ایک تعارف
رقصاں ہے لفظ لفظ میں اِک موجِ زندگی
بخشا ہے اُس نے نثر کو صدِ کیفِ نغمگی
خواجہ علی حسن نظامی اردو انشاءپردازی کے ایک مشہور و معروف ادیب گزرے ہیں۔ اُن کے دلچسپ اور اثرانگیز افسانے اُن کی شہرت کا باعث بنے۔علم دوست شخصیتوں نے علی حسن کے سفرناموں، افسانوں اور مضامین کو اپنے کتب خانوں کی زینت بنایا اور بہت کم عمر میں ہی وہ ایک صاحبِ طرز نثر نگار کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے۔ اُنہوں نے معمولی مضامین خوبصورت اور دِل نشین انداز میں رقم طراز کئے اور اردو نثر کو جدت کی راہ پر گامزن کر دیا۔ آپ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے علامہ اقبال فرماتے ہیں:
اگر میں خواجہ حسن نظامی جیسی نثر لکھنے پر قدرت رکھتا ہوتا تو کبھی شاعری کو اظہارِ خیال کا ذریعہ نہ بناتا۔ بلاشبہ اردو نثر نگاروں میں خواجہ حسن نظامی کی ذات قابلِ قدر ہے اور وہ ایک منفرد رنگ کے مالک ہیں۔
چند تصنیفات
- دہلی کا آخری سانس
- بیگمات کے آنسو
- بہادر شاہ کا مقدمہ
- آپ بیتی
- بیوی کی تعلیم
- اولاد کی شادی
- غدرِ دہلی کے افسانے
- خاک بیتی
- اوس
- شہزادی کی بپتا
- سی پارہدل
- میلاد نامہ
طرزِ تحریر کی خصوصیات
خواجہ حسن نظامی کے طرزِ تحریر کی خصوصیات درج ذیل ہیں:
(۱) سادگی و سلاست
خواجہ حسن نظامی زبان و بیان کی سادگی سے کام لیتے ہیں اور نہایت سہل زبان کو استعمال کرتے ہوئے بڑے مشکل مطالب بیان کر جاتے ہیں۔عام فہم الفاظ کے خوبصورت استعمال کی بدولت اُن کے نثر کی خوبصورتی برقرار رہتی ہے اور بوجھل پن محسوس نہیں ہوتا۔
بقول رام بابو سکسینہ:
خواجہ صاحب کی تحریریں نہایت سادہ، سلیس اور دلکش ہوتی ہیں۔
(۲) شوخی و ظرافت
زبان کی چاشنی اور چٹکلوں سے خواجہ حسن نظامی نے اپنی تحریروں میں مزاح کا رنگ پیدا کیا ہے۔ وہ جب کبھی مزاح کی چٹکی لیتے ہیں تو عام اور سیدھی بات کو گلاب کی سی رعنائی بخش دیتے ہیں۔ اُن کے مضامین میں عبارات ظرافت، شوخی اور لطافت کی چاشنی سے معمور نظرآتی ہیں۔
مثال کے طور پر وہ اپنے ایک مضمون پیاری ڈکار میں لکھتے ہیں:
یہ نئے فیشن کے مچھر کو زور سے ڈکار نہیں لینے دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ڈکار لینے لگے تو ہونٹوں کو بھینچ لو اور ناک کے نتھنوں سے اُسے چُپ چاپ اُڑا دو۔ آواز سے ڈکار لینی بڑی بدتمیزی ہے۔
ایک خط میں لکھتے ہیں:
میڈیکل اسٹور کی طرف جانا ہو تو میرے پیارے ڈاکٹر کا کان مڑوڑ دینا اور پریمی پیارا ملے تو اُسے منہ چڑا دینا۔
(۳) ندرتِ موضوعات
خواجہ صاحب کا کمالِ فن اُس وقت عروج پر نظر آتا ہے جب آپ کے انوکھے اور اچھوتے مضامین نظر سے گزرتے ہیں۔ انہوں نے نہایت انوکھے موضوعات پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے اپنی مہارت کی معراج کو پایا اور بڑی خوبصورتی سے اِن مضامین کو پُر لیف بنا دیا۔
ایک مضمون گلاب تمھارا کیکر ہمارا میں لکھتے ہیں:
آخر یہ میاں گُلا ب کس مرض کی دوا نہیں۔ پیٹ میں درد ہو تو گل قند کھلاﺅ، ہیضہ ہو جائے تو گلاب پلاﺅ اور اگر مر جاﺅ تو قبر پر چڑھاﺅ۔
