبی تحریروں‘ علمی و تحقیقی مقالوں اور عدالتی فیصلوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو بہ اعتبارِ موضوع نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ (۸) تمثیلی اندازِ بیان سر سید احمد خان نے اپنے بیشتر مضامین میں تشبیہات و استعارات کا استعمال کیا ہے اور موضوع کو دلچسپ بنانے کے لئے تمثیل کا رنگ اپنایا ہے۔ ان کے یہ مضامین حکایتی اسلوب کی وجہ سے نہایت دلچسپ اور اثر انگیز ہیں۔ امید کی خوشی اور گزرا ہوا زمانہ میں سر سیّد کا یہ رنگ جھلکتا ہے۔ ان مضامین میں انہوں نے دلچسپ اور ثمثیلی انداز میں اپنا مافی الضمیربیان کیا ہے۔ (۹) بے ساختگی مصنف کی تحریروں میں ایک بے تکلفی اور بے ساختگی سی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنا مقصد اس طرح بیان کرتے ہیں گویا قاری ان کے سامنے بیٹھا ان سے ہمکلام ہو۔ ان کے مضامین ہر قسم کی بناوٹ سے پاک اور سچائی کے جذبے سے پُر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بات سیدھی دل میں اترتی ہے اور اثر رکھتی ہے۔ ناقدین کی آراہ مختلف تنقیدنگار سر سیّد کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں اور مختلف انداز میں سر سیّد کی تعریف بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ شبلی نغمانی سر سیّد کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔ سر سیّد نے اردو انشاءپردازی کو اس رتبے پر پہنچا دیا جس کے آگے اب ایک قدم بڑھنا بھی ممکن نہیں۔ بابائے اردو مولوی عبد الحق لکھتے ہیں۔ یہ سرسیّد ہی کا کارنامہ تھا جن کی بدولت ایک صدی کے قلیل عرصے میں اردو ادب کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔ ڈاکٹر احسن فاروقی کا بیان ہے کہ۔ اپنے عمل سے انہوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ نثر نگاروں کے بنیادی اصول کیا ہونے چاہیے ان کو اسی میں کمال حاصل ہے اور اسی کمال کی وجہ سے وہ اردو نثر نگاری کے سرتاج رہیں گے۔ حاصلِ تحریر سر سیّد احمد خان کی تحریروں میں اردو ادب کا ایک تاریخی موڑ ہے۔ انہوں نے سلیس اور سہل اندازِ بیان کو فروغ دے کر دامنِ اردو کو وسیع کیا۔ اردو نثر شاعرانہ ذوق‘ مشکل اور تشبیہات سے بھری ہوئی تھی۔ آپ نے اُسے سلاست‘ سادگی اوراستدلالیت میں تبدیل کیا اور اردو ادب کو فطری طرزِ تحریر سے مہکا دیا۔ آج سرسیّد ہی کی بدولت اردو ایک مشہور و معروف زبان ہے اور ہم فخر سے اردو کو اپنی قومی زبان تسلیم کرتے ہیں۔ حالی نے شاید ٹھیک ہی کہا تھا ترے احسان رہ رہ کر سدا یاد آئیں گے اُن کو کریں گے ذکر ہر مجلس میں اور دہرائینگے اُن کو ایک تعارف اردو ادب پر سحروطلسم کی گھٹائیں‘ مافوق الفطرت فضائیں‘ تضع و مبالغہ کی بلائیں چھائی ہوئی تھیں۔ ایسے میں ہم ایک ادیب کو دعائیںدیں‘ یہ ادیب ڈپٹی نذیر احمد ہیں جو سرسید احمد خان کی اصلاحی تحریک میں ان کے اہم رفیقِ کار تھے۔ انھوں نے اپنے قلم کی تمام تر توانیاں معاشرے کی اصلاح کے لئے وقف کردیں۔ اس مقصد کے لئے انھوںنے ناول نگاری کی صنف کو اپنا یا۔ پروفیسر آل آل احمدسرور کہتے ہیں: انگریزی میں رچرڈسن اور فیلڈنگ ناول کے موجد کہے جاتے ہیں ہمارے یہاں نذیر احمد کی کہانیاں کو ناول کا اولین نمونہ کہا جاسکتا ہے۔ بقول شاعر جو ضیاءدیتی ہے پنہاں لفظ کی تنویر میں وہ نظر آتی ہے مجھ کو اس کی ہر تحریر میں اس کے ہر ناول سے جلوہ گر ہے اصلاحی جمال اس نے دل کی نیکیاں بھر دی ہیں ہر تصویر میں طرزِ تحریر کی خصوصیات ڈپٹی نذیر احمد کے طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات ذیل میں درج ہیں۔ (۱) رواں اسلوب مولوی صاحب کا طرزِ تحریر سادہ اور رواں ہے۔ وہ دہلی کی ٹھےٹ اور ٹکسالی زبان میں لکھتے ہیں۔ محاورات کا استعمال بھی بڑی سلیقہ مندی سے کرتے ہیں۔ محاورات کے بر محل استعمال سے ان کی زبان میں تاثیر پیدا ہوگئی ہے ۔ بقول فرحت اللہ بیگ: ان کا یہ شوق کچھ حد سے بڑھا ہوا ہے کہ بعض اوقات وہ محاورات استعمال نہیں کرتے زبردستی ٹھونستے ہیں۔ (۲) ناول نویسی کے بانی نذیر احمد اردو کے پہلے ناول نگار ہیں ان کا ناول ”مراة العروس“ اردو کا اولین ناول ہے۔ کچھ لوگ ناول نگاری کا بانی پنڈت رتن ناتھ کو تصور کرتے ہے لیکن مراة العروس جو کہ نذیر احمد کا ناول ہے ۹۶۸۱ میں شائع ہوچکا تھا جبکہ رتن ناتھ کا ناول ”فسانہ آزاد“ ۹۷۸۱ میں شائع ہوا۔ ڈاکٹر ابوللیث صدیقی کہتے ہیں: نذیر احمد کو بلاشبہ جدید اردو ناول کا پیش رو قرار دینا چائیے۔ (۳) روایت شکنی نذیر احمد نے پہلی بار غیر فطری رنگ کو چھوڑ کر سادی اور حقیقی زندگی میں قدم رکھا۔ انہوںنے جنوں‘ بھوتوں‘ پریوں اور مافوق الفطرت کرداروں کے بجائے اپنے ناول کے کردار ہماری گرد و پیش کی زندگی سے منتخب کیے۔ اس طرح انہوں نے صدیوں پرانا بندھن توڑنے میں پہل کی جن کے پیچھے زندگی کی بےشمار حقیقتیں چھپی ہوئی تھےں اور جس کو ہمارے افسانوی ادب نے چھپارکھا تھا ان کا سب سے بڑا کمال بھی یہی ہے کہ انہوں نے کہانی میں اصلیت کا رنگ بھرا۔ ڈاکٹر ابو للیث صدیقی کہتے ہیں: قدیم قصے بادشاہوں‘ وزیروں‘ سوداگروں‘ شہزادوں یا پھر جنوں اور پریوں کے محور پر گھومتے تھے‘ عوام کو اس بارگاہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ تھی‘ نذیر کے ناولوں میں عوام اس بزم میں پہلی بار شریک ہوئے۔ (۴) مقصدیت نذیر احمد بھی اپنے دور کے دوسرے ادیبوں کی طرح مقصدیت کی پیداوار تھے۔ یہ ایک ایسا دور تھا جس میں ہر ادیب قوم کی اصلاح کی خاطر کام کرتا تھا گو کہ ہر ایک کا دائرہ عمل الگ الگ تھا۔ نذیر احمد نے بھی اپنے قصوں سے دین داری‘ خداپرستی اور اصلاحِ معاشرت کا کام لیا۔ ان کے ناول کسی نہ کسی مقصد کے تحت لکھے جاتے تھے وہ قصہ نویس سے زیادہ واعظ تھے۔ آل احمد سرور کہتے ہیں: نذیر احمد سب کچھ بھول سکتے ہیں لیکن وہ مقصد نہیں بھول سکتے جس کے تحت وہ قصے لکھتے تھے۔ ان کے ناول جتنے اچھے وعظ ہیں اتنے اچھے قصے نہیں۔ (۵) پرچوش اندازِ بیان نذیر احمد کا اندازِ بیان پرزور اور پرچوش ہے۔ ان کے کرداروں کی گفتگو بعض اوقات سراپا تقریر معلوم ہوتی ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ کہتے ہیں: نذیر احمد ہی اردو کے وہ انشاپرداز ہیں جن کی باتیں زوردار ہوتی ہےں۔ حالی کی آواز دھیمی‘ لحجہ مسکینوں جیسا۔ شبلی پکی مگر مختصر بات کہنے والے‘ آزاد میٹھی میٹھی‘ کبھی کبھی مختصر کہانیاں سنانے والے۔ ان میں نذیر احمد ہی وہ انشاپرداز ہیں جو پرزور انداز میں بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ (۶) مثالی کردار نگاری ان کے کردار زیادہ تر مثالی ہوتے جو اگر نیک ہیں تو فرشتے اور بد ہیں تو شیطان۔ اسطرح وہ ارتقائی مدارج سے دور رہتے تھے۔ پروفیسر منظور حسین شور کہتے ہیں: ان کے کردارمیکانکی طور پر عقل کے ایسے پتلے ہیں جو حسن و شباب اور محبت کے لطیف جذبات سے عاری ہیں۔ جن کے بغیر انسان فرشتہ ہو سکتا ہے لیکن انسان نہیں۔ (۷) معاشرے کی عکاسی سرسید احمد خان نے اصلاح کا جو کام شروع کیا تھا۔ نذیر احمد نے اپنی تحریروں سے اسے قوت بخشی۔ نذیر احمد کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے تمام قصوں میں ہماری معاشرتی زندگی کی سچی تصویر پیش کی ہے۔ انہوں نے قصوں سے مافوق الفطرت عناصر کی بھرمار کو خارج کرکے حقائق نگاری اور واقعیت کا رنگ بھر کر زندگی کی عکاسی کا ڈھنگ سکھایا۔ انھون نے طوطا مینا کی کہانیوں سے نکل کر اصلاح مواشرت اور اخلاق کے تانے بانے سے اپنے ناول مکمل کیے۔ وہ پہلے آدمی ہیں جنہوںنے ادب کو زندگی کے قریب کردیا۔ آل احمد سرور کہتے ہیں: ماحول کی مصوری ان کے یہاں بہت اچھے طرح کی گئی ہے۔ اسلامی سوسائٹی اور خاص کر اسلامی خاندانوں کی اندرونی معاشرت کی جو تصویریں نذیر احمد نے کھینچی ہیں وہ ایسی سچی اور بے لاگ ہے کہ آنکھوں کے سامنے نقشہ پھر جاتا ہے۔ (۸) شوخی و ظرافت نذیر احمد کی نثر کا ایک خاص جوہر ان ظریفانہ رنگ ہے۔ جو انکے ناولوں لیکچروں اور مضامین میں نمایاں ہے۔ وہ عمل زندگی میں بھی زیادہ خشک نہ تھے۔ نہایت زندہ دل اور ظریف آدمی تھے اور یہی ظرافت و زندہ دلی ان کی تحریروں میں پائی جاتی ہے انکی ظرافت اپنے نامور ہم عصر آزاد کی طرح شگفتگی کے دائرے سے آگے نہیں بڑھی۔ وہ تبسم تو بن جاتی ہے۔ مگر قہقہے سے گریز کرتی ہے البتہ وہ تقریروں میں طنز کے تیر چلانے سے نہیں چوکتے تھے۔ ڈاکٹر حسن فاروقی کہتے ہیں: انہوں نے اہم معاشرتی مسائل کو دلچسپ فرضی قصوں کے ذریعے اس طرح پیش کیا ۔ جیسے کڑوی دوا کو حلق سے اتارنے کے لئے اس پر شکر لپیٹ دی جاتی ہے۔ (۹) بے تکلفی ان کا تعلق بھی چونکہ دبستانِ سرسید سے تھا۔ چنانچہ ان کی تحریروں میں بے تکلفی اور بے ساختگی کا عنصر نمایاں ملتا ہے۔ یہ اپنے ناولوں میں اور اپنی تحریروں میں اپنے موضوع کو بے ساختگی کے ساتھ کرتے چلے جاتے ہیں اور کسی قسم کی بناوٹ‘ یا تکلف سے کام نہیں لیتے بلکہ اپنے موضوع کو انتہائی رواں انداز میں پیش کرتے ہیں اگرچہ کہ ان کے مضامین میںطوالت کے باوجود بھی بے تکلفی کا عنصر کثرت کے ساتھ جھلکتا ہے۔ حاصلِ تحریر یہ تھیں اردو کے پہلے ناول نگار مولوی نذیر احمد کی نمایاں خصوصیات۔ انکے ناولوں کو کوئی ناول نہیں مانتا نہ مانے۔ ان کو ناول نگار کہنے میں کسی کو حجاب سے تو ہواکرے مگر ناول نگاری کی تاریخ ان کو خراجِ تحسین پیش کیے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتی۔ بقول شاعر جو ضیاءدیتی ہے پنہاں لفظ کی تنویر میں وہ نظر آتی ہے مجھ کو اس کی ہر تحریر میں اس کے ہر ناول سے جلوہ گر ہے اصلاحی جمال اس نے دل کی نیکیاں بھر دی ہیں ہر تصویر میں ایک تعارف مولانا آزاد شاعر بھی ہیں مورخ بھی‘ نقاد بھی ہیں اور مضمون نگار بھی۔ لیکن جس چیز نے انہیں شہرت عام اور بقائے دوام بخشا ہے وہ ان کی طرزِ تحریر ہے۔ انہوں نے نثر میں شعری لوازمات کو سمودیا۔ ان کی خوبصورت تشبیہوں‘ لطیف استعارے‘ مقطع اور مسجع عبارت‘ رنگین اور موسیقیت سی لبریز جملے اور اس کے ساتھ ساتھ سادگی اور روانی وہ صفات ہیں جنہوں نے آزاد کو اردو ادب میں ایک بلند اور ممتاز مقام دلایا ہے۔ بقول رام بابو سکسینہ: آزاد کی نثر مینں بھاشا کی سادگی‘ انگریزی کی صاف گوئی اور فارسی کا حسن موجود ہے۔ آزاد کا شمار اگرچہ سرسید گروپ یعنی اردو کے ارکان خمسہ میں ہوتا ہے مگر ان کا اسلوب نگارش اپنے ہم عصر ادیبوں سے سراسر مختلف اور منفرد ہے ان کے سامنے قدیم اردو کا پر تکلف نمونہ بھی تھا اور غالب اور سرسید کی سادگی اور بے تکلفی کی نثر بھی تھی۔ مگربنی راہ پر چلنا انہوں نے اپنے لئے عار سمجھا اور دونوں راہوں کے سنگم سے ایک نئی راہ نکالی۔ چنانچہ ان کی تحریروں میں جہاں مقطع‘ مسجع اور رنگین عبارتیں نظر آتی ہیں وہاں سادہ اور سلیس ٹکڑوں کی بھی کمی نہیں۔بقول الطاف حسین حالی تاریخ اس کی جو پوچھے کوئی حالی کہدو کہ ہوا خاتمہ اردو کے ادب کا طرزِ تحریر کی خصوصیات آزاد کی طرزِ تحریر مندرجہ ذیل خصوصیات کا مجموعہ ہے۔ (۱) عبارت آرائی آزاد نے نثر میں شاعری کی ہے وہ اپنے دور کے سب سے بڑے مرصع کار ہیں۔ اس صفت میں کوئی دوسرا ان شریک نہیں وہ اپنی تحریر کو دلہن کی طرح تشبیہ‘ استعارہ اور خوبصورت الفاظ کے زیوروں سے سجاتے ہیں۔ زبان کی نزاکت‘ بیان کی لطافت‘ تشبیہ و استعارہ کی رنگینی جس قدر آزاد کی تحریروں میں قدم قدم پر ملتی ہے دوسرے نثرنگاروں کے یہاں ملنا مشکل ہے۔ وہ اس انداز سے چھوٹے چھوٹے چبھتے ہوئے فقرے تراشتے ہیں کہ ان کو آذر سخن کا لقب زیب دیتا ہے۔ ان کے مضامین اورنگ زیب کی فوجی تیاری اور سومناتھ کی فتح ان کی مرصع کاری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ رام بابو سکسینہ: آزاد نثر میں شاعری کرتے ہیں۔ (۲) تخیل کا رنگ آزاد کے اسلوب نگارش میں شاعرانہ تخیل اور شاعرانہ انداز کی چمک دمک قدم قدم پر نمایاں ہے۔ وہ اپنی تاریکی اور علمی کتابوں میں پڑھنے والوں کو اس طرح عالمِ تخیل کی سیر کراتے ہیں کہ پڑھنے والا اس رنگین فضا میں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ سدا اسی رنگین فضا میں مصروف گل گشت رہے۔ وہ تھکن یا اکتاہٹ کا نام نہیں لیتا۔ ان کی تحریر چاہے وہ تاریخی ہو یا علمی پڑھ کر ذہن پر ایک خوشی اور نشاط کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ بقول حالی: آزاد کی نیرنگِ خیال تمثیل نگاری کا نمونہ ہے۔ اس دور میں ہی نہیں بلکہ آنے والے دور میں بھی اس کی تقلید کی جائے گی۔ (۳) تمثیل نگاری اور مکالمہ آزاد کی ایک خوبی تمثیل نگاری اور مکالمہ بھی ہے۔ اپنی تحریروں میں وہ کسی حالت یا چیز کو ذی روح شخص قرار دے کر اس کی صفات و حرکات پیش کرتے ہیں۔ دربارِ اکبری اورآبِ حیات وغیرہ میں تو تمثیلی ٹکڑے کہیں کہیں ملتے ہیں لیکن ان کی تصنیف نیرنگِ خیال پورے طور پر اسی تمثیلی رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ دربار اکبری میں لکھتے ہیں: غفلت نے جب آنکھ کھولی اور ہمت نے اپنے قدم پیچھے ہٹالیے تو حوصلہ مندی نے جمائی لی۔ تمثیل نگاری کی ایک اہم کڑی مکالمہ ہے کبھی تو بے جان چیزیں مجسم ہو کر باتیں شروع کردیتی ہیں اور کہیں وہ خود راوی بن کر فطرت سے محو تکلم نظر آتے ہیں۔ اس تمثیل نگاری اور مکالمے کی وجہ سے اس کی تحریروں میںڈرامائی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جو قاری کے لئے دلچسپی کا باعث بن جاتی ہے۔بقول ڈاکٹر محی الدین : آزاد خوش گوئی کیلئے پیدا ہوئے تھے۔ اور خوش گوئی ان کی تحریروں میں قوس و قزح کے سے رنگ بکھیر دیتی ہے۔ ان کی تحریروں میں آبشاروں کاسا ترنم‘ کہساروں کا سا تکلم‘ چاندنی رات کا رنگین تبسم نظر آتا ہے۔ کہیں ہوا کا فراٹا ہے تو کہیں فضا کا سناٹا‘ کہیں غنچوں کی چٹک ہے اور کہیں پھولوں کی مہک‘ کہیں ستاروں کی چمک تو کہیں بجلی کی کڑک‘ کہیں چاند کی تابانی تو کہیں سورج کی درخشانی‘ کہیںرقصِ طاوس ہے تو کہیں صبح کا نکھار اور کہیں شام کا سلونا پن۔ غرضیکہ یہ جذبات کی وہ چاندنی ہے جو ان کی تحریروں میں آنکھ مچولی کھیلتی نظر آتی ہے۔ (۴) فن برائے فن آزاد فن برائے فن کے قائل ہیں۔ سرسید کی مقصدیت سے انہیں کوئی لگاﺅ نہیں۔ قاری کے دل و دماغ کی تسخیر ان کا مطمع نظر ہے اور وہ اس میں کامیاب ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ وہی آزاد ہیں جو جدید اردو شاعری کے بانی ہیں ۔ موضوعاتی نظمیں لکھتے ہیں مگر نثرنگاری میں بالکل رنگ بدل لیتے ہیں۔ الفاظ کے طوطا مینا اڑاتے ہیں اور ہر بات کو تشبیہ اور استعارے کے پردے میں کہتے ہیںاور اسی کو فن گردانتے ہیں۔ بقول پروفیسرمحمد حسین عسکری: آزاد اپنے معاصرین میں ایک ایسے بزرگ ہیں جو ایک حقیقی ادیب تھے ان کی معاصرین ادب کو کسی خاص مقصد کے لئے استعمال کرتے تھے اور ان کی ادیبانہ حیثیت قانونی تھی۔ آزاد کے ہاں شوکت الفاظ‘ خوشنما تراکیب کا حسن و جمال‘ قافیہ کا امتزاج‘ تشبیہات و استعارات کا دلکش انتخاب اور تخےل کی عجوبہ کاریاں اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ کرتی ہیں کہ آزاد فن کو ہر چیز پر فوقیت دیتے تھے۔ (۵) حکایتی اسلوب آزاد کے اسلوب کے سلسلے میں ایک قابل ذکر چیز ان کی حکایات ہیں وہ کسی بیان کو مﺅثر اور واضح بنانے کے لئے حکایت کا سہارا لیتے ہیں ۔ حکایت اس چھوٹی کہانی کو کہتے ہیں جس میں حکمت و دانش کی بات کرداروں کے عمل اور زبان سے ظاہر کی جئے۔ اس میں مختصر سا پلاٹ بھی ہوتا ہے جو صرف اشاروں کا درجہ رکھتا ہے۔ اختصار حکایت کا سب سے بڑا وصف ہے جب قصہ حکایت سے بھی مختصر ہوتو اسے نکتہ یا لطیفہ کا نام دیا جاتا ہے اور آزاد اس حکایت اور لطیفہ کے بادشاہ ہیں۔ موضوع تاریخ جیسا خشک ہی کیوں نہ ہو آزاد حکایت اور لطیفہ کے زور سے اسے دلچسپ بنادیتے ہیں۔ دربار اکبری اس کی ایک روشن مثال ہے۔ (۶) طنزو ظرافت آزاد کی تحریروں میں طنزیہ اور مزاحیہ عنصر بھی نمایاں ہے ۔ مگر آزاد ان طنز نگاروں میں سے ہیں جن کی تحریروں میں طنز کسی کو مجروح کرنے کا ذریعہ نہیں بنتا۔ وہ طنز ملیح کے مالک تھے۔ ان کی طنز سے وہ شخص بھی مزہ لیتا ہے جس پر طنز کیا گیا ہو۔ دراصل ان کی طنز کو ان کی شائستگی اور تہذیب نے زہر ناک ہونے سے بچالیا ہے۔ وہ پرانی شرافت و تہذیب کا مجسمہ تھے وہ پرانی وضعداری کے پرستار تھے اور ان چےزوں کا عکس ان کی تحریروں میں بھی نمایاں ہے۔ (۷) مرقع نگاری مرقع نگاری ایک وقت میں کسی شخص یا چےز کی پوری زندگی کی تصویر ہوتی ہے۔ یہ بڑا جامع فن ہے جس میں تمام ماحول اور فضا کو ایک تصویر میں پیش کرنا ہوتا ہے۔ ان کی کتاب’آبِ حیات ہو یا دربار اکبری ‘ قصص ہند ہویا نیرنگِ خیال‘ ہر ایک میں مرقع نگاری کے عمدہ نمونے ملتے ہیں۔ اپنی تصنیف نیرنگِ خیال کے ایک مضمون شہرتِ عام اور بقائے دوام کا دربار کے ایک اقتباس میں سودا کے بارے میں لکھتے ہیں: ان میں ایک شخص دیکھا کہ جب بات کرتاتھا تو اس کے منہ سے رنگارنگ پھول جھڑتے تھے۔ لوگ ساتھ ساتھ دامن پھیلاتے تھے مگر بعض پھولوں میں کانٹے ایسے ہوتے تھے کہ لوگوں کے کپڑے پھٹے جاتے تھے۔ (۸) ایجاز و اختصار آزاد ایجاز و اختصار کے قائل ہیں۔ وہ مختصر سے مختصر لفظوں اور فقروں میں بڑی سے بڑی بات کہنے پر قادر ہیں۔ آبِ حیات میں مختلف شاعروں کے کلام پر کئے گئے تبصرے ان کی تحریر کا نمایاں عکس اور ایجاز اختصار کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ انہوں نے چند لفظوں اور چند جملوں میں جو بات کہہ دی ہے اس کی تائید یا تردید میں نقادوں کو صفحوں کے صفحے سیاہ کرنا پڑے۔ (۹) مبالغہ آرائی حکایت و لطیفہ سے دلچسپی اور تخیل سے وابستگی نے ان کے قلم کو مبالغہ آرائی کا راستہ دکھایا۔ انہوں نے تاریخ نویسی کرتے وقت بھی مبالغہ آرائی کی اور تنقید کرتے وقت بھی۔ نتیجتاً ا ن کی تحریریں ساقط العتبار ہو کر رہ گئیں۔ انہوں نے آبِ حیات میں ہی نہیں دربارِ اکبری میں بھی تخیل کے زور سے ایسی ایسی گلکاریاں کی ہیں کہ بایدو شاید اسی بناءپر وہ ثقہ نقادوں میں ”مردِ تحقیق“ تسلیم نہیں کیے جاتے۔ ُعلامہ شبلی نعمانی کہتے ہیں: آزاد اردو معلی کا ہیرو ہے۔ وہ تحقیق کا مردِ میدان نہیں مگر دو چار گپیں بھی ہانک دیتا ہے تو وحی معلوم ہوتی ہیں۔ (۰۱) لب و لہجہ آزاد کے لہجے میں جذباتی اپیل پائی جاتی ہے۔ وہ رعایتِ لفظی‘ روزمرہ اور محاورے‘ ادبی چٹکلوں اور لطیفوں سے اپنی تحریروں میں شگفتگی اور شوخی اور توانائی پیدا کرتے ہے اور اپنے شگفتہ لہجہ سے قاری کے دل کو مسحور کرلیتے ہیں۔ان کی تحریر اتنی آسان بھی نہیں جتنی سرسید اور حالی کی اور اتنی مشکل بھی نہیں جتنی جتنی سرور کی۔ بقول شاعر بخشا ہے اس نے نثر میں اک کیفِ نغمگی رقصاں ہے لفظ لفظ میں اک موجِ زندگی (۱۱) مختصر جملے آزاد اپنی تحریروں میں سبک روی اور لطافت پیدا کرنے کے لئے ہلکے پھلکے اور مختصراور خوبصورت جملوں کا سہارا لیتے ہیں۔ ان کی تحریروں میںاگرچہ پھیلاﺅ ہوتا ہے مگر وہ چھوٹے چھوٹے حسین جملے استعمال کرکے قاری کو ذہنی تھکن سے بچالیتے ہیں۔ بقول علامہ شبلی نعمانی: الفاظ کا انتخاب‘ لفظوں کی شیرینی‘ محاورات کی صحت‘ اور جابجاتشبیہات اور استعاروں کی گلکاری عبارت میں وہ حسن پیدا کردیتی ہے کہ پڑھتے چلے جائیں اور سیری نہیں ہوتی۔ (۲۱) بیانیہ نثر مولانا آزاد بیانیہ نثر لکھتے ہیں۔ ان کے بیان میں حکایت کا دلچسپ انداز ہوتا ہے۔ وہ اپنے جادو بھرے اسلوب سے ذہنی طور پر قاری کے بہت قریب ہوجاتے ہےں۔ ان کا یہ بیانیہ انداز اس قدر لطیف‘ رنگین‘ مﺅثر اور رواں ہے کہ قاری ایک ایک لفظ پر چٹخارے لیتا ہے۔” آبِ حیات“ ان کی بیانیہ نثر کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ حرفِ آخر مولانا محمد حسین آزاد اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ نظمِ آزاد اس کا ثبوت ہے۔ وہ نقاد تھے۔سخندانِ فارس اور آبِ حیات اس بات کے شاہد ہیں۔ وہ تاریخ نویس تھے۔ قصص ہند اور دربارِ اکبری اس کے گواہ ہیں۔ انہیں کوئی شاعر‘ نقاد‘ تاریخ نویس نہ بھی مانے تو بھی ان کی ابدی اور لازوال شہرت اور حےثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ اردو زبان کے متوالوں کے نزدیک وہ صاحب طرز انشاءپرداز تھے۔ بقول مہدی افادی: سرسید سے معقولات الگ کرلیجئے تو کچھ نہیں رہتے۔ نذیر بغیر مذہب کے لقمہ نہیں توڑتے۔ شبلی سے تاریخ لے لیجئے تو قریب قریب کورے رہ جائیں گے۔ حالی بھی جہاں تک نثر کا تعلق ہے سوانح نگاری کے ساتھ چل سکتے ہیں لیکن آقائے اردو مولانا محمد حسین آزاد صرف ایک ایسے انشا پرداز ہیں جن کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں۔ ایک تعارف مولانا الطاف حسین حالی کو اردو ادب میں بے حد اہمیت حاصل ہے۔ اس کی پہلی وجہ آپ کی اردو نثر اور اردو نظم دونوں میں یکساں شہرت و مقبولیت ہے اور دوسری خاص وجہ یہ ہے کہ حالی دورِ جدید اور دور متوسطین کے درمیان ایک مضبوط کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غالب‘ شیفتہ اور مومن جیسے بلند پایہ شاعروں سے جتنی بھی قربت آپ کو حاصل تھی اس نے آپ کی فنکارانہ صلاحیتوں کو بہت زیادہ جلا بخشی۔ حالی نے دور جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے میں دورِ قدیم کی خوبیوں کو نظرانداز نہیں کیا۔ حالی کے زمانے میں غیر ملکی اقتدار نے اپنی گرفت مضبوط کرلی تھی۔ معاشرہ انحطاط کا شکار تھا اور کسی بھی راہ کے تعین کرنے کا قطعی فیصلہ مشکل تھا۔ ایسے دور میں پروان چڑھنے والے حالی دنیائے ادب میں اس طرح روشن ہوئے کہ ان اصلاحی کارنامے آئندہ نسلوں کے لئے مشعلِ راہ بنے۔بقول شاعر فکر کو سچائی کا نغمہ دیا شاعری کو اک نیا لہجہ دیا گرم ہے جس سے لہو افکار کا عشق کو حالی نے وہ شعلہ دیا حالی کی نثرنگاری کی خصوصیات حالی کی نثرنگاری کی اہم خصوصیات درج ذیل ہیں۔ (۱) تنقید نگاری اردو میں حالی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے فنِ تنقید کو صحےح طور پر اپنایا۔ مقدمہ حالی کی نہایت اہم اور لازوال تصنیف ہے۔ اس سے اردو ادب میں باضابطہ تنقید کا آغاز ہوتا ہے۔ اردو تنقید کی دنیا میں مقدمے کو تنقید کا پہلا صحیفہ کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر شوکت حسین سبزواری کہتے ہیں: ہماری شاعری دل والوں کی دنیا تھی۔ حالی نے مقدمہ لکھ کر اسے ذہن دیا۔ بیسویں صدی کی تنقید اسی کے سہارے چل رہی ہے۔ (۲) سواغ نگاری اردو میں جدید طرز کی سواغ عمری کے بانی حالی ہیں۔ ان کی تمام سواغ عمریاں ایک خاص نقطئہ نظر کے تحت لکھی گئی ہیں۔ وہ افادیت کا ایک مخصوص تصوررکھتے ہیں۔ شیخ سعدی کی سواغ حیاتِ سعدی لکھ کر قوم کو انہوں نے ایک شاعر‘ علم اور معلمِ اخلاق سے روشناس کریا۔ اس کتاب کے بارے میں شبلی جیسے کٹر نقاد کو بھی معاصرانہ چشمک کے باوجود بے ساختہ داد دینی پڑی۔ان کی تصنیف کردہ سواغ عمریوں میں حیاتِ جاوید بھی ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ یہ ایک مفصل اور جامع کتاب ہے ۔ علامہ شبلی نعمانی کہتے ہیں: یہ ایک دلچسپ‘ محفقانہ اور بے مثل سواغِ عمری ہے۔ ڈاکٹر مولوی عبد الحق کہتے ہیں: ہماری زبان میں یہ اعلی اور مکمل نمونہ سواغِ عمری کا ہے۔ (۳) مدعا نگاری حالی کی غرض اپنے مضمون کو ادا کرنے اور مطلب کو وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے ان کی تحریروں میں مبالغہ آرائی کا رنگ نہیں ہوتا ہے۔ انہوں نے جس مضمون پر قلم اٹھایا ہے اس کے مطالب کو کم سے کم رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وہ بڑے سچے اور دیانت دار مدعا نگار تھے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں: حالی کو اپنے زمانے کا سب سے بڑا مدعا نگار کہا جاسکتا ہے۔ (۴) سرسید کا اثر حالی کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ ان کے خیالات سرسید کی آواز یا بازگشت ہیں اور اس نسبت سے ان کا اسلوب بھی سرسید سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ بلاشبہ حالی کے اسلوب مےں سرسید کی بعض باتیں ملتی ہیں۔ جیسے سادگی‘ منطق اور اظہار بیان میں بے تکلفی۔ لیکن ان کی نثر میں سرسید کے مقابلے میں جہاں تنوع کم ہے وہاں سادگی زیادہ ہے۔ آل احمد سرور کہتے ہیں: حالی کے یہاں سرسید سے بھی زیادہ جچے تلے انداز میں فطرت پرستی نظر آتی ہے۔ (۵) مقصدیت حالی کی تمام نثری کاوشوں میں مقصدیت کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔ ان کی مقالہ نگاری کی ابتدا‘ ان کا پہلا مقالہ سرسید احمد خان اور ان کا کام سے ہوئی جس میں انہوں نے خاتم پر لکھا ہے کہ: میں نے جو کچھ لکھا اس سے مجھے سرسید احمد خان کو خوش کرنا منظور نہیں۔ نہ ان کے مخالفین سے بحث مقصود ہے بلکہ اس کا منشاءوہ ضرورت اور مصلحت ہے جس کے سبب سے بھولے کو راہ بتائی جاتی ہے اور مریض کو دوائے تلخ کی ترغیب دی جاتی ہے۔ (۶) خلوص و سچائی حالی کی تحریر میں اثر و تاثیر کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے خیالات میں خلوص و سچائی ہے یعنی دل سے بات نکلتی ہے اور دل پر اثر کرتی ہے ان کا یہ شعر ان کی نثر پر بھی پورا اترتا ہے۔ جس میں حالی کہہ رہے ہیں کہ اے شعر دلفریب نہ ہو تو تو غم نہیں پر تجھ پہ صیف ہے جو نہ ہو دل گدازت (۷) انگیریزی الفاظ کا استعمال سرسید اور ان کے رفقاءنے شعوری طور پر اپنی تحریروں میں انگیریزی الفاظ کو استعمال کیا۔ حالی کے یہاں بھی انگریزی کے الفاظ کا استعمال نظر اتا ہے۔ چند فقرے ملاحظہ فرمائیں: جس کے لٹریچر کی عمر پچاس برس سے زائد نہیں جس کی گرائمر آج تک اطمینان کے قابل نہیں ہوئی۔ (۸) مقالہ نگاری اردو میں مقالہ نگاری کی ابتداءسرسید کے رسالے تہذیب الاخلاق سے ہوئی اور اسی کی بدولت حالی کے جوہر بھی دیکھنے کو ملے۔ حالی کے مقالات کو بہ لحاظِ موضوع کئی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس کا پہلا اور بنیادی مقصد سرسید اور ان کے مقاصد کی تبلیغ اور جدید نظریہ کی ترجمانی ہے جس مین مسلمانوں کے سیاسی‘ سماجی ‘ صنعتی اور تعلیمی شعور کو بیدار کرنا اور نئی تعلیم کو فروغ دینا شامل ہے۔ جب کہ ان مقالات کا دوسرا حصہ تبصروں‘ خطابات ‘ کانفرنسوں اور جلسوں کے لیکچروں پر مشتمل ہے۔ (۹) منتوع موضوعات حالی کی شخصےت کی طرح ان کے موضوعات میں بھی بہت تنوع ہے۔ وہ اپنے اسلوب کو اپنی تصنیفی ضروریات کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ وہ پہلے مصنف ہیں جنہوں نے ادبی‘ سائنسی‘ تنقیدی و متانت اور روانی سے لکھے چلے جاتے ہیں۔ لیکن قدیم مزاجوں کو حالی کا یہ انداز روکھا اور پھیکا نظر آتا ہے اور وہ ان کی تحریروں کو غیر معیاری قرار دیتے تھے لیکن یہی انداز و اسلوب تو حالی کا سرمایہ ہے۔ معروف تنقید نگاروں کی آراہ حالی اردو کے ایک عظیم نثرنگار‘ نقاد“ اور سواغ نگارہیں۔ بقول مولوی عبدالحق: نثر حالی میں تین کتابوں یعنی یادگارِ غالب‘ مقدمہ شعروشاعری اور حیات جاوید کو درجہ کمال حاصل ہوچکا ہے یعنی یہ وہ کتابیں ہیں جو اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گی اور ہمیشہ زوق و شوق سے پڑھی جائیں گی۔ پروفیسر احتشام حسین حالی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوتے رقم طراز ہیں: حالی نے قدیم ادبی سرمائے کو پرکھنے اور اس میں اچھے کو برے سے الگ کرلینے کے راز بتائے۔ انہوں نے روایتوں کا احترام کرنا سکھایا۔ عبادت بریلوی لکھتے ہیں: حالی بڑے نقاد تھے انہیں اردو کا سب سے بڑا نقاد بھی کہاجاتاہے۔ کیونکہ انہوں نے اس فن کی طرف اس وقت توجہ دی جب کسی کو اس کا علم ہی نہیں تھا۔ لوگ اس سے ناواقف اور نا آشناتھے۔ حالی نے تنقید کی طرف توجہ کرکے اردو ادب میں تنقیدی شعور کی شمع روشن کی اور اس شمع کو ہاتھ میں لے کر آگے بڑھے اور اس کی روشنی میں ان گنت منزلیں طے کیں ۔ حالی کی تنقید نہ ہوتی تو اردو ادب کا ان منزلوں سے ہمکنار ہونا تو درکنار ہونا تو دور کی بات‘ ان کا تصور بھی ناممکن تھا۔ ایک تعارف ابنِ انشاءشاعر بھی ہیں‘ ادیب بھی۔ انہوں نے غزلیں‘ نظمیں اور گیت لکھے۔ شاعری میں ان کا ایک مخصوص انداز ہے۔ وہ کبھی کبیرداس کا لہجہ اختیار کرتے ہیں اور انسان دوستی کا پرچار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ایک انسان کو دوسرے انسان سے محبت کا سبق دیتے ہیں۔ کہیں اپنے اشعار میں زندگی کی اداسیوں ‘ محرومیوں اور دکھوں کا میرتقی میر کی طرح اظہار کرتے ہیں اور کہیں نظیر اکبر آبادی کی طرح علاقائی اور عوامی انداز اختیار کرتی ہیں اور بڑی سادگی‘ روانی اور عوامی زبان میں عوام کے احساس کو اردو ادب کا جامہ پہناتے ہیں۔ نثر کے میدان میں انہوں نے طنز نگاری کا انداز اختیار کیا۔ طنز میں مزاح کی آمیزش نے ان کی تحریروں کو زیادہ پر اثر بنایا دیا۔ عوام سے قریب ہونے کے لئے انہوں نے اخبارات میں کالم نویسی کا آغاز کیا‘ سفرنامے لکھے‘ اس طرح اپنے مشاہدات اور تجربات کو طنز و مزاح کے پیرائے میں بیان کرکے شہرت حاصل کی۔ اردو ادب کی ان مختلف اصناف میں ابنِ انشاءنے بڑا نام کمایا۔ طبیعت کی جولانی اور شگفتگی‘ مزاج کی حس لطافت و ظرافت اور طنز کی تراش و خراش‘ غرضیکہ سب ہی کچھ ان کی تحریروں سے نمایاں ہے۔ تصانیف شعری کلام
نثری تصانیف
طرزِ تحریر کی خصوصیات ابنِ انشاءکے طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات ذیل میں درج ہیں۔ (۱) تسلسلِ مشاہدہ سفرنامہ چونکہ چشم دیدواقعات پر مشتمل ہوتا ہے اس لئے اس میں شروع سے آخر تک تسلسل کا ہونا ضروری ہے ۔ ابنِ انشاءکے سفرناموں میں یہ خوبی نظر آتی ہے کہ وہ اپنے مشاہدات کو باہم گڈمڈ نہیں کرتے وہ بڑے سلیقے سے مختلف وقعات کو ایک کڑی میں پروتے ہیں۔ ہر مشاہدہ کو علیحدہ علیحدہ بیان کرتے ہیں ۔ وہ تسلسل کے ساتھ ایک منظر کے بعد دوسرامنظر سامنے لاتے ہیں۔ اس طرح ان کا سفرنامہ مشاہدات اور تجربات کا ایک رنگین دفتر بن جاتا ہے۔ وہ تیکھے طنز اور شائستہ مسکراہٹوں سے اپنی تحریر کو اور زیادہ پر اثر بنادیتے ہیں۔ (۲) طنز و مزاح کی آمیزش ابنِ انشاءاپنی تحریروں میں طنز و مزاح کو بڑے دلکش پیرائے میں استعمال کرنے کا فن جانتے ہیں اس لئے ان کے سفرناموں میں طنزومزاح کی آمیزش سے دلچسپی اور شگفتگی پیدا ہو گئی ہے۔ وہ جملوں اور فقروں میں طنز کی کیفیت شامل کرکے واقعات کے تانے بانے کو اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ قاری کا انہماک بڑھتا چلا جاتا ہے اور پھر مزاح کی باتیں مان کر اور پر لطف اور دلکش بنا دیتی ہے۔ (۳) مشاہدات میں قاری کی شمولیت یوں تو سفرنامہ ذاتی مشاہدات اور تجربات کو تحریر کرنے کا نام ہے لیکن سفرنامہ کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ لکھنے والا اپنے مشاہدات کو اس طرح پیش کرے کہ قاری کی نگاہوں کے سامنے بھی وہ مناظر آجائیں اور وہ بھی خود کو ہمسفر محسوس کرے۔ انشاءکے سفرناموں میں خصوصیت موجود ہے۔ پہلے جو سفرنامے لکھے گئے ان میں مشاہدات و تجربات کے برعکس واقعات کا بیان ہواکرتے تھا لیکن انشاءکے سفر ناموں میں ان کے مشاہدے اس کے اثرات اور تجربات کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔ وہ آنکھ بند کرکے سفر نہیں کرتے بلکہ کھلی آنکھوں سے جذبات و احساسات کو بیدار کرکے چیزوں کو دیکھتے اور ان کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قاری پوری سفر میں ان کا ہمسفر ہوتا ہے اور جو کچھ وہ محسوس کرتے ہیں وہی قاری بھی محسوس کرتا ہے۔ (۴) منظر کشی سفرنامے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ واقعات کے بیان کے ساتھ ماحول کی منظرکشی بھی کی جائے جو کچھ دیکھاجائے۔ کیونکہ کائنات میں ہر طرف فطرت کے مناظر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کاپر اثر بیان دل و دماغ کو متاثر کرتا ہے۔ وہ مناظر کی اس طرح تصویر کشی کرتے ہیں کہ کوئی بات رہ نہیں جاتی اور جس منظر سے کوئی خاص تاثر پیدا کرنا ہوتا ہے تو وہ اپنے مخصوص انداز اور تخیل کی رنگ آمیزی سی اسے اور بھی پر اثر اور نمایاں کرکے پیش کرتے ہیں اور قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے گویا وہ بھی اس منظر کو دیکھ رہا ہے یا خود وہاں موجود ہے۔ (۵) طنز و مزاح میں متانت ابنِ انشاءچونکہ اپنی تحریروں کو طنز و مزاح سے پر اثر بنانے کے عادی ہیں۔ اس لئے ان کی ہر تحریر میں ان کا یہ رنگ جھلکتا ہے۔ ان کے سفرنامے ان کے اس اندازِ تحریر کی واضح مثالیں ہیں۔ طنز و مزاح بڑے شعور اور سلیقے کا کام ہے ورنہ تحریر میں پھکڑ پن پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ متانت اور سنجیدگی کے ساتھ طنز و مزاح کے میدان میں قدم رکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اس میں بڑے شعور اور سلیقے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے ایک طرف لوگوں کو ان کی خامیوں اور کمزوریوں کو دکھانا مقصود ہوتا ہے تو دوسری طرف لوگوں کے شعور کو بیدار کرنا ہوتا ہے جس میں تضحیک نہیں اصلاح کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک کامیاب مزاح نگار کا کام یہی ہے کہ وہ ہنسی ہنسی میں طنز کے ہلکے نشتر سے زخموں کو کریدے اور اس طرح اپنا مافی اضمیر بیان کردے کہ بات بھی بری نہ لگے اور دل پر بھی اثر کرجائے۔ ابنِ انشاءکے یہاں طنز و مزاح کی یہی خوبی پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ ان کے مزاج کی شگفتگی اور لہجے کی متانت کے سبب اس کے یہاںمزاح کی کیفیت زیرِ لب تبسم تک رہتی ہے قہقہوں میں تبدیل نہیں ہوتی۔ یہی صورت طنز کی ہے۔ وہ فقروں اور جملوں کو کچھ اس طرح ترتیب دیتے ہےں کہ ان میں چھپے ہوئے طنز کو معلوم کرکے قاری اول اپنے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں لطافت اور شگفتگی محسوس کرتا ہے لیکن بعد میں اس کی کاٹ کا احساس کرکے تڑپ اٹھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہنا چاہئے وہ نہایت متانت اورسنجیدگی کے ساتھ طنز و مزاح کی فضا قائم کرکے اپنے مقصد تحریر کو نمایاں کرتے ہیں اور اسی ہنر مندی نے انہیں بطور ایک کامیاب طنز و مزاح نگار پیش کیا ہے۔ (۶) زبان و بیان ابنِ انشاءکی زبان سادہ اور عام فہم ہے وہ نہایت سادہ انداز میں اپنی بات بیان کردیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پیشِ نظر عام قاری ہے جو ان کی تحریروں کو پڑھے گا۔ اس لئے وہ اس بات کا بطور خاص خیال رکھتے ہیں کہ بات سادہ اور پر اثر انداز میں کہی جائے۔ ان کی منفرد تحریر خود منہ سے بولتی ہے کہ اس کے خالق ابنِ انشاءہیں۔ اپنے اسی اسلوبِ نگارش کی وجہ سے انہوں نے موجودہ دور کے ادب میں اپنے لئے ایک باوقار مقام بنایا ہے۔ بحیثیت مجموعی ان کی تحریروں میں طنز و مزاح بھی ہے۔ لطف و اثر بھی‘ شگفتگی بھی ہے۔ دلکشی بھی‘ جذبات و احساسات بھی ہیں تو معاشرت و ثقافت پر اظہار ِ خیال بھی۔ یہی سب چیزیں ہیں جو انہیں ایک منفرد منفرد نثرنگار اور شاعر کی حیثیت سے ادبی دنیا میں پیش کرتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی شاعری اور مضامین آج بھی عوام اور خواص میں مقبول ہیں۔ ایک تعارف اردو کے ارکانِ خمسہ میں سے مولانا شبلی وہ منفرد مصنف ہیں جنہیں جامع العلوم کا لقب دیا جاسکتا ہے۔ وہ موضوعات کے تنوع کے بناءپر ”جامع الصفات اور جامع الجہات“ کہلانے کے مستحق ہیں۔ ادب کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس میں انہوں نے اپنے سکہ نہ منوایا ہو ”تاریخ ِادب اردو“ کے مصنف رام با بو سکسینہ نے سچ کہا ہے کہ: اگر کوئی شخص ایک شاعر‘ فلسفی‘ مورخ‘ ناقد‘ ماہر تعلیم‘ معلم‘ واعظ ریفارمر‘ جریدہ نگار‘ فقیہہ‘ محدث سب کچھ ہوسکتا ہے تو وہ شبلی ہی کی ذات تھی۔ سرسید گروپ میں شبلی ہی وہ منفرد شخص ہیں جو انگریزی یا انگریزی ادب سے کماحقہ واقفیت کے باوجود معذرتی لہجہ اختیار نہیں کرتے۔ ان کی نظر اسلام کی عظمت رفتہ پر پڑتی ہے وہ تمام علوم کو مسلمانوں کی میراث سمجھتے تھے۔ اسلام‘ بانی اسلام یا مشاہیرِ اسلام پر کسی جانب سے اعتراض کئے جاتے تو پھر شبلی کا اسلوب اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ دنیا کے کسی حصے میں مسلمانوں پر کوئی افتاد پڑی‘ شبلی کا قلم جولانیاں دکھانے لگا۔ معرکہ کانپور ہو یا جنگ طرابلس و بلقان وہ نظم میں‘ نثر میں انگریز کو لتاڑنے سے باز نہیں رہتے۔ ان کی نظموں میں ہی نہیں نثر میں خطابیہ انداز ہے۔ سرسید گروپ کے ایک نامور رکن ہونے کے باوجود ان کا اسلوب اس سب سے مختلف ہے۔ ان کی نثر میں آزاد کی طرح الفاظ کے طوطا مینا اڑانے کا رنگ نہیں جھلکتا۔ البتہ آزاد کا زورِ بیان اور قدرت کلام موجود ہے۔ شبلی کو بھی محاورہ بندی کا شوق ہے امگر ان کی عبارت محاوروں کی کثرت کی بناءپر نذیر احمد کی تحریر کی طرح انگشت نمائی کا موقع نہیں دیتی۔ ان کی تحریروں میں بھی حالی اور سرسید کی تحریروں کی طرح سادگی اور سنجیدگی موجود ہے۔ مگر یہ عالمانہ سادگی اور سنجیدگی ہے جس سے خاص و عام مرعوب ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ان عالمانہ سنجیدگی کے باوجود شبلی کی تحریروں میں شاعرانہ لطافت اور حسن خیال کا ایک اچھا امتزاج بھی ملتا ہے۔ کسی نے سچ کہا تھا کہ: شبلی شاعرانہ دل اور فلسفیانہ دماغ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ تصانیف ان کی تصانیف میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘ الماعون‘ الغزالی‘ الفاروق اور موازنہ انیس و دبیر۔ اس کی علاوہ فارسی اور اردو کلام کے مجموعے‘ مضامین اور مقالات کی کئی جلدیں اور دو ایک عربی تصانیف بھی ان کی یادگار ہیں۔ طرزِ تحریر کی خصوصیات شبلی کے طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات ذیل میں درج ہیں۔ (۱) قوت اور جوش بیان شبلی کی تحریر کی سب سے نمایاں صفت قوت اور جوشِ بیان ہے جو ان کے احساس عظمت اور احساس کمال کی پیداوار ہے۔ وہ اپنے قاری کو ایک بلند سطح سے مخاطب کرتے ہیں۔ ان کے طریقئہ خطاب میں خود اعتمادی اور برتری کا احساس ہر جگہ نمایاں ہے۔ وہ علمی اور نسلی تفاخر کی بناءپر قاری کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں۔ انہیں ذمانہ کی جہالت کا پورا پورا احساس ہے۔ وہ موقع کے لحاظ سے کسی جگہ خطیب بن کر‘ کہیں مدرس بن کر‘ کہیں واعظ بن کر اور کہیں فلسفی بن کر قاری سے مخاطب ہوتے ہیں ۔ ان کی تحریر پڑھ کر قاری کی طبیعت میں ایک جوش اور ہیجان پیدا ہوجاتا ہے۔ ان کا اسلوب ان کے موضوع کا تابع ہے۔ ان کی تحریروں میں جوش اور ولولہ اپنے شباب پر نظر آتے ہیں۔ مثلاً سیرت النبی ﷺ کی ولادت کے موقع پر انہوں نے جو انداز تحریر اختیار کیا ہے اس سے نہ صرف شبلی کا دلی جوش اور ولولہ نظر آتا ہے بلکہ قاری کے دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہوجاتی ہیں۔ (۲) ایجازو اختصار ایجاز و اختصار شبلی کی تحریروں کی دوسری بڑی خصوصیت ہے۔ ایجازو اختصار کو نطم و نثر دونون کی خوبی سمجھا جاتا ہے۔ ایجاز و اختصار سے مراد یہ ہے کہ بڑی سے بڑی بات کو مختصر سے مختصر انداز میں اس طرح بیان کیا جائے کہ قاری کا ذہن بھی فوراً ا کے مفہوم کو پاجائے۔ شبلی کو یہ فن آتا ہے ان کے چھوٹے چھوٹے جملوں میں وہ جہاں معنی پوشیدہ ہوتے ہیں جو کئی پیراگرافوں میں بھی نہیں سما سکتے۔ بیان کے اختصار کے لئے وہ شاعرانہ وسیلوں سے بھی کام لیتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں تشبیہہ کم تر استعمال ہوئی ہے اور استعارہ زیادہ‘ وہ آزاد کی طرح مرکب تشبیہوں اور مراتہ النظیر کے سلسلوں میں کم الجھتے‘ حالی کی تحریروں کی طرح تمثیلوں کی بھی بھرمار نہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ ان کی تحریروں میں ”استعارہ“ جاری و ساری ہے۔ (۳) مقصدیت شبلی بھی ایک مقصدی ادیب ہیں۔ دبستانِ سرسید سے تعلق رکھنے والے ہر ادیب کی طرح ان کے لئے بھی مسلمانوں کی اصلاح بہت اہمیت رکھتی تھی۔ انہوں نے اپنے لئے تاریخ کا میدان منتخب کیا۔ ہیروز آف اسلام پر کام کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ چنانچہ الماعون رح، سیرت النعمان رح، الفاروق اورسیرت انبی صلی اللہ علیہ وسلم(پہلی دو جلدیں) اس سلسلے کی اہم کڑیاں ہیں۔ انوں نے اپنی کتابوں میں اپنے مشاہیر کے متعلق پھیلی ہوئی غلط باتوں کو رد کردیا ۔ متعصب عیسائی مورخوں کی اعتراضات کے جواب دئیے بلکہ ان کو مسلمانوں کی موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے بطورِ نمونہ پیش کیا اور مسلمانوں کو اپنے شاندار ماضی سے اگاہ کرکے حال میں ترقی کا راستہ دکھانا شبلی کا مطلوب و مقصود تھا۔ (۴) بے ساختگی بے ساختگی سرسید‘ حالی اور شبلی کی تحریروں کا مشترکہ وصف ہے۔ مگر ہر ایک کی بے ساختگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سرسید کے ہاں یہ ہمیں بے ربط جملوں‘ عامیانہ محاوروں‘ پیچیدہ اور بھدی ترکیبوں کی صورت ملتی ہے۔ حالی کے ہاں یہ صفت سرسید سے اچھی حالت میں ہے۔ کیونکہ ان کی تحریریں سرسید سے زیادہ سلیس اور ہموار ہیں۔ مگر ان خوبیوں کے باوجود حالی کا ذاتی جوہر یعنی دھیما پن اسے ابھرنے نہیں دیتا۔ شبلی کی بے ساختگی ان دونوں سے الگ ہے۔ اس بے ساختگی میں کوئی عیب نہیں۔ اس میں سادگی ہے‘ چستی ہے وہ ہر بات بے ساختہ کہتے چلے جاتے ہیں۔ ایک لفظ بھی کہیں بلا ضرورت نظر نہیں آتا۔ (۵) تہذیبی احساس شبلی کی تحریروں میں مشرق پرستی اور تہذیبی تفاخر کا احساس بھی جھلکتا ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کی تہذیب کو برتر ثابت کرنے کے لئے انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کردیں۔ ان کا دور مشرقی اور مغربی تہذیب میں شدید تصادم کا دور تھا۔ انگریزی تہذیب کی چمک دمک نے عام مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے عزت ماب لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کردیا تھا۔ وہ اپنے ماضی کا ذکر کرتے ہوئے شرماتے تھی۔ وہ ہر بات میں”معذرت“ چاہتے نظر آتے تھے۔ یہ شبلی ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو احساس کمتری اور معذرتی لب و لہجے سے نجات دلائی۔ ماضی کے کارناموں کو سامنے رکھا۔ مغربی معترضوں کو مدلل جواب دیے۔ مغرب کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کہنے کی جرات دلائی‘ ذہنی طور پر ابوالکلام‘ ظفر علی خان وغیرہ شبلی کے ہی پیروکار ہیں۔ مرقع ادب کے مرتبین نے بالکل درست لکھا ہے کہ: ان کے یہاں بھی مولانا آزاد کا سا تہذیبی احساس ملتا ہے۔ (۶) تخیل کا عنصر ان کی تحریروں میں تخیل کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہے کہ دماغ فلسفیانہ اور دل شاعرانہ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ وہ بھی آزاد کی طرح چھوٹی چھوٹی حکایات اور علم و دانش سے بھرپور نکتے بیان کرکے عبارت میں رنگینی پیدا کردیتے ہیں۔ لیکن وہ محض تخیل کے اسیر بن کر نہیں رہ گئے ۔ انہوں نے فن کی خاطر مقصد کو قربان نہیں ہونے دیا۔ الغرض اردو ادب میں شبلی کو جو مقام ملا ہے اس کی بناءعلمی بھی ہے اور ادبی بھی۔ وہ نقاد‘ شاعر‘ مورخ‘ فلسفی‘ ماہرتعلیم‘ سوانح نگار سب کچھ ہیں مگر ان کا سب سے بڑا کارنامہ اس کا حسین اسلوب نگارش ہے۔ (۷) تنقید نگاری شبلی کا اندازِ تنقید اگرچہ بڑی حد تک مشرقی ہے مگر انہوں نے جدید تنقیدی نظریات سے بھی روشنی حاصل کی ہے۔ اس طرح ان کی تنقیدوں میں جدید اور مشرقی اندازِ تنقید کے امتزاج سے ایک اور خاص توانائی پیدا ہوگئی ہے۔ ان کی تنقیدوں میں غیر جانبداری کے ساتھ ساتھ علمی‘ تحقیقی اور ادبی شان پائی جاتی ہے۔وہ جو بات بھی کہتے ہیں وہ بڑی مدلل اور واضح ہوتی ہے۔ استدلال کے اعتبار سے وہ سرسید کے مانند ہیں اور اپنی تحریروں میں ادبی چاشنی پیدا کنے کے لحاظ سے مولانا آزاد کے مشابہ۔ (۸) مورخانہ عظمت اگرچہ اردو میں سیرت نگاری کی ابتداءحالی نے کی لیکن شبلی بھی اس میدان میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ حالی نے صرف ان شخصیتوں کے سوانح حیات لکھے جن سے یا تو وہ ذاتی طور پر متاثر تھے یا جنہیں ہماری معاشرے میں مقبولیت حاصل تھی۔ مثلاً غالب‘ سرسید‘ سعدی۔ اس کے برعکس شبلی نے جن اکابر کی سوانح عمریاں لکھیں انہیں ہماری دینی‘ سیاسی اور ملی زندگی میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ مثلاً حضرت عمر فاروق رضہ (الفاروق)‘ امام غزالی رح (الغزالی)‘ امام ابو حنیفہ رح ( سیرت نعمان) وغیرہ۔ (۹) ادبی لہجہ شبلی کی تاریخی اور تنقیدیتحریروں میں بھی ادبی رچاﺅ پایا جاتا ہے۔ وہ خشک سے خشک موضوع اور ٹھوس علمی مسائل کو بھی شگفتہ ادبی زبان میں ادا کرتے ہیں۔ (۰۱) تحقیقی رنگ شبلی کی تحریروں میں ایک خاص محققانہ شان پائی جاتی ہے۔ ان کی تصنیف سے ان کے عمیق مطالعے‘ تحقیقی اسلوب اور علمی بصیرت کا بھرپور تاثر ملتا ہے۔ انہوں نے اپنی تاریخی‘ تنقیدی اور ادبی تصانیف میں اپنی تحقیقی کاوش کا حق پوری طرح ادا کیا ہے۔ (۱۱) شاعرانہ اسلوب شبلی اپنی نثر میں تاثیر کا عنصر پیدا کرنے کے لئے شاعرانہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ خوبصورت الفاظ‘ ہلکے پھلکے محاوروں اور حسین ترکیبیں ان کی نثر میں شگفتگی اور رعنائی پیدا کردیتی ہیں۔ تحریر میں ادبی حسن پیدا کرنے کے لئے بعض اوقات موزوں اشعار سے بھی کام لیتے ہیں۔ (۲۱) مبالغہ آرائی شبلی بعض اوقات اپنے خطیبانہ آہنگ اور جذباتیت کی رو میں بہہ کر حقیقت بیانی سے بہت دور نکل جاتے ہیں۔ اس قسم کا ولولہ انگیز اندازِ تحریر قوم میں بیداری کی لہر دوڑانے کیلئے ہوسکتا ہے مگر مورخ کی شایانِ شان نہیں ہوتا۔ ناقدین کی آراہ ڈاکٹر حسین کے الفاظ میں: شبلی ایک صاحب اسلوب نثر نگار ہیں۔ شبلی نے جو اسلوب اردو کو دیا وہ گوناگوں اوصاف کا حامل ہے۔ شبلی نے منطقی فکر کو شاعرانہ تخیل میں سمو کر ایک ایسا دلکش اسلوبِ بیان ایجاد کیا جس نے ان کی تحریر کے دائرہ اثر کو بہت وسیع کردیا۔ یہ اسلوب تخیل کے تاریک گوشوں پر عقل کی روشنی ڈالتا ہے۔ فکر کے بے رنگ خاکوں میں شعر کا رنگ بھرتا ہے اور جس طرح دوربین مکان کے فرق کو مٹادیتی ہے یہ زمانے کے فرق کو مٹا کر ماضی کو حال بنادیتے ہیں۔ بقول مہدی الافادی: شبلی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے تاریخ پر فلسفہ کا رنگ چڑھایا اور نکتہ آرائیوں سے ایک مستقل فن بنادیا۔ ڈاکٹر خورشید اسلام کا بیان ہے کہ: شبلی پہلے یونانی ہیں جو ہندوستان مین پیدا ہوئے۔ وہ اگر انشاءپرداز نہ ہوتے تو مصور ہوتے۔ شرر ایک تعارف جس طرح اردو میں معاشرتی اور اصلاحی ناول نگاری کی ابتداءمولوی نذیر احمد سے ہوتی ہے۔ اس طرح تاریخی ناول لکھنے کا سہرا مولانا عبدالحلیم شرر کے سر ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ناول لکھنا ان دونوں بزرگوں کا مقصد نہ تھا بلکہ اصلاح قوم کا مقصد مدِنظر تھا اس لئے اگر ان کے ناول آج کے معیارِ ناول نویسی پر پورے نہیں اترتے تو قصور ان کا نہیں بلکہ ان نقادوں کا ہے جو ان بزرگوں کو ان کے دور سے الگ کرکے دیکھتے ہیں۔ دونوں اپنے دور کے مقبول ترین ناول نگار تھے۔ نذیر احمد کے برعکس شرر بڑے زود نویس تھے۔ اپنے رسالے دلگداز کے لئے بالاقساط لکھتے اور لکھتے ہی چلے جاتے۔ لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے۔ بغیر اجازت کتابی صورت میں چھاپ بھی دیتے۔ شرر کو فرصت کہاں کہ وہ اپنے کرداروں‘ مکالموں‘ زبان وبیان کی اغلاط درست کرتے‘ نتیجہ یہ نکلا کہ تصنیفات کا ایک پہاڑ کھڑا ہوگیا۔ انہوں نے صرف تاریخی ناول ہی نہیں لکھے‘ ڈرامے لکھے‘ نظمیں لکھےں‘ خیالی‘ تخلیقی‘ مذہبی اور اصلاحی موضوعات پر مضامین لکھے جو آٹھ ضخیم جلدوں میں شائیع ہوئے۔ طرزِ تحریر کی خصوصیات شرر کی طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات ذیل میں درج ہیں۔ (۱) مدعانویسی شرر بھی ایک مقصدی ادیب ہیں وہ سرسید کے مقتدی نہ سہی معتقد ضرور تھے۔ تاریخی ناول لکھنے سے ان کا مدعایہ تھا کہ عیسائی مشزیوں اور انگریز مصنفین خصوصاً والٹر اسکاٹ نے صلیبی جنگوں پر خامہ فرسائی کرتے وقت مسلمانوں کا کردار جو مسخ کرکے دکھایا ہے اس کا ازالہ کیا جائے۔ چنانچہ شررنے اپنے ناولوں اور مضامین کے ذریعے مسلمانوں کو ان کی عظمتِ رفتہ کی تصویر کو دکھا کر ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ ناولوں کے علاوہ مختلف مضامین میں بھی انہوں نے مسلمانوں کی دینی‘ تہذیبی اور معاشرتی اصلاح کو مدِ نظر رکھا۔ (۲) استدلال شرر کی تحریر کی دوسری خوبی جو انہیں سرسید گروپ کے قریب لے جاتی ہے وہ ہے استدلال۔ وہ خشک واعظ نہیں۔ وہ اپنی بات پڑھنے والے سے منوانے کے لئے قرآنی آیات‘ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور تاریخی واقعات کا حوالہ دیتے ہیں جیسا کہ انہوں نے اپنے مضمون قدر نعمت بعد زوال میں قرآنی آیات‘ تاریخی دلائل دے کر اپنے موضوع کو موثر بنایا ہے۔ استدلالیت کے باوجود وہ سرسید گروپ کے عقلیت اور منطق سے دور رہے اور اس وجہ ان کا طبعی رحجان ہے جو تاریخ کی طرف راغب ہے۔ (۳) رومانیت شرر کو رومانی دبستان کا بانی کہا جاتا ہے۔ رومان میں حسن و عشق کے قصے ہوتے ہیں۔ جذبہ و تخیل کی کارفرمائی ہوتی ہے اور یہی چیزیں ہمیں شرر کے ہاں ملتی ہیں۔ ان کی اکثر و بیشتر ناول حسن و عشق کے موضوع کے گرد کھومتے ہیں۔ ان ناولوں کی فضا میں بھی ایک حسن رچا بسا ہے۔ وہ جذب کا عالم تو نظر نہیں آتا جو بعض دوسرے رومانوی مصنفین مثلاً قاضی عبدالغفار‘ سجاد حیدر‘ یلدرم اور نیاز فتح پوری کی تحریروں کا طرہ امتیاز ہے۔ تاہم اس کے ابتدائی نمونے شرر کے ہاں ضرور نظر آتے ہیں۔ (۴) خیال آفرینی‘ تخیل شرر شاعرانہ مزاج رکئتے تھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے ناولوں کے علاوہ اپنے مضامین میں بھی خیال آفرینی کے خوب جوہر دکھائے ہیں۔ بلکہ ان کے مضامین کا ایک بڑا حصہ ان کے تخیلی مضامین پر مشتمل ہے۔ یہ خیال آفرینی انہیں آزاد کے قریب لے جاتی ہے ان کی خیال آفرینی اس وقت اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے جب وہ کسی مقام کی منظرکشی کرتے ہیں۔ ان کے سب سے مقبول اور مشہور ناول فردوس بریں میں خیال آفرینی کے عمدہ نمونے بکثرت ہیں۔ خاص طور پر جب وہ حسن بن صباح کی جنت کا نقشہ کھینچتے ہیں تو ان کی خیال آفرینی اپنے نقطہ عروج کو پہنچ جاتی ہے۔ تخیل کی بلند پروازی کی بناءپر وہ آزاد کی طرح‘ بعض ناممکن واقعات کو ممکنات کی حد میں لاکھڑاکرتے ہیں۔ (۵) مکالمہ نگاری شرر اپنے ناولوں میں مکالمہ نگاری سے بھی کام لیتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کے مکالموں میں جان نہیں۔ مزید برآں ان کے مکالمے بڑے طویل ہوتے ہیں۔ جن سے قاری جلد اکتا جاتا ہے۔ ان کے پیش رو نذیر احمد اور رتن ناتھ سرشار مکالمہ کے بادشاہ تھے۔ مکالمہ ان کے ناولوں کی جان ہے۔ مگر شرر نے ان سے کوئی فیض نہیں پایا۔ (۶) کردارنگاری اگرچہ شرر کا مدعا مسلمانوں کو ان کی عظمتِ رفتہ کی داستان سناکر ان کے دلوں میں جوش اور ولولہ پیدا کرنا تھا مگر ان سے ایک زبردست غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے ایسی نامور ہستیوں پر قلم اٹھایا جو تاریخی اعتبار سے پہلے ہی زندہ و پائندہ تھیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کردار ابھر نہیں سکے۔ ان کے کردار بے جان‘ چپ چاپ اور حسن و عشق کی باتوں سے بیگانہ نظر آتے ہیں۔ فردوس بریں کا ہیرو حسین اور ہیروئن زنرد اسکی واضح مثال ہیں۔ پورے ناول میں البتہ علی وجودی کا کردار اپنی پراسرار شخصیت ‘ اپنے اعمال و افعال کی بناء پر ایک مکمل کردار کہا جاسکتا ہے۔ (۷) قوت اور جوشِ بیان شبلی کی ایک نمایاں خصوصیت قوت اور جوشِ بیان کی مکمل جھلک ہمیں شرر کے ہاں ملتی ہے۔ وہ بھی اپنی بات کو خلوص دل سے کہتے ہیں اور پرجوش اندازِ بیان کی وجہ سے قاری کے دل و دماغ کو مسخر کرلیتے ہیں۔ وہ بھی شبلی کی طرح اپنے قاری کو ایک بلند سطح سے مخاطب کرتے ہیں۔ ان کی خطابت کی جھلک ناولوں میں ہی نہیں بلکہ مختلف مضامین میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ بعض مقام پر تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم تقریر سن رہے ہیں۔ (۸) پرتکلف منظر نگاری ناکام کردار نگاری اور مکالمہ نگاری کے باوجود جو چیز قاری کو ان کے ناول دلچسپی سے پڑھنے پر مجبور کرتی ہے وہ ان کی پرتکلف منظر نگاری ہے۔ شرر لکھنﺅی تھے اور اردو ان کے گھر کی باندی تھی۔ منظر نگاری کے موقع پر انہوں نے اس سے خوب سے کام لیا۔ خوبصورت‘ خوش آہنگ الفاظ‘ تشبیہ اور استعارہ کی چاشنی اور تخیل کی بلند پروازی نے مل کر ان کی منظرکشی میں جان ڈال دی ہے۔بعض لوگ شرر کو ناکام منظرنگار کہتے ہیں جو حقیقت سے بالکل برعکس ہے۔ پروفیسر سلیم نے سچ کہا ہے کہ: شرر رنگینی بیان کے اتنے شائق ہیں کہ ان کی منظر نگاری‘ بہاریہ قصیدہ کی تشبیب بن جاتی ہے۔ (۹) جذبات نگاری شرر کو جذبات نگاری پر ماہرانہ دسترس حاصل ہے۔ ان کے کردار بے جان اور جنگ کے مردِ میدان نہ ہونے کہ باوجود عشق کے مردِ میدان ضرور ہیں۔ حسن و عشق یعنی عاشق اور معشوق کے دلوں میں مختلف موقعوں پر جو مختلف واردات اور کیفیات طاری ہوتی ہیں‘ شرر ان کا ہوبہو نقشہ کھینچ دیتے ہیں۔ اردو ادب کی تاریخ کے مصنف رام بابو سکسینہ نے ان کی جذبات نگاری کے باری میں لکھا ہے: شرر سچ یہ ہے کہ اردو لٹریچر کی دنیا میں ایک چابکدست مصور ہیں اور جذباتِ انسانی پر حکومت کرنے والے بادشاہ ہیں۔ (۰۱) سبک اور شگفتہ انداز شرر کی نثر دلکش اور شگفتہ ہے۔ انہوں نے میر امن کی سلاست‘ سرسید کی مقصدیت اور سادگی اور شبلی کی دینی حمیت کے امتزاج سے ایک نیا اسلوبِ بیان اختیار کیا ہے جسے قبولِ عام حاصل ہوا ہے۔ ان کی مضامین میں انشائے لطیف کی چاشنی ملتی ہے۔ (۱۱) عربی اور فارسی ادب سے استفادہ شرر کا شاعرانہ اور ادبی ذوق بہت شستہ اور لطیف تھا۔ وہ اردو زبان کے شاعر بھی تھے۔ عربی اور فارسی سبقاً سبقاً پڑھی تھی۔ چنانچہ ان کی تحریروں میں موقع بہ موقع ان زبانوں کے اشعار‘ ضرب الامثال اور مقولے آتے ہیں اور بیان کی لطافت اور دلچسپی میں اضافہ کرتے ہیں۔ (۲۱) اردو کے کلاسیکی ادب سے استفادہ شرر اپنی تحریروں میں صرف عربی اور فارسی ادب ہی سے استفادہ نہیں کرتے بلکہ اردو کلاسیکی ادب بھی ان کے پیشِ نظررہتا ہے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں قدیم اردو شعراءکے اشعار اور داستانی ادب کے مقولے‘ ضرب الامثال اور تلمیحات موقع محل کی مناسبت سے استعمال کی ہیں جو انکے اسلوب کو خوبصورت اور موثر بنادیتی ہیں۔ (۳۱) انگریزی الفاط کا استعمال سرسید احمد خان اور ان کے رفقاء کی تحریروں میں انگریزی الفاظ کا استعمال بڑی کثرت سے ہوا ہے۔ شرر اگرچہ براہ راست سرسید احمد خان اور انکی تحریک کے زیراثر نہ تھے۔ لیکن ان کے دبستان کی بعض باتیں غیر محسوس طور پر ان کے طرز نگارش میں بھی داخل ہوگئیں۔ چنانچہ شرر کے ہاں بھی کہیں کہیں انگریزی الفاظ کا استعمال دکھائی دیتا ہے جو ناگوار نہیں گزرتا۔ (۴۱) سلاست و روانی شرر کے بیشتر موضوعات علمی اور تاریخی تھے۔ تاہم ان کا اسلوب اس قدر شگفتہ ہے کہ کہیں مشکل نویسی کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کی تحریریں رواں دواں ہیں۔ یہ خصوصیت دراصل شرر کی کمال مشاقی اور اظہار و بیان پر ان کی کامل دسترس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ (۵۱) قواعد زبان سے انحراف شرر زبان کی سلاست اور روانی کو قائم رکھنے اور بے تکلف اظہار مدعا کے لئے بعض اوقات زبان کے لگے بندھے قواعد سے انحراف بھی کرلیتے ہیں۔ مثلاً وہ علمی الفاظ و اصطلاحات کی جگہ کہیں کہیں عوامی الفاظ و اصطلاحات استعمال کرلیتے ہیں۔ (۶۱) جدت پسندی شرر جدت پسند ادیب تھے۔ پامال راستوں پر چلنا انہیں پسند نہ تھا۔ انہوں نے اپنے لئے اظہار کے نئے سانچے وضع کئے۔ اس طرح مضامین میں بھی وہ صرف پہلی باتوں کو روایت کردینے پر اکتفا نہیں کرتے۔ بلکہ تحقیق و جستجو سے اصل حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہں نے اپنے مضامین میں نئے نئے عنوانات تلاش کئے جن پر ان سے پہلے کسی نے قلم نہیں اٹھایا تھا۔ (۷۱) محاکات محاکات یعنی لفظی تصویر کشی میں شرر کو خاص مقام حاصل ہے۔ تصویر مناظر کی ہو یا انسانی جذبات و کیفیات کی‘ شرر مناسب و موزوں الفاظ کی مدد سے اسے بڑی خوبصورتی سے ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم خود یہ مناظر دیکھ رہے ہیں۔ اور سصحیح جذبات و کیفیات ہم پر بھی وارد ہورہی ہیں۔ حرفِ آخر مختصر طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ شرر کا اسلوب نگارش چند ایک کے باوجود ایک منفرد اسلوب ہے اس میں دبستان میں سرسید کی مقصدیت’ استدلال‘ جوش خطابت شبلی کی طرح اور تخیل کی کارفرمائی آزاد کی طرح بھی نظر آتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ رومانیت‘ پرتکلف منظرنگار‘ خیال آفرینی اور لکھنﺅ کی ٹکسالی زبان ان کی تحریر وہ نمایاں خوبیاں ہیں جو ان کو اردو کے دیگر ادیبوںسے منفرد اور ممتاز بناتی ہیں۔ Shairi Ki khasoosiyat - شاعر کی خصوصیات خواجہ میر درد ایک تعارف تا قیامت نہیں مٹنے کا دلِ عالم سے درد ہم اپنے عوض چھوڑے اثر جاتے ہیں خواجہ میر درد دہلی کے ان معروف شعراءمیں سے ہیں جن کی وجہ سے دہلی کی عمارتِ سخن قائم تھی۔ میر درد کو کئی اعتبار سے امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ وہ ایک بلند فکر‘ درویش صفت اور صاحبِ حال انسان تھے جن کی زندگی توکل کااعلیٰ نمونہ ہے۔ درد نے جب شاعری کی دنیا میں اپناکمال دکھایا تو اردو شاعری رنگِ تغزل کے ساتھ ساتھ رنگِ تصوف سے بھی مالا مال ہو گئی۔ ان کی شاعری میں ایک طرف تصوف کا گلاب مہک رہا ہے تو دوسری طرف معرفت کے موتی چمک رہے ہیں۔ کہساروںکا سا تکلم‘ آبشاروں کاسا ترنّم اور چاندنی جیسی پاکیزگی ان کے کلام کو معطر و منور کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کو دنیائے سخن میں شہنشائے تصوف کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور عام معاصر اور متاخر تذکرہ نگار ان کاذکر کمالِ احترام سے کرتے ہیں۔ نواب جعفر علی خان درد کے بارے میں کہتے ہیں۔ اُن کے پاکیزہ کلام کے مطالعے کے لئے پاکیزہ نگاہ درکار ہے۔ درد کے محاسنِ کلام خواجہ میر درد کے طرزِ کلام کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔ (۱) تصوف کا رنگ خواجہ میر درد کی زندگی اور شاعری دونوں تصوف کے انوار میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اسی لئے وہ اردو کے سب سے بڑے صوفی شاعر کہلاتے ہیں۔ ان کا منفرد اندازِ بیان ان کو دیگر صوفی شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔ وہ اپنے طرزِ فکر کو نرم و ملائم مصرعوں میں بیان کرتے ہیں جو ان کی قلبی کیفیتوں کا آئینہ دار ہیں۔ بطور امثال ارض و سما کہاں تیری وسعت کو پا سکے میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا (۲) سادگی درد اپنے احساسات کی ترجمانی نہایت سہل ،شستہ‘ ہلکی پھلکی اورعام فہم زبان میں کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں سلاست اور روانی ہے جو ان کے کلام کو نہایت پر اثر بناتا ہے اور قاری نہایت آسانی سے سمجھ جاتا ہے۔ بقول درد آتشِ عشق جی جلاتی ہے یہ بلا جان پر ہی آتی ہے دل زمانے کے ہاتھ سے سالم کوئی ہوگا کہ رہ گیا ہوگا ذکر وہ میرا کرتا تھا صریحاً لیکن میں نے پوچھا تو کہا خیر یہ مذکور نہ تھا (۳) حوصلہ مندی درد کا دور تاریخی اعتبار سے پر آشوب دور تھا۔ حالات کی ناسازگاری اور فکر معاش کی وجہ سے کئی شعراء لکھنو اور دوسرے مقامات کا رخ کر رہے تھے۔ لیکن ان تمام حالات کے باوجود درد کی پائے استقامت میں کوئی لغزش نہ آئی اور وہ تمام عمر دہلی میں رہ کر حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔ ان کی اس کیفیت کا رنگ ان کے کلام میں بھی نظر آتا ہے آیا نہ اعتدال میں ہرگز مزاجِ دہر میں گرچہ گرم و سردِ زمانہ سمو گیا حیران آئینہ دار ہیں ہم کس سے دوچار ہیں ہم جان پر کھیلا ہوں میں‘ مگر جگر دیکھنا جی رہے یا نہ رہے پھر بھی ادھر دیکھنا (۴) موسیقیت اور ترنّم درد روکھے اور خشک مزاج صوفی نہ تھے۔ وہ فنونِ لطیفہ سے آشنا تھے خاص طور پر موسیقی سے گہرا لگاو رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں حسن ونغمگی کا احساس ہے۔ ان کی غزلیں موسیقی کی خاص دھنوں اور سرتال پر پوری اترتی ہیں۔ بطور مثال سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا بس ہجوم یاس جی گھبرا گیا تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے کس لئے آئے تھے کیا کر چلے قتلِ عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا پر تیرے عہد کے آگے تو یہ دستور نہ تھا (۵) بے ثباتی حیات درد کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی کا رنگ جھلکتا ہے۔ ایک صوفی شاعر ہونے کی حیثیت سے وہ اپنے اشعار میں اس نظریہ کی ترجمانی کرتے ہیں کہ دنیوی زندگی عارضی ہے اوراصل زندگی وہ ابدی اور دائمی زندگی ہے جو بعد الموت شروع ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر وائے نادانی کے وقت مرگ یہ ثابت ہوا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا ساقی اس وقت کو غنیمت جان پھر نہ میں ہوں‘ نہ تو‘ نہ یہ گلشن درد کچھ معلوم بھی ہے یہ لوگ کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے (۶) امتزاجِ مجاز و حقیقت شاعر کے کلام میں عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی کا رنگ کچھ اس طرح سے ہم آہنگ ہے کہ ان دونوں میں امتیاز کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ درد کا کمال یہ کہ ان اشعار کے مطالعے کے بعد قاری کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ محبوبِ حقیقی سے ہمکلام ہیں یا محبوبِ مجازی سے۔ مثال کے طور پر اپنے ملنے سے منع مت کر اس میں بے اختیار ہیں ہم جی کی جی میں رہی بات نہ ہونے پائی حیف ہے ان سے ملاقات نہ ہونے پائی کچھ ہے خبر کہ اٹھ اٹھ کے رات کو عاشق تیری گلی میں کئی بار ہو گیا (۷) سوز و گداز اثرِ آفرینی اوردردمندی کلامِ درد کی نمایا ںخصوصیات ہیں۔ ان کی شاعری سادگی اور حقیقت نگاری کی وجہ سے دردواثر اور سوزوگداز کا مرقع ہے۔ ان کی ہر بات دل سے نکلتی ہے اور دل میں اترتی ہے۔ بقول محمد حسین آزاد۔ درد تلواروں کی آبداری نشتر میں بھر دیتے ہیں۔ بطور مثال درج ذیل نمونہ کلام پیش ہے زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے خارِ مژہ پڑے ہیں مری خاک میں ملے اے دشت اپنے کےجےو داماں کی احتیاط (۸) وحدت الوجود درد کا محبوب اللہ تعالیٰ ہے۔ ان کے کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ وحدت الوجود کے قائل ہیں۔ ان کی نگاہ میں کائنات کا ہر ذرّہ ِِجمال نورِخداوندی کا مظہر ہے اور ہر شے میں ایک ہی ہستی جلوہ گر ہے۔ بقول درد جوں نورِ بصر تیرا تصور تھا پیشِ نظر جدھر گئے ہم بیگانہ گر نظر پڑے تو آشنا کو دیکھ بندہ گر آوے سامنے تو بھی خدا کو دیکھ (۹) غزل کا رنگ خواجہ میر درد کی شاعری میں ایک طرف تصوف کا گلاب مہک رہا ہے تو دوسری طرف رنگِ تغزل پورے گلشن کو مہکا رہا ہے۔ ان کے کلام میں غزل کے تمام لوازمات موجود ہیںخواہ وہ محبوب سے ناراضگی کا احساس ہو یا شامِ غم کی کیفیات۔ مثال کی طور پر درد کوئی بلا ہے وہ شوخ مزاج اس کو چھیڑا برا کیا تو نے رات مجلس میں تیرے حسن کے شعلے کے حضور شمع کے منہ پر جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا معروف تنقید نگاروں کی آرائ ایک مشہور و معروف شاعر ہو نے کی حیثیت سے میر درد کے بارے میں مختلف نقادوں نے اپنی آراء پیش کی۔ میرحسن لکھتے ہیں۔ درد آسمانِ سخن کے خورشید ہیں۔ مرزا علی لطف گلشنِ ہند میں لکھتے ہیں۔ اگرچہ دیوانِِ درد بہت مختصر ہے لیکن سراپا دردواثر رکھتا ہے۔ بقول رام بابو سکسینہ۔ درد کی غزلیں زبان کی سادگی اور صفائی میں میر کا کلام کا مزہ دیتی ہیں۔ علامہ محمد اقبال ایک تعارف اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے عشق کے دردمند کا طرزِ کلام اور ہے وہ اپنے قلم سے جذبات و احساسات کے موتیوں کو حروف کی مالا میں پروتے۔ اُن کے پُرجوش قلم سے اُن کے دل کی پکار سنائی دیتی۔ اُنہوں نے کلام کے عکس میں اِس امّت کو ایک پاکیزہ نسل عطا کی‘ اس دنیا کے شاہینوں کو اُڑان و پرواز سکھائی‘ نوجوانوں کی بلندیوں سے ہمکنار کرایا‘ ایک قوم کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرایا اور ان افراد کو خودی سے نوازا جو اپنی لاشیں اپنے ہی کاندھوں پر اُٹھائے استحکام سے عاری سماج میں گردش کر رہے تھے۔ حق گوئی و بے باکی کا پیامبر‘ خودی کا یہ پیکر‘ مسلمانوں کا یہ حکیم‘ اقدارِ اسلامی کا یہ مبلغ‘ عملِ پیہم اور جہدِ مسلسل کا یہ داعی‘ شاہینِ انسانی کا یہ خالق‘ علم و معرفت کی یہ جویا‘ اخوت و بھائی چارگی کی یہ علامت‘ یقین و ایمان کا یہ پیکر اور دنیائے سخن کا یہ مُحسن ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال ہے۔ وہ اقبال جس نے تصوف و معرفت کے پھول کھلائے‘ جس نے انقلابی شاعری کی بنیاد رکھی اور جس نے اردو غزل گوئی کو نکھار بخشا۔ یہی ہے وہ مردِ مُجاہد ہے جس نے آفاقی شاعری کے گوہر ہائے آبدار تخلیق کئے اور یہی ہے وہ مومن جس کے بارے میں کہا جاتا ہے اس قدر رمزِ خودی سے آشنا کوئی نہ تھا راہِ حق میں نازش بانگ درا کوئی نہ تھا خوابِ غفلت سے جو اہلِ درد کو چونکا گیا صرف وہ اقبال تھا اس کے سوا کوئی نہ تھا اقبال کے ادوارِ شاعری دورِ اوّل: اقبال مولانا الطاف حسین حالی کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ اس دور میں انہوں نے غزلیں کہیں اور مسلمانوں کی خامیوں کا ذکر کیا۔ دورِ دوم: فارسی زبان میں اشعار نظم کیے۔ اپنی شاعری کے ذریعے سے مغربی تہذیب کی مخالفت کی اور ان کے خد و خال کو واضح کیا۔ دورِ سوم: اپنی شاعری کو مسلمانوں کی خدمت کا ذریعہ بنایا اور مسلمانانِ ہند کی ذہنی و فکری اصلاح کے لئے سعی کی۔ دورِ چہارم: یہ ان کی شاعری کا آخری دور تھا۔ اس میں انہوں نے فلسفہ ¿ خودی پیش کیا اور انسان کی افضلیت اور آفاقی حیثیت کو واضح کیا۔ اقبال کے محاسنِ کلام علامہ اقبال کے طرزِ کلام کی نمایاںخصوصیات پیشِ نظر ہیں۔ (۱) فلسفیانہ طرزِ بیان اقبال فطرتاً فلسفیانہ سوچ کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میںمنفرد اور فطری اندازِ بیان اختیار کرتے ہوئے اشعار کو ان تفکرات کا آئینہ دار بنایا۔ پہلی مرتبہ اردو غزل گوئی میںفلسفیانہ خیالات کو لفظوں کے احاطے میں مقید کیا اور اسلامی‘ نفسیاتی‘ تہذیبی‘ اخلاقی‘ سیاسی اور سماجی نظریات کو غزلوں کا رنگ دیا۔ ملک راج آنند لکھتے ہیں۔ اِقبال کی شاعری کی بنیاد فلسفے پر ہے۔ اسی فلسفے کی فضا میں اِقبال کی شاعری نے نشوونما پائی‘ بلندی پائی‘ حوصلہ پایا‘ نظر پائی اور ایمان پایا۔ مثال کے طور پر نمونہ کلام پیش ہے فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں نہیں ہے ناامید اقبال اپنے کشتِ ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی (۲) مقصدیتِ دین علامہ اقبال کو دینِ اسلام سے بے حد لگاﺅ تھا اور آپ عشقِ الٰہی سے سرشار مجاہد تھے۔ اس مردِ مومن کا مقصدِ زندگانی امّت مسلمہ کو خوابِ غفلت سے بیدار کر کے میدانِ عمل میں سر گرم کرنا تھا۔ آپ کے کلام کا مقصد اہلِ سماج کا ایمان اس بات پر پختہ کرنا تھا کہ زندگی کی پیچیدگیاں صرف اور صرف دینِ حق کی پیروی سے سلجھ سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر وہ بیان کرتے ہیں کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں ہاتھ ہے اللہ کا بندہ ¿ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں کارکشا و کارساز (۳) اثر آفرینی حکیم الامّت کا قلم جب ان کی معطر جبلی فکر کی ترجمانی کرتا ہے تو ایسے گہر ہائے آبدار تخلیق پاتے ہیں جن کی تابانیاں اثر آفرینی کادل آویز مرقع بن کر روح کو وجد میں لے آتی ہیں۔ اقبال کے کلام کے مطالعے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے گویا فنکار نے الفاظ میں اپنا خونِ جگر شامل کر دیا ہے۔ بقول یوسف حسین خان۔ زورِ کلام اور اثرِ آفرینی کا اعلیٰ نمونہ دیکھنا ہو تو اقبال کی نظم ’فاطمہ بنتِ عبداللہ‘ کو پڑھئے۔ اس کا ایک ایک لفظ درد و خلوص میں ڈوبا ہوا ہے۔ نمونہ کلام درج ذیل ہے اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخِ امراءکے در و دیوار ہلا دو جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کہ ہر خوشہ ¿ گندم کو جلا دو (۴) فکرِخودی شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے کلام میں فلسفہ خودی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ حکیم الامّت استحکام سے عاری بے یقین اور مایوس قوم کا علاج خودی کی تعلیم کو قرار دیتے ہیں۔ علامہ اقبال کے نظریہ کے مطابق اپنی ذات کے ادراک و عرفان کے بغیر قوم کا جذبہ محرکہ سرد پڑ جاتا ہے۔ ان کے نزدیک خودی یقین کی گہرائی ‘ سوزِ حیات ‘ ذوقِ تخلیق اور ایک عبادت ہے۔ ان کے کلام سے ان کی یہ سوچ جھلکتی ہے خودی کیا ہے رازِ درونِ حیات خودی کیا ہے بیداری ¿ کائنات یہ موجِ نفس کیا ہے‘ تلوار ہے خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے (۵) عاشقانہ رنگ اقبال کی شاعری میں عشقِ حقیقی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ اُن کے نزدیک عشق ایک والہانہ کیفیت کا نام ہے جو کسی مسلمان کو اپنے قصدومقصد کی تکمیل کرنے میں سہارا دیتی ہے۔ عشق ایک متحرک قوّت ہے جو مردِمومن کو خوب سے خوب تر کی تلاش میں مصروف رکھتی ہے۔ اقبال کا نظریہ یہ ہے کہ عقل اور عشق دو متضاد قویٰ ہیں۔ عقل انسان کو مصلحتوں کے آئینے میں پیچھے ہٹنے پر مجبور کرتی ہے جبکہ عشق اُسے ڈوبتے ہوئے آفتاب جلوہ گر کرنے کی ذمہ داری سونپتا ہے۔ اُن کے کلام میں اِن کیفیات کا رنگ نظر آتا ہے عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اوّلین ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و دیں بُت کدہ تصوّرات عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھتا تھا میں (۶) جوشِ بیان زورِ بیان اقبال کی شاعری کی موثر ترین خوبی ہے اور وہ اپنی اس خصوصیت میں لاثانی ہیں۔ علامہ اقبال جب اپنے قلم سے جذبات و احساسات کے موتیوں کو حروف کی مالا میں پروتے ہیں تو ان کے پُرجوش قلم کی تخلیق سے ان کے دل کی پکار سنائی دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اور امتِ مسلمہ سے ان کا والہانہ عشق‘ جنونی لگاﺅ اور بے ساختہ اُلفت ان کے قلم کی زینت بن جاتا ہے۔ اُن کا شعر اگر سمجھ میں نہ آئے تب بھی ضرور متاثر کرتا ہے۔ عکسِ کلام درج ذیل ہے نہ تخت و تاج میں‘ نہ لشکر و سپاہ میں ہے جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا مقامِ رَنگ و بو کا راز پا جا (۷) تصورِ عملِ پیہم و شاہین اقبال ایک بامقصد شاعر تھے۔ آپ ملّت کے نوجوانوں کو اسلام کی آفاقی تعلیمات کی روشنی میں مثالی کردار کی علامت بنانا چاہتے تھے۔ آپ اُس دور کے نوجوانوں کو شاہین کی خودداری‘ بلند پرواز اور غیرت کی مثال دے کر عملِ پیہم کا پیام دیتے ہیں۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں۔ شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ نہیں۔ اِس پرندے میں اسلامی فکر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ عکسِ کلام پیش ہے پرواز ہے دونوں کی اسی اِیک فضا میں شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور یقین محکم‘ عمل پیہم‘ محبت فاتحِ عالم جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں (۸) رفعتِ تخیّل منظر کشی اقبال کے کلام کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ وہ مناظرِ فطرت کی لفظی تصاویر ایسی مہارت اور خوبصورتی سے کھینچتے ہیں کہ چشم تصور اُن کو ہو بہو اپنے سامنے محسوس کرتی ہے۔ مثال کے طور پر پانی کو چھو رہی ہو جُھک جُھک گُل کی ٹہنی جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو سورج نے جاتے جاتے شامِ سیہ قبا کو طشتِ اُفق سے لے کر لالے کے پھول مارے معروف نقادوں کی آراہ شاعر مشرق‘ حکیم الامّت‘ سر‘ ڈاکٹر علامہ محمد اِقبال وہ ہستی ہیں جن کے اشعار ہر دل کی دھڑکن ہیں اور جن کی عظمت کا اعتراف ہر زبان پر ہے۔ ان کے بارے میں جس نے بیان دیا توصیف کا دیا‘ جس قلم نے لکھا تعریف میں لکھا اور جہاں ان کا ذکر ہوا خوب ہوا۔ اقبال زندگی اور اُس کے تقاضوں کے سچے شاعر تھے اور اُن کی شاعری گوناگوں خصوصیات کی حامل ہے۔ بقول بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق۔ اِقبال برصغیر ہی کے نہیں بنی نوعِ انسان کی لازوال تہذیب کے ایک برگزیدہ مفکر اور شاعر کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ پروفیسر احتشام حسین رقم طراز ہیں۔ اقبال نے ہمیں وہ لب و لہجہ اور آہنگ عطا کیا جو کرئہ ارض پر انسانی اقوام کی تقدیر بدل دیتا ہے۔ اردو شاعری میں ایسا لب و لہجہ اور آہنگ پہلے کبھی نہیں تھا۔ قاضی عبدالغفار فرماتے ہیں۔ اقبال کی شاعری کا ہر دور فلسفہ حیات کا حامل ہے۔ نظیر اکبر آبادی ایک تعارف نظیر اکبر آبادی اردو ادب کے پہلے عوامی شاعر ہیں۔ وہ اردو ادب کی آبرو ہیں۔ ان سی اردو ادب میں ایک نئے دبستان فکر کی بنیاد پڑتی ہے۔ وہ ہمارے قومی اور تہذیبی رنگ کا سرچشمہ ہیں۔ وہ جدید اردو ادب کے پیغمبر ہیں ۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ جدید شاعری کی ابتداءمحمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی سے ہوئی لیکن نظیر اکبر آبادی ان سے بہت پہلے جدید شاعری کا آغاز کرچکے تھے۔ انہوں نے بیشمار ایسی نظمیں کہیں جن کی بنیاد پر اردو کے پہلے عوامی شاعر کہے جاتے ہیں اور آج جو یہ شاعری ہمیں نظر آتی ہے اس کی ابتداءکرنے والے بھی نظیر اکبر آبادی ہی ہیں۔ اسی لئے انہیں جدید اردو شاعری کا پیش رو کہا جاتا ہے۔ مجنوں گورکھپوری کی رائے ہے: نظیر پہلے شاعر تھے جن کو میں نے زمین پر کھڑے زمین کی چیزوں کے متعلق بات چیت کرتے ہوئے پایا اور پہلی مرتبہ میں نے محسوس کیا کہ شاعری کا تعلق روئے زمین سے بھی ہے۔ مشہور و معروف نظمیں نظیر کی چند ایسی نظوم جن سے انہوں نے شہرتِ دوام پائی وہ ذیل میں درج ہیں: من موجی پنجری کا عالم ہر حال میں خوش کوڑی نہ رکھ کفن کو بنجارہ نامہ اسرارِ قدرت برسات کی بہاریں آدمی نامہ برسات کا تماشہ ہنس نامہ نظیر کے محاسنِ کلام نظیر اکبر آبادی کے محاسن کلام ذیل میں درج ہیں۔ (۱) نیچرل شاعری نیچرل شاعری جس کی بنیاد پر آزاد اور حالی نے ڈالی تھی۔ اس کے پیش رو بلکہ موجد نظیر اکبر آبادی ہی تھے۔ وہ اپنی نظموں میں اخلاقی تلقین اور سماجی اصلاح کا بار بار ذکر کرتے ہیں۔ ان کی شاعری کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے لفظی صناعی کے بجائے ”خیال“ اور جذبے کو شاعری کا معیار قرار دیا اور مبالغہ آرائی اور مضمون افرینی سے ہٹ کر سادگی اور فکری وجدت کی نظیر قائم کی۔ انہوں نے اپنی نظوم میں مناظرِ فطرت کے بے مثال مرقع پیش کئے۔ عوام کے مشاغل‘ میلے ٹھےلے‘ تہوار اور آپس میں میل ملاپ کی ہو بہو تصاویر انہوں نے سیدھے سادھے مﺅثر انداز میں کھینچ دی ہیں کہ ان پر مبالغے کا گمان نہیں ہوتا۔ عکسِ کلام درج ذیل ہے دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی نادار و بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی نعمت جو کھارہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی ٹکڑے جو مانگتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی (آدمی نامہ) پروفیسر سجاد باقر رضوی کے مطابق: نظیر فطری نقطہ نگاہ سے انسان کو نہیں دیکھتے‘ وہ انسانی نقطہ نگاہ سے فطرت کو دیکھتے ہیں۔ (۲) روایتی شاعری سے بغاوت نظیر کی شاعری کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے گل و بلبل‘ کاکل و عارض اور وصل و فراق کی شاعری کو بالکل ترک کردی۔ انہوں نے غزل کی بجائے نظم کو اظہار کا وسیلہ بنایا انہوں نے اردو نظم نگاری کو بلندی و وسعت عطا کی اور اس کی ذریعے تعمیری و افادی ادب تخلیق کیا۔ انہوں نے اپنے کلام سے وعظ و نصیحت کا ایسا کام لیا کہ ایک زمانہ اس کا معترف ہے اس نے کلام کا ہر رنگ بے مثال ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اثروجذب مین ڈوبا ہوا ہے اور یہ چیز اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتی جب تک شاعر کا دل مخلص نہ ہو۔ نظیر میں یہ صفت موجود تھی۔ نظیر کی تمام شاعری حالی کے اس شعر کی تفسیر ہے اے شعر! دل فریب نہ ہو تو تو غم نہیں پر تجھ پہ ہے جو نہ ہو دل گداز تو مجنوں گورکھپوری فرماتے ہیں: غدر کے بعد اردو شاعری نے جو جنم لیا اس میں شعوری اور غیر شعوری طور پر نظیر کا اثر کام کررہا ہے۔ (۳) ادب برائے زندگی نظیر نے ہماری نظم نگاری کو تمام زندگی اور اس کے مسائل کا ترجمان بنادیا اوریوں ادب زندگی کا آئینہ بن گیا۔ وہ صرف موضوعات کے انتخاب کے ذریعے ہی ادب اور زندگی کی قربت کا وسیلہ نہ بنے بلکہ انہوں نے بول چال کے عام الفاظ کو اپنی شاعری میں استعمال کیا۔ ڈاکٹر فیلن نے نظیر کی شاعری کے بارے میںایک جگہ تحریر کیا ہے: صرف یہی ایک شاعر ہے جس کی شاعری اہلِ فرنگ کے نصاب کے مطابق سچی شاعری ہے۔ نظیر کی ایک نظم زر کا ایک بند ملاحظہ ہو دنیا میں کون ہے جو نہیں مبتلائے زر جتنے ہیں سب کے دل میں بھری ہے ہوائے زر آنکھوں میں دل میں جان میں سینے میں فائے زر ہم کو بھی کچھ تلاش نہیں اب سوائے زر جو ہے سو ہو رہا ہے سرا مبتلائے زر ہر اک یہی پکارے ہی دن رات ہوئے زر (۴) نرالے اسالیب نظیر کے دل کی بات ہرشخص کے دل کی بات ہوتی ہے۔ اندازِ بیان میں اگرچہ اچھوتا پن بھرا ہوتا ہے۔ یہی شاعری کی اصل خصوصیت ہوتی ہے یعنی جذبات و خیالات سادہ ہوں اور اسالیب نرالے۔ نظیر نے اپنی نظموں میں یہی کیا ہے۔ انہوں نے خود ہمارے دل کی باتیں ہم کو بتائی ہیں۔ جن باتوں کو عموماً ہم بھولے رہتے ہیں نظیر ان باتو ں کو اس طرح یاد دلاتے ہیں کہ پھر کبھی ہم ان کو بھول نہیں سکتے۔ ان کی شاعری اس شعر کی تفسیر ہے افسانہ تیرا رنگین روداد تیری دلکش شعر و سخن کو تونے جادو بنا کے چھوڑا ان کی نظم برسات کی بہاریں سے اقتباس ہے گر کر کسی کے کپڑے دلدل میں ہیں معطر اک دو نہیں پھسلتے کچھ اس مےں آن اکثر پھسلا کوئی‘ کسی کا کیچڑ میں منہ گیا بھر ہوتے ہیں سیکڑوں کے سر نیچے پاﺅں اوپر کیا کیا مچی ہیں یاروں برسات کی بہاریں (۵) عوامی شاعری نظیر اکبر آبادی کو عوامی شاعر کہا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں عوام کے مسائل کو عوامی زبان میں ادا کیا۔ وہ ہندومسلم سب کے غم و ماتم میں شریک نظر آتے ہیں۔ عید‘ شب برات‘ ہولی‘ دیوالی‘ دسیرہغرض ہر تہوار پر نظم لکھتے ہیں۔ ایک خواجہ معین الدین اجمیری کی تعریف کرتے ہیں تو دوسری طرف گرو نانک کو بھی نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اختر ادرینوی کہتے ہیں: نظیر نے جنتا(عوام) کے سورج سے اپنی زندگی اور شاعری کا دیا جلایا ہے۔ (۶) منظر نگاری نظیر کو زبان و بیان پر بڑی قدرت حاصل تھی۔ وہ منظر نگاری میں بڑا کمال رکھتے ہیں۔ ان کا مطالعہ جزئیات بڑا وسیع ہے۔ جزئیات نگاری میں وہ بے شک میر انیس کے ہم پلہ ہیں۔ نیاز فتح پوری کہتے ہیں: نظیر کے کلام کی خصوصیت ان کا مطالعہ جزئیات ہے جس وقت وہ کسی منظر کی تصویر کھینچتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے ایک ایک زرے کا حساب لے رہا ہے۔ عکسِ کلام درج ذیل ہے مفلس کی کچھ نظر نہیں رہتی ہے آن پر دیتا ہے اپنی جان وہ ایک ایک نان پر ہر آن ٹوٹ پڑتا ہے روٹی کے خوان پر جس طرح کتے لڑتے ہےں ایک استخوان پر ویسا ہی مفلسوں کو لڑاتی ہے مفلسی (۷) ظرافت نظیر کی طبیعت میں ظرافت کا مادہ بہت نمایاں ہے۔ اس ظرافت کا اثر ان کے فن مےں بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ ان کی واقعیت پسندی فطرت کے خزانے سے انہیں ظرافت کا سرمایہ فراہم کرتی ہے۔ پروفیسر سہیل احمد کہتے ہیں: نظیر کی ظرافت تنقید سے زیادہ محض انکشاف حقیقت سے پیدا ہوتی ہے۔ نظیر کے کلام کی ایک جھلک ذیل میں ملاحظہ فرمایے مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں بنتے ہیں آدمی ہی امام اور خطبہ خواں پڑھتے ہیں آدمی ہی قرآن اور نماز یاں اور آدمی ہی ان کی چراتے ہیں جوتیاں جو ان کو تاڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی (۸) بے ثباتی دنیا کے نقوش نظیر تقریباً میر کے ہم عصر تھے۔ اس دور مین شمالی ہندوستان مختلف جنگجو طاقتوں کی ہوس کا نشانہ بنایا ہوا تھا۔ ایسے پر آشوب دور میں بے ثباتی دنیا کا نقش ہرشخص کے دل میں بیٹھا ہوا تھا حتی کہ نظیر جیسا خوش باش اور مست آدمی بھی اس رنگ سے دامن نہ بچاسکا۔ لیکن نظیر غریب کو ڈرانے کے لئے نہیں بلکہ امیر کے دل میں خوفِ خدا پیدا کرنے کے لئے بے ثباتی دنیا کا ذکر چھیڑدیتے ہیں۔ نظیر کی ایک نظمبنجارہ نامہ کا ایک اقتباس ذیل مین درج ہے کچھ کام نہی آوے گا تیرے یہ لعل و زمرد سیم و زر جب پونجی بات مین بکھرے گی پھر آن بنے گی جان نقارے‘ نوبت‘ بان‘ نشان‘ دولت‘ حشمت‘ فوجیں‘ لشکر کیا مسنہ‘ تکیہ‘ ملک‘ مکان‘ کیا چوکی‘ کرسی‘ تخت‘چھپڑ سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ (۹) قلندرانہ لطف اندوزی نظیر بنیادی طور پر قلندر تھی۔ روکھی سوکھی کھاکر مست رہتے۔ ان کی انگلیان حالات کی نبض کو محسوس کرتیں لیکن وہ کسی چیز سے متاثر معلوم نہیں ہوتے۔ نظیر نے اپنے پر آشوب دور کی تلخ حقیقتوں کو گوارا کرنے کے لئے قلندرانہ انداز اپنالیا۔ ان کی نظمیں”من موجی“ ”پنجری کا عالم“ ”کوڑی نہ رکھ کفن کو“ اور ”ہر حال میں خوش“ اس رنگ کی نمائندہ نظمیں ہیں۔مندرجہ بالا نظموں کے اشعار ذیل میں درج ہیں ہر آن ہنسی‘ ہر آن خوشی ہر وقت امری ہے بابا جب عاشق‘ مست فقیر ہوئے پھر کیا دل گیری ہے بابا (من موجی) دل کی خوشی کی خاطر چکھ ڈال مال دھن کو گر مرد ہے تو عاشق کوڑی نہ رکھ کفن کو (کوڑی نہ رکھ کفن کو) افلاس میں ادبار میں اقبال میں خوش ہیں پورے ہیں وہی مرد جو ہر حال میں خوش ہیں (ہر حال میں خوش) حرفِ آخر نظیر اکبر آبادی اردو کے ایک منفرد و عظیم شاعر ہیں وہ آزرِ سخن ہیں۔ ڈاکٹر اعجاز حسین نے ان کے باری میں کہا ہے کہ: دہلی اور لکھنﺅ کے مرکزوں سے دور رہ کر انہوں نے اپنی ایک علیحدہ شاہراہ تیار کی جس پر خود چلے اور دوسرا کوئی اور ادھر قدم نہ بڑھا سکا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب ایک تعارف غالب غالباً اردو کے سب سے پہلے بڑے شاعر ہیں۔ میر جیسے عظیم فن کار سے لے کر غالب کے دور تک جتنے شعراءبھی گزرے ہیں۔ ان کی مہارت اور استادی کسی ایک فن کی مرہونِ منت ہے۔ میر غزلوں کے خدائے سخن ہیں۔ سودا قصائد اور ہجونگاری کے مردِ میدان ہیں۔ میر حسن مثنوی میں امتیازی حیثیت کے مالک ہےں لیکن غالب کا فن حدو د و رسوم سے بلند اور شاعری کے اعلی ترین معیار کا ترجمان ہے۔ وہ ایک ایسی شاعری کے نمائندے ہےں جہاں سے پیغمبری کی حدیں شروع ہوجاتی ہیں۔ بقول شیخ محمد اکرام: تاج محل سنگِ مرمر کی تراش خراش کا بہترین امتزاج ہے اسکی نقش نگاری کو ہیرے جواہرات کی جڑاﺅ کاری نے بہترین مرقع بنادیاہے۔ اسی طرح غالب کی شاعری اور ان کا کلام ہے۔ جسطرح مغلوں کا نام روشن رکھنے کے لئے ایک تاج محل کا نام کافی ہے اس طرح اردو غزل گوئی کو حیاتِ جاوداں بخسنے کے لئے غالب کا دیوان کافی ہے۔ خود غالب کا یہ دعوی ہے ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے کہتے ہیں غالب کا ہے اندازِ بیان اور غالب کا یہ دعوی صرف دعوی ہی نہیں حقیقت ہے۔ جسے ہر دور کے دانشوروں نے تسلیم کیا ہے ۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی فرماتے ہیں: عہدِ مغلیہ نے ہندوستان کو تین چیزیں عطا کیں تاج محل‘ اردو زبان اور مرزا اسدا للہ خان غالب۔ غالب کے محاسنِ کلام غالب کے محاسنِ کلام ذیل مین درج میں درج ہیں۔ (۱) فلسفیانہ لہجہ غالب فلسفی شاعر تھے۔ تخیل پروازی اور فلسفیانہ انداذِ بیان انکے کلام پر حاوی ہے اور اس میں ان کا کوئی معاصر انکے مدِ مقابل نظر نہیں آتا۔ مثال کے طور پر ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا نقشِ فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا (۲) تصوف کا رنگ غالب کی غزل میں ہمیں تصوف کے حقائق بھی جابجا ملتے ہیں۔ جب وہ اس کائنات کو صوفی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو معرفت کے نہایت پاکیزہ اور باریک نکتے بیان کرتے ہیں۔ بقول آل احمد سرور: ان کا سارا فلسفہ اور تصوف انکے فکرِ روشن کی کرشمہ سازی کا نام ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ عکسِ کلام درج ذیل ہے یہ مسائلِ تصوف یہ تیرا بیان غالب تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا محرم نہیں ہے تو ہی نوہائے راز کا ہاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا (۳) عاشقانہ رنگ غالب کی رائے میں جذبہ عشق ہی ہنگامہ عالم کی بنیاد ہے۔ زندگی کی تمام رونقیں اور لذتیں جذبہ عشق کی بدولت قائم و دائم ہیں۔ مثال کے طور پر نمونہ کلام ذیل میں درج ہے عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا درد کی دوا پائی درد لا دوا پایا ان کے دیکھے سو چہرے پہ آجاتی ہے رونق وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے (۴) رشک و حسد رشک غالب کا محبوب مضمون ہے۔ وہ رقیب کے علاوہ اپنی ذات سے بھی رشک کرتے ہیں۔ بلکہ بعض انہیں خدا سے بھی رشک ہوجاتا ہے۔ مثلاً ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے مرتے ہیں کہ ان کی تمنا نہیں کرتے چھوڑا نہ رشک نے کہ تیرے گھر کا نام لوں ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جاﺅں کدھر کو میں (۵) غم پسندی غالب کے نظریہ زندگی کہ مطابق زندگی کے ہنگاموں میں احساسِ غم کا بہت بڑا حصہ ہے۔ زندگی کی یہ گہماگہمی نغمہِ الم اور غم کی وجہ سے قائم ہے۔ نمونہ کلام درج ذیل ہے قیدِ حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں غمِ ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگِ علاج شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے (۶) حقیقت پسندی غالب کی نظر انسانی فطرت کی گہرائیوں تک پہنچتی ہے۔ انہیں انسانی نفسیات کا گہرا شعور حاصل ہے اور انہیں نے اپنے اس شعور سے نہایت مفید نتائج اخذ کےے ہیں۔ مثلاً ہوچکیں غالب بلائیں سب تمام اک مرگ ناگہانی اور ہے رنج سی خوگر ہو انسان تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آساں ہوگئیں موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی (۷) ایجاز واختصار طویل مضامین کو مختصر الفاظ میں بیان کرنے کا جو سلیقہ غالب کے حصے میں آیا وہ بہت ہی کم شاعروں کو نصیب ہوا یعنی دریا کو کوزے میں بند کرنا۔ کلام کی اسی خصوصیت کو بلاغت کا جاتا ہے۔ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معانی پنہاں کرنا ان کی شاعری کا کمال ہے۔ مثلاً کیا کیا خضر نے سکندر سے اب کسے رہنما کرے کوئی ملنا اگر نہیں آساں تو سہل ہے دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں (۸) روز مرہ زبان اور محاورات کا استعمال غالب نے اپنے شاعر ی میں روزمرہ زبان اور محاورات کا بھی استعمال کیا ہے جس سے ان کے اشعار میں نکھار آگیا ہے۔ مثال کے طور پر نمونہ کلام درج ذیل ہے ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرگے لیکن خاک ہوجائیں گے ہم‘ تم کو خبر ہونے تک آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک (۹) عظمتِ انسانی غالب جب اپنے ماحول میں انسان کوذلت کی بستیوں میں گراہوا دیکھتا ہے تو پکار اٹھتا ہے۔مثلاً ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آسان ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا (۰۱) رندی ہمیں غالب کی غزل میں رندانہ مضامین کی چاشنی بھی ملتی ہے کعبہ کس منہ سے جاﺅ گے غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی پلادے اوک سے ساقی جو مجھ سے نفرت ہے پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے (۱۱) سہلِ ممتنع غالب کا کلام سہلِ ممتنع کی ایک بلند و بالا خصوصیت کا حامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بات کو اس قدر آسان انداز اور پیرائے میں بیان کیا جائے کہ سننے والا یہ سمجھے کہ وہ بھی اس طرح بات کرسکتا ہے۔ مگر جب کرنے بیٹھے تو عاجز ہوجائے۔ ان کے کلام میں سادگی اور پرکاری کی کیفیت انتہائی کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔ بقول غالب کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی دلِ نادان تجھے ہوا کیا ہے آخر اس درد کی دوا کیا ہے (۲۱) شوخی و ظرافت غالب شعر میں اظہار غم کے موقع پر جب شوخی یا طنز سے کام لیتے ہیں تو غم میں بھی شگفتگی اور زندہ دلی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔نمونہ کلام ذیل میں درج ہے ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے کیا فرض ہے سب کو ملے ایک سا جواب آﺅ نہ ہم سیر کریں کوہِ طور کی حرفِ آخر حقیقت یہ ہے کہ غالب کی شاعری بڑی پہلو دار شاعری ہے۔ ان کی شخصیت اور شاعری پر مختصر سے وقت میں تبصرہ کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ اس لئے صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ غالب ہر دور میں غالب رہے گا۔غالب کی کلام کی مندرجہ بالا خصوصیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا کلام ایک وسیع دنیا ہے۔ اہلِ دانش نے سچ کہا ہے کہ غالب اردو کی آبرو اور عروسِ غزل کا سہاگ ہیں۔ پروفیسر عزیز احمد کے یہ الفاظ غالب کی عظمت کو بیان کرنے کیلئے حروفِ آخر کا درجہ رکھتے ہیں: وہ ایک طرح کے شاعرِ آخرالزماں ہیں جن پر ہزار ہا سال کی اردو اور فارسی شاعری کا خاتمہ ہوا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب ایک تعارف غالب غالباً اردو کے سب سے پہلے بڑے شاعر ہیں۔ میر جیسے عظیم فن کار سے لے کر غالب کے دور تک جتنے شعراءبھی گزرے ہیں۔ ان کی مہارت اور استادی کسی ایک فن کی مرہونِ منت ہے۔ میر غزلوں کے خدائے سخن ہیں۔ سودا قصائد اور ہجونگاری کے مردِ میدان ہیں۔ میر حسن مثنوی میں امتیازی حیثیت کے مالک ہےں لیکن غالب کا فن حدو د و رسوم سے بلند اور شاعری کے اعلی ترین معیار کا ترجمان ہے۔ وہ ایک ایسی شاعری کے نمائندے ہےں جہاں سے پیغمبری کی حدیں شروع ہوجاتی ہیں۔ بقول شیخ محمد اکرام: تاج محل سنگِ مرمر کی تراش خراش کا بہترین امتزاج ہے اسکی نقش نگاری کو ہیرے جواہرات کی جڑاﺅ کاری نے بہترین مرقع بنادیاہے۔ اسی طرح غالب کی شاعری اور ان کا کلام ہے۔ جسطرح مغلوں کا نام روشن رکھنے کے لئے ایک تاج محل کا نام کافی ہے اس طرح اردو غزل گوئی کو حیاتِ جاوداں بخسنے کے لئے غالب کا دیوان کافی ہے۔ خود غالب کا یہ دعوی ہے ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے کہتے ہیں غالب کا ہے اندازِ بیان اور غالب کا یہ دعوی صرف دعوی ہی نہیں حقیقت ہے۔ جسے ہر دور کے دانشوروں نے تسلیم کیا ہے ۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی فرماتے ہیں: عہدِ مغلیہ نے ہندوستان کو تین چیزیں عطا کیں تاج محل‘ اردو زبان اور مرزا اسدا للہ خان غالب۔ غالب کے محاسنِ کلام غالب کے محاسنِ کلام ذیل مین درج میں درج ہیں۔ (۱) فلسفیانہ لہجہ غالب فلسفی شاعر تھے۔ تخیل پروازی اور فلسفیانہ انداذِ بیان انکے کلام پر حاوی ہے اور اس میں ان کا کوئی معاصر انکے مدِ مقابل نظر نہیں آتا۔ مثال کے طور پر ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا نقشِ فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا (۲) تصوف کا رنگ غالب کی غزل میں ہمیں تصوف کے حقائق بھی جابجا ملتے ہیں۔ جب وہ اس کائنات کو صوفی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو معرفت کے نہایت پاکیزہ اور باریک نکتے بیان کرتے ہیں۔ بقول آل احمد سرور: ان کا سارا فلسفہ اور تصوف انکے فکرِ روشن کی کرشمہ سازی کا نام ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ عکسِ کلام درج ذیل ہے یہ مسائلِ تصوف یہ تیرا بیان غالب تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا محرم نہیں ہے تو ہی نوہائے راز کا ہاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا (۳) عاشقانہ رنگ غالب کی رائے میں جذبہ عشق ہی ہنگامہ عالم کی بنیاد ہے۔ زندگی کی تمام رونقیں اور لذتیں جذبہ عشق کی بدولت قائم و دائم ہیں۔ مثال کے طور پر نمونہ کلام ذیل میں درج ہے عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا درد کی دوا پائی درد لا دوا پایا ان کے دیکھے سو چہرے پہ آجاتی ہے رونق وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے (۴) رشک و حسد رشک غالب کا محبوب مضمون ہے۔ وہ رقیب کے علاوہ اپنی ذات سے بھی رشک کرتے ہیں۔ بلکہ بعض انہیں خدا سے بھی رشک ہوجاتا ہے۔ مثلاً ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے مرتے ہیں کہ ان کی تمنا نہیں کرتے چھوڑا نہ رشک نے کہ تیرے گھر کا نام لوں ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جاﺅں کدھر کو میں (۵) غم پسندی غالب کے نظریہ زندگی کہ مطابق زندگی کے ہنگاموں میں احساسِ غم کا بہت بڑا حصہ ہے۔ زندگی کی یہ گہماگہمی نغمہِ الم اور غم کی وجہ سے قائم ہے۔ نمونہ کلام درج ذیل ہے قیدِ حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں غمِ ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگِ علاج شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے (۶) حقیقت پسندی غالب کی نظر انسانی فطرت کی گہرائیوں تک پہنچتی ہے۔ انہیں انسانی نفسیات کا گہرا شعور حاصل ہے اور انہیں نے اپنے اس شعور سے نہایت مفید نتائج اخذ کےے ہیں۔ مثلاً ہوچکیں غالب بلائیں سب تمام اک مرگ ناگہانی اور ہے رنج سی خوگر ہو انسان تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آساں ہوگئیں موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی (۷) ایجاز واختصار طویل مضامین کو مختصر الفاظ میں بیان کرنے کا جو سلیقہ غالب کے حصے میں آیا وہ بہت ہی کم شاعروں کو نصیب ہوا یعنی دریا کو کوزے میں بند کرنا۔ کلام کی اسی خصوصیت کو بلاغت کا جاتا ہے۔ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معانی پنہاں کرنا ان کی شاعری کا کمال ہے۔ مثلاً کیا کیا خضر نے سکندر سے اب کسے رہنما کرے کوئی ملنا اگر نہیں آساں تو سہل ہے دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں (۸) روز مرہ زبان اور محاورات کا استعمال غالب نے اپنے شاعر ی میں روزمرہ زبان اور محاورات کا بھی استعمال کیا ہے جس سے ان کے اشعار میں نکھار آگیا ہے۔ مثال کے طور پر نمونہ کلام درج ذیل ہے ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرگے لیکن خاک ہوجائیں گے ہم‘ تم کو خبر ہونے تک آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک (۹) عظمتِ انسانی غالب جب اپنے ماحول میں انسان کوذلت کی بستیوں میں گراہوا دیکھتا ہے تو پکار اٹھتا ہے۔مثلاً ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آسان ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا (۰۱) رندی ہمیں غالب کی غزل میں رندانہ مضامین کی چاشنی بھی ملتی ہے کعبہ کس منہ سے جاﺅ گے غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی پلادے اوک سے ساقی جو مجھ سے نفرت ہے پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے (۱۱) سہلِ ممتنع غالب کا کلام سہلِ ممتنع کی ایک بلند و بالا خصوصیت کا حامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بات کو اس قدر آسان انداز اور پیرائے میں بیان کیا جائے کہ سننے والا یہ سمجھے کہ وہ بھی اس طرح بات کرسکتا ہے۔ مگر جب کرنے بیٹھے تو عاجز ہوجائے۔ ان کے کلام میں سادگی اور پرکاری کی کیفیت انتہائی کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔ بقول غالب کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی دلِ نادان تجھے ہوا کیا ہے آخر اس درد کی دوا کیا ہے (۲۱) شوخی و ظرافت غالب شعر میں اظہار غم کے موقع پر جب شوخی یا طنز سے کام لیتے ہیں تو غم میں بھی شگفتگی اور زندہ دلی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔نمونہ کلام ذیل میں درج ہے ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے کیا فرض ہے سب کو ملے ایک سا جواب آﺅ نہ ہم سیر کریں کوہِ طور کی حرفِ آخر حقیقت یہ ہے کہ غالب کی شاعری بڑی پہلو دار شاعری ہے۔ ان کی شخصیت اور شاعری پر مختصر سے وقت میں تبصرہ کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ اس لئے صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ غالب ہر دور میں غالب رہے گا۔غالب کی کلام کی مندرجہ بالا خصوصیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا کلام ایک وسیع دنیا ہے۔ اہلِ دانش نے سچ کہا ہے کہ غالب اردو کی آبرو اور عروسِ غزل کا سہاگ ہیں۔ پروفیسر عزیز احمد کے یہ الفاظ غالب کی عظمت کو بیان کرنے کیلئے حروفِ آخر کا درجہ رکھتے ہیں: وہ ایک طرح کے شاعرِ آخرالزماں ہیں جن پر ہزار ہا سال کی اردو اور فارسی شاعری کا خاتمہ ہوا۔ حسرت موہانی ایک تعارف ہے زبان لکھنﺅ میں رنگ دہلی کی نمود تجھ سے حسرت نام روشن شاعری کا ہوگیا رئیس المتغزلین‘ مولانا حسرت موہانی کا نام ایسے باکمال شعراءمیں سرِ فہرست آتا ہے جو غزل دشمن تحریک کے مقابل صف آراءہوتے اور انہوں نے اس صنف شاعری کو از سرِ نو مقبول بنانے کے لئے اپنی فکری توانائیاں مخصوص کردیں۔ جب انہوں نے ایک نئے انداز سے غزل کہی جس میں فرسودہ مضامین کو نئی آواز اور توانائی کے ساتھ پیش کیا تو لوگ پھر غزل کی طرف متوجہ ہوگئے اس طرح حسرت غزل کو دوبارہ زندگی عطا کی اور” رئیس المتغزلین“ کہلائے۔ان کی شاعری میں دہلوی اور لکھنﺅی شاعری کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ انہوں نے میر‘ مصحفی‘ جرات‘ غالب‘ مومن اور نسیم کے رنگ کو پسند کیا جس کی وجہ سے تمام رنگ ان کی شاعری میں قوسِ قزح کی طرح جمع ہوگئے۔ بلاشبہ وہ دور جدید کے کامیاب ترین غزل گو شاعر ہیں۔ مجنوں گورکھپوری کہتے ہیں: حسرت نے غزل کی نرم و نازک فطرت کو خوب سمجھا ہے۔ حسرت کے محاسنِ کلام حسرت کے محاسنِ کلام ذیل مین درج ہیں۔ (۱) عاشقانہ رنگ حسرت کی شاعری میں ان کا عاشقانہ رنگ سب سے گہرا ہے اور ان کی پروازِ تخیل ان کو اس میدان کا شہسوار بناتی ہے‘ جو خصائل ان کی عاشقی کے ہیں وہی ان کی شاعری کے بھی ہیں۔ وہ جذبات کے شاعر ہیں اور انہیں جذبات کو اپنی شاعری میں سموتے ہیں۔ آپ بیٹھیں تو سہی آکے مرے پاس کبھی کہ میں فرصت میں حدیث دل دیوانہ کہوں حسن بے پروا کو خودبیں و خود آرا کردیا کیا کیا میں نے اظہارِ تمنا کردیا جذب شوق کدھر کو لئے جاتا ہے مجھے پردہ راز سے کیا تم نے پکارا ہے مجھے (۲) جدتِ خیال حسرت کی غزل خالص زمینی ہے۔ اس لئے ہر دم تازہ اور جواں ہے۔حسرت کے یہاں محبوب کی رسوائی کی باتیں ہیں نہ اس کے دام کی‘ نہ چیرہ دستی کی ‘ آنسو پینے کی نہ ہی خار مغلیلاں ہیں بلکہ وہ انئے دبستان کے بانی ہیں۔ بقول رشید احمد صدیقی: اردو کا کوئی شاعر ایسا نظر نہیں آتا جس کا محبوب اور جس کی عشق ورزی اتنی جانی پہچانی اتنی شائستہ اور اتنی نارمل ہو جتنی حسرت کی۔ بقول حسرت توڑ کر عہد کرم ناآشنا ہوجائیں بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہوجائیں خرد کا نام جنوں پڑگیا جنوں کا خِرد جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ہے انتہائے یاس بھی اک ابتدائے شوق پھر آگئے وہیں پہ چلے تھے جہاں سے ہم (۳) احترام حسن و عشق حسرت نے عشق و محبت کے نازک اور لطیف جذبات اور ان کے اتار چٹھاﺅ کی بھر پور انداز میں تصویر کشی کی لیکن ان کا اظہار باوقار پیرائے میں کیا ہے۔ پروفیسر امجد علی شاکر کہتے ہیں: حسرت محبوب کا خاصا احترام کرتے ہیں وہ اسے داغ کی طرح ذلیل کرنے پر تلے ہوئے نہیں۔ عکسِ کلام درج ذیل ہے دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا شیوہ عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا ترے کرم کا سزاوار تو نہیں حسرت اب آگے تری خوشی ہے جو سرفراز کرے عاشق حسن جفاکار کا شکوہ ہے گناہ تم خبردار خبردار نہ ایسا کرنا (۴) ہمہ گیر رنگ حسرت کی شاعری میں جہاں جدت خیال ہے وہاں شعرائے متقدمین و متاخرین کا رنگ بھی تمام خصوصیات مل کر ایک نیا رنگِ تغزل پیدا کردیتی ہے جو دورِ حاضر کا معیار ہے۔مثال کے طور پر غالب و معحفی و میر و نسیم و مومن طبع حسرت نے اٹھایا ہے ہر استاد سے فیض طرز مومن میں مرحبا حسرت تیری رنگین نگاریاں نہ گئیں شیرینی نسیم ہے‘ سوزوگداز میر حسرت تیرے سخن پہ ہے لطف سخن تمام (۵) عارفانہ رنگ حسرت کی زندگی درویشانہ بلکہ قلندرانہ قسم کی تھی وہ صوفی ہونے کے باوجود زمینی عاشق بھی ہےں۔ حسرت کی شاعری میں گوکہ یہ رنگ اتنا گہرا نہیں مگر ہے ضرور۔ ہم کیا کرےں نہ تیری اگر آرزو کریں دنیا میں اور کوئی بھی تیرے سوا ہے کیا (۶) ندرتِ ادا حسرت کی ایک خوبی یہ بھی ہے کاہ پرانے اور فرسودہ مضامین کو نئے اسلوب اور نرالے انداز میں پیش کرتے ہیں کہ شعر کا لطف دوبال ہوجاتا ہے۔ ہوکے نادم وہ بیٹھے ہیں خاموش صلح میں شان ہے لڑائی کی (۷) سادگی حسرت کی شاعری سادگی و سلاست سے پر ہے ۔ ان کے یہاں نہ ہی خیالات کی پیچیدگی ہے اور نہ ہی صنائع و بدائع بلکہ ایک توازن و اعتدال کی کیفیت ملتی ہے۔ دل ہے نادان کے تیری صورتِ زیبا دیکھی انکھ حیران کہ اک حسن کی دنیا دیکھی (۷) عوامی رنگ مولانا حسرت کی غزلیات میں فکری بلندی‘ گہرائی و اعلی شعور‘ اخلاقی اقدار‘ عام مشاہدات اور تجربے بڑے واضح اور شائستہ انداز مین پائے جاتے ہیں۔ انکے غزل کے مضامین وہ ہیں جو ہر شخص کو اپنی زندگی میں پیش آسکتے ہیں۔ مثلاً بھلاتا لاکھ ہوں لیکن وہ برابر یاد آتے ہیں اسی ترکِ الفت پروہ کیوں کر یاد آتے ہیں (۸) جذبات نگاری جذبات نگاری کی مصوری میں حسرت کو ملکہ حاصل ہے۔ ان کی بعض غزلیں لکھنو کی شاعری سے قریب تر ہیں۔ لیکن ان میں وہ بے باکی اور نیرنگی نہیں ہے جس سے اگثر شعرائے لکھنﺅ کے دیوان بھرے پڑے ہیں۔ آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہارِ حسن آیا میرا خیال تو شرما کہ رہ گئے (۹) رجائیت حسرت کے یہاں ہمیں گریہ وزاری اور ماتم گساری نہیں ملتی۔ غم کے تیر سے وہ بھی گھائل ہوتے ہیں۔ یہ غم عشق ہے جو اپنے اندر نشاط کے سارے انداز چھپائے ہوئے ہے۔ قوتِ عشق بھی کیا شے ہے کہ ہو کر مایوس جب کبھی گرنے لگا ہوں تو سنبھالا ہے مجھے دلوں کو فکر دو عالم سے کردیا آزاد ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے (۰۱) معاملہ بندی حسرت کے یہاں معاملہ بندی عشق و محبت کی حرف و حکایت کی صورت میں نظر آتی ہے ہوسنا کی شکل میں نہیں۔ بقول ڈاکٹر یوسف حسین: حسرت کی غزل سرائی عشق و محبت کی قلبی وارداتوں اور اس کی جاودانی کیفیتوں کی داستان ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اس داستان کے ہیرو ہیں۔ مثلاً کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونہ دفعتاً اور دوپٹہ سے ترا منہ کو چھپانا یاد ہے مائل بہ شوق مجھے پاکے وہ بولے ہنس کر دیکھو تم نے جو چھوئے آج ہمارے گیسو معروف تنقید نگاروں کی آرائ ڈاکٹر سیدعبداللہ کہتے ہیں: حسرت محبت کے خشگوار ماحول کے بہترین اور مقبول ترین مصور اور ترجمان تھے۔ وہ خالص غزل کے شاعر تھے۔ آل احمد سرور لکھتے ہیں: اردو غزل کی نئی نسل کی ابتداءحسرت ہی سے ہوئی ہے۔ حسرت اردو غزل کی تاریخ مین جدید و قدیم کے درمیان ایک عبودی حیثیت رکھتے ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالی ایک تعارف افسانہ تیرا رنگین‘ روداد تیری دلکش شعر و سخن کو تونے جادو بنا کے چھوڑا مولانا الطاف حسین حالی کو اردو ادب میں بے حد اہمیت حاصل ہے۔ اس کے پہلی وجہ آپ اردو نثر میں اور اردو نظم دونوں مےں یکساں مقبولیت اور دوسری خاص وجہ یہ ہے کہ حالی دورِ جدید اور دور متوسطین کے درمیان ایک مضبوط کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غالب‘ شیفتہ اور مومن جیسے بلند پایا شاعروں سے جتنی بھی قربت آپ کو حاصل تھی اس نے آپ کی فنکارانہ صلاحیتوں کو بہت زیادہ جلا بخشی۔ حالی نے دورِ جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے میں دورِ قدیم کی خوبیوں کو نظر انداز نہیں کیا۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: انیسویں صدی مین کسی شخص نے ہماری زبان و ادب پر ایسے گراں قدر احسانات نہیں کیے جتنے حالی نے کےے۔ وہ ہماری شاعری کے امام اور مجتہد ہیں۔ حالی کے محاسنِ کلام مولانا الطاف حسین حالی کے محاسنِ کلام ذیل میں درج ہیں۔ (۱) اسلوبِ نگارش محترمہ صالحہ عابد حسین نے یادگارِ حالی میں حالی کے اسلوب کی بڑی جامع تعریف کی وہ فرماتی ہیں: انہوں نے میر سے دردِ دل لیا‘ درد سے تصوف کی چاشنی لی‘ غالب سے حسنِ خیال‘ ندرتِ گکر اور شوخی گفتار سیکھی‘ سعدی سے بیان کی سادگی و معنی آفرینی‘ شیفتہ سے سیدھی سادھی باتوں کو دلفریب بنانے کا حسن۔ وہ جذبات و احساسات کو اس ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں کہ ان مین دل کی سچی لگن اور اس کی یہ دھڑکن صاف سنائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جاکر نظر کہاں (۲) سادگی و پرکاری حالی کے کلام کی نمایاں خوبی سادگی و سلاست تھی۔ انہوں نے اپنی نظموں اور غزلوں دونوں مین عام فہم زبان‘ آسان اور سبک الفاظ استعمال کئے ہیں۔ وہ تکلف اور تصنع سے بچتے ہیں اور نہایت فطری انداز مے ناپنے جذبات ادا کرتے ہیں۔ الفاظ سادہ ضرور ہوتے ہیں مگر ساتھ ساتھ نہایت موثر اور دلنشین ہوتے ہیں۔سادگی کی تعریف کرتے ہوئے الطاف حسین حالی مقدمہ شعر و شاعری میں لکھتے ہیں: سادگی سے صرف لفظوں کی سادگی مراد نہیں بلکہ خیالات ایسے نازک اور دقیق نہ ہوں جن کو سمجھنے کی عام ذہنوں میں گنجائش نہ ہو۔ مثلاً رنج اور رنج بھی تنہائی کا وقت پہنچا میری رسوائی کا سخت مشکل ہے شیوہ تسلیم ہجر بھی آخر کو جی چرانے لگے (۳) صداقت و خلوص صداقت کا جوہرحالی کی زندگی‘ شاعری اور نثر میں ہر جگہ جھلکتا نظر آتا ہے۔ وہ جذبہ و خیال کو حقیقت و صداقت کی زبان مین ادا کرتے ہیں۔ حالی شاعری میں جھوٹ اور مبالغے کے خلاف ہیں۔ اور اصلیت کو اس کی بنیادی صفت قرار دیتے ہیں۔ معاملات عشق و محبت ہوں یا قومی و ملی افکار و خیالات‘ حالی صداقت کا دامن تھامے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں تاثیر پیدا ہوگئی ہے۔ دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام کشتی کسی کی پار ہو یا درمیان رہے ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی جی چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں (۴) غزل کو توسیعی تصور حالی نے غزل کے قدیم سانچوں کو توڑ کر اس کی ترقی کیلئے نئی راہوں کی نشاندہی کردی ہے۔ غزل کی محدود دنیا اور آداب غزل کا لگا بندھا تصور جو مانگے تانگے کے قدیم احساسات اور خیالات کے لئے وضع ہواتھا حالی کیلئے قابلِ قبول نہ تھا۔ ان کا لہجہ اس مہدود شاعرانہ زبان سے گریزاں تھا۔ اس لئے انہوں نے غزل کی سابق حد بندی توڑ کر اجتماعی موضوعات اور قومی اور سماجی خیالات کو غزل مین داخل کیا۔ انہوں نے عام بول چال اور زندگی سے اخذ کردہ حقیقی اور ذاتی تجربات کو اپنی شاعری میں اس طرح ڈھالا کہ شعر کا حسن بگڑنے نہ پایا۔ اب بھاگتے ہیں سایہ زلف بتاں سے ہم کچھ دل سے ہیں ڈرتے ہوئے کچھ آسماں سے ہم (۵) سوزو گذاز حالی کی غزل میں سوزوگداز کا عنصر نمایاں طور پر نطر آتا ہے۔ خصوصاً ان کی وہ شاعری دردوغم اور سوزوگداز سے لبریز ہے۔ جو انہوں نے سرسید کی اصلاحی تحریک مےن شمولیت سے پہلے کی تھی۔ حالی کی غزل کے بعض اشعار نشتر کی طرح دل مین اتر جاتے ہیں۔ عشق و محبت کے روایتی موضوعات کو وہ بعض اوقات نہایت بے ساختگی اور پر گداز لہجے میں بیان کرتے ہیں جس کی تپش دل کی گہرائیوں میں سرایت کرجاتی ہے گر صاحب دل ہوتے‘ سن کر مری بے تابی تم کو بھی قلق ہوتا اور مجھ سوا ہوتا اس کے جاتے ہی ہوگئی کیا گھر کی صورت وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت عشق کہتے ہیں جسے سب وہ یہی ہے شاید خودبخود دل میں اک شخص سمایا جاتا (۶) دھیما لب و لہجہ غزل میں حالی کا لب و لہجہ شوخ و شنگ نہیں بلکہ نہایت ہلکا اور دھیما ہے۔ وہ گہرے اور پرسوز جذبات بھی بڑے سادہ اور ہلکے انداز مین بیان کرتے ہیں لیکن یہی دھیما انداز نہایت مﺅثر ہوتا ہے۔ چنانچہ حالی کے بعض اشعار دل میں خلش کی سی پیدا کردیتے ہیں اور بے اختیار تڑپ پیدا کردیتے ہیں ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو راست گوئی میں ہے رسوائی بہت کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زبان میں یارب اس اختلاط کا انجام ہو بخیر تھا ان کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں (۷) درسِ اخلاق ان کی شاعری میں اصلاحی اور اخلاقی مضامین کی کثرت ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری سے قوم کو پست حالت کو ابھارنے کی کوشش کی۔ نوجوان طبقہ کو تحریک و عمل کی ترغیب دی‘ ان کو تحصیل علم کیلئے آمادہ کیا‘ گداگری کے پیشے کی مذمت کی ‘ نوجوانوں کو بازاری عشق سے مضر اثرات سے آگاہ کیا اور ان کو محنت کی طرف مائل کیا۔ وہ اثر آفرین اور درد انگیز پیرائے میں بڑے پاکیزہ اخلاقی اور اصلاحی پیغام دیتے جیسے عیب اپنے گھٹاﺅ پر خبردار رہو گھٹنے سے کہیں نہ ان کے بڑھ جائے نہ غرور حالی راہ راست جو کہ چلتے ہیں سدا خطرہ انہیں گرگ کا نہ ڈر شیر کا آرہی ہے چاہِ یوسف سے صدا دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت (۹) حبِ وطن حالی کا کلام وطن کی سچی محبت کے نغموں اور قومی درد کے جذبات سے پر ہے۔ قوم کی طرح وطن کی محبت میں بھی ان کی آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں اے میرے وطن میرے بہشت بریں کیا ہو تیرے آسمان و زمیں وقت نازک ہے اپنے بیڑے پر موج حائل ہے اور ہوا ناساز معروف تنقید نگاروں کی آراہ پروفیسرآل احمد سرور لکھتے ہیں: حالی نے ایسا پرسوز راگ الاپا ہے جس کو سن کر خوبیدہ قوم چونک پڑی۔ بقول ایک نقاد: حالی کا نام ان کی قومی شاعری کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اگر حالی نہ ہوتے تو اقبال بھی نہ ہوتے۔ ڈاکٹرسید عبداللہ کہتے ہین: ان کی شاعری قدیم اور جدید کے درمیاں ایک پل کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ بقول الطاف حسین حالی مال ہے نایاب پر گاہک ہے اکثر بے خبر شہر میں کھولی ہے حالی نے دکان سب سے الگ حرفِ آخر غرض یہ کہ حالی کی غزلیں حسن و بیان‘ لطفِ زبان‘ جذبات نگاری‘ سوزو گداز اور سادگی و صفائی کے نہایت اعلی نمونے ہیں اور ان کی نظمیں خالصتاً افادی نقطہ نگاہ کی حامل ہیں۔ انہوں نے شاعری کو ملک و قوم کی اصلاح کا دریعہ بنایا۔ وہ اردو شعر و ادب کے بہت بڑے محسن تھے اور تاریخِ نظم اردو اور شاعری میں ہمیشہ زندہ رہیں گے حالی نشاط نغمہ ہے ڈھونڈتے ہو اب آئے ہو وقت صبح رہے رات بھر کہاں کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے اے بلبل کل نہ پہچان سکے گی گل تر کی صورت اس مضمون کو جناب احتشام حسین کے ان الفاظ پر ختم کیا جاسکتا ہے: حالی نے اپنے قدیم ادبی سرمائے کو پرکھنے اور اس مےن اچھے کو برے سے الگ کرلینے کے راز بتائے۔ انہوں نے روایتوں کا احترام کرتے ہوئے عقل سے کام لینے کی طرف مائل کی تاکہ بدلتے ہوئے حالات میں اپنی جگہ بنانے میں آسانی ہو۔ انہوں نے ادب کی بنیاد حقیقت اور اصلیت پر رکھنے پر زور دیا تاکہ ادب زندگی سے قریب تر آسکے۔حالی کے عہدے نے شاعری‘ تاریخ‘ مقابلہ نگاری‘ ناول نویسی‘ صحافت وغیرہ کے علاوہ تنقید کو بھی بہت کچھ دیا۔ اتنی کامیابی کسی کے لئے بھی قابلِ فخر ہوسکتی ہے مولانا الطاف حسین حالی ایک تعارف افسانہ تیرا رنگین‘ روداد تیری دلکش شعر و سخن کو تونے جادو بنا کے چھوڑا مولانا الطاف حسین حالی کو اردو ادب میں بے حد اہمیت حاصل ہے۔ اس کے پہلی وجہ آپ اردو نثر میں اور اردو نظم دونوں مےں یکساں مقبولیت اور دوسری خاص وجہ یہ ہے کہ حالی دورِ جدید اور دور متوسطین کے درمیان ایک مضبوط کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غالب‘ شیفتہ اور مومن جیسے بلند پایا شاعروں سے جتنی بھی قربت آپ کو حاصل تھی اس نے آپ کی فنکارانہ صلاحیتوں کو بہت زیادہ جلا بخشی۔ حالی نے دورِ جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے میں دورِ قدیم کی خوبیوں کو نظر انداز نہیں کیا۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: انیسویں صدی مین کسی شخص نے ہماری زبان و ادب پر ایسے گراں قدر احسانات نہیں کیے جتنے حالی نے کےے۔ وہ ہماری شاعری کے امام اور مجتہد ہیں۔ حالی کے محاسنِ کلام مولانا الطاف حسین حالی کے محاسنِ کلام ذیل میں درج ہیں۔ (۱) اسلوبِ نگارش محترمہ صالحہ عابد حسین نے یادگارِ حالی میں حالی کے اسلوب کی بڑی جامع تعریف کی وہ فرماتی ہیں: انہوں نے میر سے دردِ دل لیا‘ درد سے تصوف کی چاشنی لی‘ غالب سے حسنِ خیال‘ ندرتِ گکر اور شوخی گفتار سیکھی‘ سعدی سے بیان کی سادگی و معنی آفرینی‘ شیفتہ سے سیدھی سادھی باتوں کو دلفریب بنانے کا حسن۔ وہ جذبات و احساسات کو اس ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں کہ ان مین دل کی سچی لگن اور اس کی یہ دھڑکن صاف سنائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جاکر نظر کہاں (۲) سادگی و پرکاری حالی کے کلام کی نمایاں خوبی سادگی و سلاست تھی۔ انہوں نے اپنی نظموں اور غزلوں دونوں مین عام فہم زبان‘ آسان اور سبک الفاظ استعمال کئے ہیں۔ وہ تکلف اور تصنع سے بچتے ہیں اور نہایت فطری انداز مے ناپنے جذبات ادا کرتے ہیں۔ الفاظ سادہ ضرور ہوتے ہیں مگر ساتھ ساتھ نہایت موثر اور دلنشین ہوتے ہیں۔سادگی کی تعریف کرتے ہوئے الطاف حسین حالی مقدمہ شعر و شاعری میں لکھتے ہیں: سادگی سے صرف لفظوں کی سادگی مراد نہیں بلکہ خیالات ایسے نازک اور دقیق نہ ہوں جن کو سمجھنے کی عام ذہنوں میں گنجائش نہ ہو۔ مثلاً رنج اور رنج بھی تنہائی کا وقت پہنچا میری رسوائی کا سخت مشکل ہے شیوہ تسلیم ہجر بھی آخر کو جی چرانے لگے (۳) صداقت و خلوص صداقت کا جوہرحالی کی زندگی‘ شاعری اور نثر میں ہر جگہ جھلکتا نظر آتا ہے۔ وہ جذبہ و خیال کو حقیقت و صداقت کی زبان مین ادا کرتے ہیں۔ حالی شاعری میں جھوٹ اور مبالغے کے خلاف ہیں۔ اور اصلیت کو اس کی بنیادی صفت قرار دیتے ہیں۔ معاملات عشق و محبت ہوں یا قومی و ملی افکار و خیالات‘ حالی صداقت کا دامن تھامے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں تاثیر پیدا ہوگئی ہے۔ دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام کشتی کسی کی پار ہو یا درمیان رہے ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی جی چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں (۴) غزل کو توسیعی تصور حالی نے غزل کے قدیم سانچوں کو توڑ کر اس کی ترقی کیلئے نئی راہوں کی نشاندہی کردی ہے۔ غزل کی محدود دنیا اور آداب غزل کا لگا بندھا تصور جو مانگے تانگے کے قدیم احساسات اور خیالات کے لئے وضع ہواتھا حالی کیلئے قابلِ قبول نہ تھا۔ ان کا لہجہ اس مہدود شاعرانہ زبان سے گریزاں تھا۔ اس لئے انہوں نے غزل کی سابق حد بندی توڑ کر اجتماعی موضوعات اور قومی اور سماجی خیالات کو غزل مین داخل کیا۔ انہوں نے عام بول چال اور زندگی سے اخذ کردہ حقیقی اور ذاتی تجربات کو اپنی شاعری میں اس طرح ڈھالا کہ شعر کا حسن بگڑنے نہ پایا۔ اب بھاگتے ہیں سایہ زلف بتاں سے ہم کچھ دل سے ہیں ڈرتے ہوئے کچھ آسماں سے ہم (۵) سوزو گذاز حالی کی غزل میں سوزوگداز کا عنصر نمایاں طور پر نطر آتا ہے۔ خصوصاً ان کی وہ شاعری دردوغم اور سوزوگداز سے لبریز ہے۔ جو انہوں نے سرسید کی اصلاحی تحریک مےن شمولیت سے پہلے کی تھی۔ حالی کی غزل کے بعض اشعار نشتر کی طرح دل مین اتر جاتے ہیں۔ عشق و محبت کے روایتی موضوعات کو وہ بعض اوقات نہایت بے ساختگی اور پر گداز لہجے میں بیان کرتے ہیں جس کی تپش دل کی گہرائیوں میں سرایت کرجاتی ہے گر صاحب دل ہوتے‘ سن کر مری بے تابی تم کو بھی قلق ہوتا اور مجھ سوا ہوتا اس کے جاتے ہی ہوگئی کیا گھر کی صورت وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت عشق کہتے ہیں جسے سب وہ یہی ہے شاید خودبخود دل میں اک شخص سمایا جاتا (۶) دھیما لب و لہجہ غزل میں حالی کا لب و لہجہ شوخ و شنگ نہیں بلکہ نہایت ہلکا اور دھیما ہے۔ وہ گہرے اور پرسوز جذبات بھی بڑے سادہ اور ہلکے انداز مین بیان کرتے ہیں لیکن یہی دھیما انداز نہایت مﺅثر ہوتا ہے۔ چنانچہ حالی کے بعض اشعار دل میں خلش کی سی پیدا کردیتے ہیں اور بے اختیار تڑپ پیدا کردیتے ہیں ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو راست گوئی میں ہے رسوائی بہت کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زبان میں یارب اس اختلاط کا انجام ہو بخیر تھا ان کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں (۷) درسِ اخلاق ان کی شاعری میں اصلاحی اور اخلاقی مضامین کی کثرت ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری سے قوم کو پست حالت کو ابھارنے کی کوشش کی۔ نوجوان طبقہ کو تحریک و عمل کی ترغیب دی‘ ان کو تحصیل علم کیلئے آمادہ کیا‘ گداگری کے پیشے کی مذمت کی ‘ نوجوانوں کو بازاری عشق سے مضر اثرات سے آگاہ کیا اور ان کو محنت کی طرف مائل کیا۔ وہ اثر آفرین اور درد انگیز پیرائے میں بڑے پاکیزہ اخلاقی اور اصلاحی پیغام دیتے جیسے عیب اپنے گھٹاﺅ پر خبردار رہو گھٹنے سے کہیں نہ ان کے بڑھ جائے نہ غرور حالی راہ راست جو کہ چلتے ہیں سدا خطرہ انہیں گرگ کا نہ ڈر شیر کا آرہی ہے چاہِ یوسف سے صدا دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت (۹) حبِ وطن حالی کا کلام وطن کی سچی محبت کے نغموں اور قومی درد کے جذبات سے پر ہے۔ قوم کی طرح وطن کی محبت میں بھی ان کی آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں اے میرے وطن میرے بہشت بریں کیا ہو تیرے آسمان و زمیں وقت نازک ہے اپنے بیڑے پر موج حائل ہے اور ہوا ناساز معروف تنقید نگاروں کی آراہ پروفیسرآل احمد سرور لکھتے ہیں: حالی نے ایسا پرسوز راگ الاپا ہے جس کو سن کر خوبیدہ قوم چونک پڑی۔ بقول ایک نقاد: حالی کا نام ان کی قومی شاعری کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اگر حالی نہ ہوتے تو اقبال بھی نہ ہوتے۔ ڈاکٹرسید عبداللہ کہتے ہین: ان کی شاعری قدیم اور جدید کے درمیاں ایک پل کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ بقول الطاف حسین حالی مال ہے نایاب پر گاہک ہے اکثر بے خبر شہر میں کھولی ہے حالی نے دکان سب سے الگ حرفِ آخر غرض یہ کہ حالی کی غزلیں حسن و بیان‘ لطفِ زبان‘ جذبات نگاری‘ سوزو گداز اور سادگی و صفائی کے نہایت اعلی نمونے ہیں اور ان کی نظمیں خالصتاً افادی نقطہ نگاہ کی حامل ہیں۔ انہوں نے شاعری کو ملک و قوم کی اصلاح کا دریعہ بنایا۔ وہ اردو شعر و ادب کے بہت بڑے محسن تھے اور تاریخِ نظم اردو اور شاعری میں ہمیشہ زندہ رہیں گے حالی نشاط نغمہ ہے ڈھونڈتے ہو اب آئے ہو وقت صبح رہے رات بھر کہاں کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے اے بلبل کل نہ پہچان سکے گی گل تر کی صورت اس مضمون کو جناب احتشام حسین کے ان الفاظ پر ختم کیا جاسکتا ہے: حالی نے اپنے قدیم ادبی سرمائے کو پرکھنے اور اس مےن اچھے کو برے سے الگ کرلینے کے راز بتائے۔ انہوں نے روایتوں کا احترام کرتے ہوئے عقل سے کام لینے کی طرف مائل کی تاکہ بدلتے ہوئے حالات میں اپنی جگہ بنانے میں آسانی ہو۔ انہوں نے ادب کی بنیاد حقیقت اور اصلیت پر رکھنے پر زور دیا تاکہ ادب زندگی سے قریب تر آسکے۔حالی کے عہدے نے شاعری‘ تاریخ‘ مقابلہ نگاری‘ ناول نویسی‘ صحافت وغیرہ کے علاوہ تنقید کو بھی بہت کچھ دیا۔ اتنی کامیابی کسی کے لئے بھی قابلِ فخر ہوسکتی ہے اصطلاحاتِ گرامر کی تعریفیں (۱) ردیف ردیف کے لغوی معنی ہیں گُھڑ سوار کے پیچھے بیٹھنے والا۔ شعری اصطلاح میں ردیف سے مراد وہ لفظ یا الفاظ کا مجموعہ ہے جو قافیے کے بعد مکرر آئیں اور بالکل یکساں ہوں۔ ردیف کا ہر مصرعے میں ہونا لازمی نہیںہے۔ عام طور پر یہ غزل کے اشعار میں مصرعہ ¿ ثانی میں دہرائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر جذبہ شوق کدھر کو لئے جاتا ہے مجھے پردئہ راز سے کیا تم نے پکارا ہے مجھے اس شعر میں مجھے ردیف ہے کیونکہ یہ قافیہ کے بعد دہرایا جا رہا ہے اور تبدیل نہیں ہو رہا۔ ایک اور مثال پیش ہے نقشِ فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا اس شعر میں کا ردیف ہے۔ (۲) قافیہ قافیہ کے لغوی معنی ہیں مسلسل آنے والا۔ شعری اصطلاح میںقافیے سے مراد وہ لفظ یا مجموعہ الفاظ ہے جو شعر کے آخر میں ردیف سے پہلے استعمال ہوں اور ہم آواز ہوں۔ ردیف کا ہر مصرعے میں ہونا لازمی نہیںہے۔ بعض صورتوں میں شعر کے دونوں مصرعوں میںقافیہ ہوتا ہے اور بعض صورتوں میںہر شعر کے مصرعہ ثانی میں۔ مثال کے طور پر ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے اس شعر میں قلم اور رقم قافیہ ہیں۔ ایک اور مثال پیش ہے دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے اس شعر میں دشمنی اور کمی قافیہ ہیں۔ (۳) صنعت تضاد اس صنعت کو صنعت تقابُل بھی کہتے ہیں۔ صنعت تضاد شاعری میں اس صفت کو کہتے ہیں جس کے ذریعے ایک شعر میں دو یا دو سے زائد متضاد الفاظ استعمال کئے جائیں۔ مثلاً۔ زمین اور آسمان اندھیرا اور اُجالا۔ مثال کے طور پر نمونہ کلام ہے صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے عُمر یونہی تمام ہوتی ہے اس شعر میں صبح اور شام متضاد الفاظ ہیں اس لئے اس شعرمیں صنعت تضاد استعمال کی گئی ہے۔ ایک اور مثال پیش ہے ایک سب آگ ایک سب پانی دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں اس شعر میںآگ اور پانی متضاد الفاظ ہیں۔ (۴) مطلع مطلع لفظ طلوع سے تعلق رکھتا ہے جس کے معنی ہیں ابتداء کرنا۔ شعری اصطلاح میں غزل کے پہلے شعر کو مطلع کہا جاتا ہے۔ عام طور پر مطلع کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ اگر ایک کے بعد دوسرا مطلع آئے تو اسے حُسنِ مطلع کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر درد کی ایک غزل کا مطلع ہے ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے میر کا غزل کا مطلع بھی ملاحظہ فرمائیے اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں‘ کچھ نہ دوا نے کام کیا دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا (۵) مقطع مقطع لفظ قطع سے تعلق رکھتا ہے جس کے معنی ہیں تعلق توڑنا یا اختتام کرنا۔شعری اصطلاح میں غزل کے آخری شعر کومقطع کہا جاتا ہے۔ مقطع میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے۔ مثال کے طور پرغالب کی غزل کا مقطع ہے میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالب مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے میر کی غزل کا ایک مقطع ملاحظہ فرمائیے اگرچہ گوشہ گزیں ہوں میں شاعروں میں میر پہ میرے شور نے روئے زمین تمام لیا (۶) تلمیح تلمیح کے لغوی معنی ہیں اِشارہ کرنا۔ شعری اصطلاح میں تلمیح سے مراد ہے کہ ایک لفظ یا مجموعہ الفاظ کے ذریعے کسی تاریخی‘ سیاسی‘ اخلاقی یا مذہبی واقعے کی طرف اشارہ کیا جائے۔ تلمیح کے استعمال سے شعر کے معنوں میں وُسعت اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ مطالعہ شعر کے بعد پورا واقعہ قاری کے ذہن میں تازہ ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر غالب کا ایک شعر ہے کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب آﺅ نا ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی اس شعر میں اُس واقعے کی طرف اشارہ ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ طور پر چڑھ کر اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی خواہش کی تھی۔اس خواہش کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے تجلّی ظاہر کی جس کی تاب نہ لاتے ہوئے آپ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے اور کوہِ طور جل کر سیاہ ہو گیا۔ ایک اور مثال ہے بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی مندرجہ بالاشعر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ بادشاہ نمرودآپ علیہ السلام کو آگ میں جلا دینے کی دھمکی دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے آگے سجدہ کرو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام غیر اللہ کے سامنے سجدہ کرنے کے بجائے آگ میں کود پڑتے ہیں اور یہ آگ آپ علیہ السلام کے لئے گلشن بن جاتی ہے۔ (۷) مبالغہ مبالغہ کے لغوی معنی ہیں حد سے بڑھنا۔ شعری اصطلاح میں مبالغہ اس صفت کا نام ہے جس کے ذریعے کسی شے یا شخص کی بعید از قیاس تعریف یا مذمت کی جاتی ہے۔ اگر مبالغہ صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو شعر کا حسن نکھر جاتا ہے۔ مثال کے طور پر رشتہ عمر میں تیرے پڑے گرہیں اتنی بچہ گننے کو جو بیٹھے تو بوڑھا ہو جائے اس شعر میں عمر کی طوالت کے لئے مبالغہ استعمال کیا گیا ہے جو درحقیقت نا ممکن ہے۔ ایک اور مثال ہے کل رات ہجرِ یار میں رویا میں اس قدر چوتھے فلک پہ پہنچا تھا پانی کمر کمر اس شعر میں شاعر نے آنسوﺅں کے لئے مبالغہ استعمال کیا ہے ایسی بات بیان کی ہے جو حقیقتاً ممکن نہیں۔ (۸) تشبیہ تشبیہ کا تعلق لفظ مشابہت سے ہے جس کے معنی ہیں کسی خصوصیت میں ایک جیسا ہونا۔ اصطلاح میں تشبیہ سے مراد ہے کہ دو مختلف چیزوں کو کسی مشترکہ صفت کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مانند قرار دیا جائے۔ ارکانِ تشبیہ اراکینِ تشبیہ درج ذیل ہیں۔ مشبّہ : جس شے یاشخص کوتشبیہ دی جائے اسے مشبّہ کہتے ہیں۔ مشبّہ بہ : جس شے یا شخص سے تشبیہ دی جائے اسے مشبّہ بہ کہتے ہیں۔ حرفِ تشبیہ : جو حرف تشبیہ دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے وہ حرفِ تشبیہ کہلاتا ہیں۔ وجہ تشبیہ : جس وجہ یا صفت کی بناءپرتشبیہ دی جائے اسے وجہ تشبیہ کہتے ہیں۔ مثال مثال کے طور پر مندرجہ ذیل شعر میں ٹوٹے ہوئے دل کو ٹوٹے ہوئے پیالے سے تشبیہ دی ہے کسی نے مول نہ پوچھا دلِ شکستہ کا کوئی خرید کے ٹوٹا پیالہ کیا کرتا اس شعر کے ارکان تشبیہ یہ ہیں۔ مشبہ: دلِ شکستہ‘ مشبہ بہ: ٹوٹا پیالہ‘ حرفِ تشبیہ موجود نہیں ہے‘ وجہ ¿ تشبیہ: دونوں کا شکستہ یا بے قیمت ہونا۔ ایک اور مثال پیش ہے نازکی اس کی لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے اس شعر میں شاعر محبوب کے ہونٹوں کو گلاب کی پنکھری سے تشبیہ دے رہا ہی۔ ارکان تشبیہ یہ ہیں۔ مشبّہ: محبوب کا لب‘ مشبّہ بہ: گلاب کی پنکھڑی‘ حرفِ تشبیہ: کی سی‘ وجہ ¿ تشبیہ: نازکی اور گلابی رنگت۔ (۹) استعارہ استعارہ کے لغوی معنی ہیں ادھار لینا۔ شعری اصطلاح میں استعارہ وہ صفت ہے جس کے تحت کسی لفظ کو اس کے حقیقی معنوںسے ہٹ کر کسی اور شے سے مشابہت کی وجہ سے اس کے مجازی معنوں میں استعمال کیاجائے۔ مثال کے طور پر یہ سنتے ہی تھرا گیا گلہ سارا راعی نے للکار کر جب پکارا اس شعر میں راعی اپنے حقیقی معنوں سے ہٹ کر استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس طرح اس شعر میں استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔ ایک اور مثال پیش ہے کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے رن ایک طرف چرخِ کہن کانپ رہا ہے اس شعر کہ پہلے مصرعے میں استعارہ استعمال کیا گیاا ہے اور حضرت حسین رضی اللہ تعالےٰ عنہہ کے لئے شیر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ (۰۱) غزل شاعری الفاظ کی ایک خاص ترتیب کا نام ہے۔ غزل شاعری کا ایک رکن ہے جس کے لغوی معنی ہیں عورت سے باتیں کرنا۔ شعری اصطلاح میں غزل سے مراد ایسےاشعار کا مجموعہ ہے جس کا ہر شعر ایک مکمل بات کی ترجمانی کرتا ہو۔ اس رکن کے ذریعے انسانی احساسات اور جذبات کا اظہار کیا جا تا ہے۔ غزل کے لئے کوئی عنوان ہونی ضروری نہیں ہے۔ غزل کا پہلا شعرمطلع اورآخری شعر مقطع کہلاتا ہے۔ اس میں تشبیہ‘ استعارہ‘ مبالغہ‘ صنعت تضاد و دیگر صفات وصنعات استعمال کی جاتی ہیں۔ |
syed shaheen afroz Aashiqaan-e-Urdu ki aawaaz, Archives
|
tanqeedi_notes_part-11.pdf | |
File Size: | 2408 kb |
File Type: |
qasida nigari | |
File Size: | 1877 kb |
File Type: |
urdukaaasaanqaida.pdf | |
File Size: | 5951 kb |
File Type: |
Categories
All
Aligharh Tahreek Sir Syed-dabistan Dehli -lakhnaw-zadidat
Allama IQBAL
Grammer اصطلاحاتِ گرامر کی تعریفیں
Hali-sir Syed-hasrat-faiz-iqbal-meer-dard-abdul Haq-moin-ghalib
MEER NAIS
Mirza Ghalib Ke Bare Main
Nasar Nigaro Ko Khususiyat
Psychology
Shaheen Guide Urdu All Classes
TARIKH-E-ZUBAAN-E-URDU-MOHD HUSSAIN KHAN
URDU ADAB
Urdu Masnavi
URDU SHAYRO KI SHAYRANA KHUSUSIYAT
Urdu Zubaan
Urdu Zubaan Se Mutaliq Nazriyat
URRU Short Question Answer
اردو ہے جس کا نام
باب نمبر 1 کمپیوٹر کا تعارف(Introduction To Computer)
شاعری (Poetry)
ऊर्दू रसमूलखत