اِس کے علاوہ اُن کا یہ رنگ مندرجہ ذیل مضامین میں نظر آتا ہے:
- جھینگر کا جنازہ
- مچھر کا اعلانِ جنگ
- دیا سلائی
- مٹی کا تیل
- فرام قبلہ ٹو شملہ
- پیاری ڈکار
- سوز و گداز
شہزادی کی بپتا میں لکھتے ہیں:
باﺅ بلبلا گئی۔ وہ کبھی پھول کی چھڑی سے نہ پٹی تھی۔ اب ایسا طمانچہ لگا کہ اُس کے رونے سے مجھ کو بھے بے اختیار روناآ گیا۔
(۵) عارفانہ وصوفیانہ طرزِ بیان
ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ حسن علی ایک صاحبِ دل صوفی بھی تھے۔ رشد و ہدایت کی مسند انہیں ورثے میں ملی تھی۔ وہ اپنے خیالات کو قلم بند کرتے ہوئے معرفت الٰہی کے رنگ میں بڑی خوبصورتی سے پرو دیتے ہیں۔ اسلوب میں والہانہ جوش اور ایک سچے عاشق کے دل کی صدا سنائی دیتی ہے۔
بقول رام بابو سکسینہ:
خواجہ صاحب کی کتاب کرپشن بیتی کو اہلِ اسلام اور خاص کراربابِ تصوّف نے بہت پسند کیا۔
(۶) محاورات و اختصار پسندی
نثرنگار کے مضامین کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ کی تحریروں میں فقرات مختصر اور جامع ہوتے ہیں۔ آپ آزاد کی طرح چھوٹے مگر با محاورہ جملے ترتیب دیتے ہیں جن میں روانی اور لطافت کا عنصر نمایاں طور پر پایا جاتا ہے۔ آپ کی تحریروں میں تسلسل کا دارومدار اِنہیں مختصر،سادہ و شیریں جملوں پر ہے۔
(۷) جذبات نگاری
خواجہ حسن نظامی کی تحریریں انسانی زندگی کے سچے واقعات کی عکاس ہیں۔ آپ اِن واقعات کوترتیب دیتے ہوئے جذبات کے اظہار کا بھرپور خیال رکھتے ہیں۔ مطالعہ کرنے کے بعد قاری کے دل و ذہن پر متاثر کن اثر باقی رہتا ہے جو قاری کے دلی جذبات سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔
بیگمات کے آنسو میں وہ لکھتے ہیں:
مجھے بخار چڑھ رہا ہے۔ میری پسلیوں میں شدت کا درد ہو رہا ہے۔ مجھے سردی لگ رہی ہے۔ میری ماں مجھ سے بچھڑ گئی ہے اور بابا حضرت جلا وطن ہو گئے۔ میں اینٹ پر سر رکھے لیٹی ہوں۔ میری بدن میں کنکر چبھ رہے ہیں۔ بابا اٹھو! کب تک سو گے؟
ناقدین کی آراہ
خواجہ علی حسن نظامی کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے مختلف نقاد اُن کی تعریف بیان کرتے نظر آتے ہیں۔
صلاح الدین احمد کہتے ہیں:
خواجہ صاحب کو رنج و الم کے مضامین بیان کرنے کا جو سلیقہ ہے اُس میں علامہ راشد الخیری کے علاوہ اُن کا کوئی ہم پلہ نہیں۔
بابائے اردو مولوی عبد الحق بیان کرتے ہیں:
اگر تم صاف ستھری اور نکھری ہوئی اردو پڑھنا اور سیکھنا چاہتے ہو تو خواجہ صاحب کی نثر پڑھو۔ زبان کے ساتھ ساتھ دلّی کے واقعات کا بھی ایک جہاں آباد ہے۔
اُن کے کسی دوست کا کہنا ہے:
حسن نظامی کی پیری اور پیرزادی نے اُن کی انشاءپردازی کو چمکایا اور اُن کی انشاءپردازی نے اُن کی پیرزادی اور پیری کو شہرت دی۔
ڈاکٹر کلیم الدین احمد کہتے ہیں:
خواجہ صاحب کا اصل رنگ، خواجہ صاحب کی اصلی اہمیت اُن کی انشاءہے۔ وہ نہایت ہی آسان ، سادہ اور پُر تکلف طرز میں لکھتے ہیں۔
ایک تعارف
سیّد احمد شاہ بخاری خالص مزاح کے علم بردار قلمکار ہیں۔آپ نے اس مشکل ترین صنفِ ادب میں خامہ فرسائی کی اور قارئین سے زبردست دادِ تحسین وصول کی۔ آپ نے اپنے مضامین میں مزاح نگاری کونہایت خوبصورت انداز میں استعمال کیا ۔آپ کی ذہانت کی عکاس آپ کی وہ تحریریں ہیں جن میں واقفیت، حسنِ تعمیر، علمی ظرافت، زیرِ لب تبسم، شوخی، طنز اور مزاح کا بھرپور عکس نظر آتا ہے۔ پطرس کے زورِ قلم کا کُل اثاثہ ۵۵۱ صفحات کا کتابچہ المعروف بہ مضامینِ پطرس ہے۔ ان چند مضامین نے اردو ادب کی صنفِ مزاح میں ایک انقلاب برپا کر دیا اور پطرس اس حلقے میں سب سے ممتاز ہو گئے۔ اُن کے قلم کی تخلیق دائمی شہرت اور عظمت کا سبب بنی اور انہوں نے اپنے ہم عصر مزاح نگاروں کے درمیان ایک نمایاں مقام حاصل کر لیا۔
بقول آل احمد سرور:
پطرس نے بہت تھوڑے مضامین لکھے، مگر پھر بھی ہماری چوٹی کے مزاح نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اتنا تھوڑا سرمایہ لے کر بقائے دوام کے دربار میں بہت کم لوگ داخل ہوئے ہیں۔
طرزِ تحریر کی خصوصیات
پطرس کے طرزِ تحریر کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔
(۱) اسلوب کی شگفتگی
پطرس بخاری زبان و بیان کی سادگی سے کام لیتے ہوئے الفاظوں سے اس طرح کھیلتے ہیں کہ ان کو دل سے داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ سادگی، صفائی، روانی ، محاورات کے برجستہ استعمال اور شگفتگی کی بدولت اُن کے مضامین میں ایک کشش ہے۔ آپ کی تحریروں کے مطالعے کے بعد ایسا لگتا ہے گویا اپنے کسی دوست سے نہایت بے تکلفانہ انداز میں ہمکلام ہیں۔
وہ اپنی کتاب مضامینِ پطرس کے دیباچہ میں رقم طراز ہیں:
اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت میں بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں سے چُرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ اب بہتر یہ ہے کہ اس کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں۔
(۲) ظرافت کی خصلت
پطرس کے مضامین میں جو مزاح نظر آتا ہے وہ خالصتاً مزاح ہے۔ اس میں بدتمیزی، طنز، تمسخر اور عامیانہ پن جیسی اصناف سے زبردستی ہنسانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ آپ کی نگارش میں مزاح وشوخی کی آفاقی خصلت ہے جو ہر موڑ پر نظر آتی ہے۔ آپ نے شرارت کے سلیقے کو برقرار رکھتے ہوئے ظرافت کے میدان کو وسیع و غیرمحدود کر دیا ہے۔
مثال کے طور پر وہ ہاسٹل میں پڑھنا میں لکھتے ہیں:
اب قاعدے کی رو سے ہمیں بی۔اے کا سرٹیفکیٹ مل جانا چاہیے تھا۔ لیکن یونیورسٹی کی اس طِفلانہ ضد کا کیا علاج کہ تینوں مضمونوں میں بیک وقت پاس ہونا ضروری ہے۔
(۳) واقعہ نگاری
واقعہ نگاری پطرس کے نگارش کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ وہ لفظوں کے انتخاب اور فقروں کی ترتیب کا حسن استعمال کرتے ہوئے مضحکہ خیز واقعات کی تصویرکشی ایسی مہارت اور خوبصورتی سے کرتے ہیں کہ چشم تصور اُن کو ہو بہو اپنے سامنے محسوس کرتی ہے۔
مثال کے طورپر ”مرحوم کی یاد میں“ کے اس اقتباس میں وہحُسنِ انتخاب سے ایک مزاح آمیز ماحول پیدا کرتے ہیں:
تمام بوجھ دونوں ہاتھوں پر تھا جو ہینڈل پر رکھے تھے اور برابر جھٹکے کھا رہے تھے۔ اب میری حالت تصور میں لائیں تو معلوم ہوگا جیسے کوئی عورت آٹاگوندھ رہی ہے۔
(۴) عکاسِِ زندگانی
مصنف نے معاشرے اور روزمرّہ زندگی کا بھرپورتجزیہ کیا ہے اور اِس جائزے سے انسانی زندگی کے نازک ، لطیف اور نرم و ملائم پہلوﺅں پر قلم اُٹھایا ہے۔ آپ کی تحریروں میں پیش کئے گئے کرداروںاور واقعات کا تعلق کسی خاص معاشرے سے نہیں ، بلکہ آپ نے تمام تہذیبوں میں پائی جانے والی یکساں صفات کی عکاسی کی ہے۔ اسی لئے پطرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ:
پطرس نے اپنی ظرافت کا مواد زندوں سے لیا ہے۔
ہاسٹل میں پڑھنا دنیا کے تمام طالب علموں کی عمومیت اور ہمہ گیری کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔
(۵) تحریف (Parody)
احمد شاہ پطرس بخاری نے اپنی تحریروں میں تحریف نگاری کو نہایت مہارت سے پروکر ایک انوکھی خوبصورتی پیدا کر دی ہے۔ آپ نے اس مشکل فن سے شوخ اور ظریف رنگ پیدا کیا اور قارئین کے لئے ہنسنے کے دلکش مواقع پیدا کئے ہیں۔
مثال کے طور ایک مصنف نے لکھا ہے:
بچہ انگوٹھا چوس رہا ہے اور باپ اُسے دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہا ہے۔
پطرس اس کو یوں بیان کرتے ہیں:
باپ انگوٹھا چوس رہا ہے، بچہ حسبِ معمول آنکھیں کھولے پڑا ہے۔
بعض مواقعات پر آپ نے یہ کمال اشعار سے بھی ظاہر کیا ہے۔ وہ غالب کے شعر کی تحریف کچھ اس طرح کرتے ہیں کہوں کس سے میں کہ کیا ہے سگ رہ بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
اصل شعر کچھ اس طرح سے ہے
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
(۶) مغربی ثقافت کا رنگ
احمد شاہ بخاری چونکہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے ہیں اس لئے اُن کا مغربی ادب کا بھرپور مطالعہ تھا۔ انہوں نے مغربی مزاح نگاری کا گہرا تجزیہ کیا اور اُس کی تمام تر خوبصورتی اور لطافتوںکو سمیٹ کر مشرقی رنگ میں ڈھالا۔ آپ کے مضامین میں جو ثقافتِ مغرب کا رنگ نظر آتا ہے وہ قاری کو ذرا بھی گراں نہیں گزرتا اور نہ کسی تحریر کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔
بقول پروفیسر تمکین:
پطرس نے انگریزی ادب کی روح کو ہندوستانی وجود دے کر اپنی نگارش میں ایک خاص لطف و نکھار اور رکھ رکھاﺅ پیدا کر دیا ہے جو اپنی وضع کی ایک ہی چیز ہے۔
(۷) کردار نگاری
پطرس کے طرزِ تحریر میں ایک اور خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ کرداروں کے ذریعے ایک لطف اندوز ماحول پیدا کرتے ہیں۔ انسانی فکروشعورکے تمام پہلوﺅں پر مکمل عبور رکھتے ہوئے آپ اس طرح اپنے مضمون کو جملہ بہ جملہ تخلیق کرتے ہیں کہ مطالعہ کرنے والاشخص ایک مزاح آمیز ماحول میں گم ہو جاتا ہے اور بے اختیار مسکرا دیتا ہے۔
مرید پور کا پیر میں پیر کا کردار، ہاسٹل میں پڑھنا میں طالب علم کا کردار ، یہاں تک کہ کتّے میں کتوں کا کردار اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
(۸) اِختصاروجامعیت
پطرس کے مختلف مضامین ایک کامل اور ماہر ادیب کے فنون کی عکاسی کرتے ہیں۔ آپ اپنی بات کہنے پرمکمل عبور رکھتے ہیں او ر بڑے سے بڑے موضوع کو نہایت مختصر ،جامع ور دل نشین انداز میں رقم کر دیتے ہیں۔ آپ کا حسنِ انتخاب ہی وہ وجہ ہے جس کی بدولت آپ کا سرمایہ ادب لافانی بن گیا۔مثال کے طور پر ”ہاسٹل میں پڑھنا“ میں انہوںنے ایک جملے سے کیا بات کہہ ڈالی:
ہم پہ تو جو ظلم ہوا سو ہوا، یونیورسٹی والوں کی حماقت ملاحظہ فرمائیے، کہ ہمیں پاس کر کے اپنی آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ ہاتھ سے گنوا بیٹھے۔
ناقدین کی آرائ
مختلف نقاد پطرس کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں پطرس کی تعریف بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ حکیم
یوسف حسن پطرس کے بارے میںکہتے ہیں:
اگر میں یہ کہ دوں تو بے جا نہ ہوگا کہ ہند وپاکستان کے تمام مزاحیہ کتابوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں ڈالا جائے اور پطرس کے مضامین دوسرے پلڑے میں رکھے جائیں تو پطرس کے مضامین بھاری رہیں گے۔
غلام مصطفی تبسم لکھتے ہیں:
بخاری کی نظر بڑی وسیع اور گہری ہے اور پھر اُسے بیان پر قدرت حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُس کا مزاح پڑھنے والوںکی دل میں شگفتگی پیدا کر دیتا ہے۔
ڈاکٹر خورشید السلام کا بیان ہے کہ:
اُن کے اندازِ فکر اور طرزِ بیان میں انگریزی ادب کا اثر موجود ہے اور اندازِبیان میں تخیّل کا عمل فرحت اللہ بیگ سے زیادہ قریب ہے۔
حاصلِ تحریر
اردو ادب کے گلشنِ مزاح میں پطرس نے جو پھول کھلائے ہیں اُن کی خوشبو آج تک علم دوست لوگوں کے اذہان کو مہکا رہی ہے۔آپ نے چند مضامین میں مزاح نگاری کے جوجوہر دکھائے وہ دادِ تحسین کا باعث بنے اور آپ کو شہرت کی معراج تک لے گئے۔ آپ کا ہر مضمون قابلِ قدر ہے اور مزاح نگاری کی نئی نئی جہتوں سے روشناس کراتے ہوئے مسکراہٹوں کے مواقع پیدا کرتا ہے۔ احمد شاہ پطرس بخاری اس شعبہ �¿ ادب میں ہمیشہ ممتاز رہیں گے اور اُن کا نام تاقیامت زندہ رہے گا۔ بقول شاعر
ادب میں لطافت کے جلوے بکھیرے
ہٹا کر افسردہ دلوں کے اندھیرے
تو لایا تبسم کے روشن سویرے
اے پطرس! بہت خوب ہیں کام تیرے
ایک تعارف
سنگِ تربت ہے مرا گرویدہِ تقدیر دیکھ
چشم باطن سے اس لوح کی تحریر دیکھ
سر سید احمد خان جیسا مردِ مومن کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ یہ انہیں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم میں معاشرے کے دردواَلم کا احساس موجود ہے۔ وہ ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے جب مسلمانانِ ہند انگریز کی غلامی میںگمراہی و ضلالت کی تاریک چادر اوڑھے سو رہے تھے‘ انسانی ضمیر کچلا جا رہا تھا ‘ انسانیت پس رہی تھی اور صاحبِ دولت طبقہ غیر ملکی آقاﺅں کی سرپرستی میں کمزور اور بے حس عوام پرحکومت کر رہا تھا۔ یہ دنیا کا اصول ہے کہ جب ظلم و ستم کی تاریک گھٹائیںاندھیروں کاروپ اختیار کر لیتی ہیں تو انہی مظلوموںمیں سے ایک ایسی کرن پھوٹتی ہے جو بڑی تیزی سے اس تاریکی کو چیرتی ہوئی ہر طرف اجالا پھیلا دیتی ہے ۔ اسی کرن کی بدولت نورپھیلتاہے‘ اذانیں سنی جاتی ہیں‘ پرندے چہکتے ہیں اور انسانیت خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر عباد ت گاہوں کا رخ کرتی ہے۔ سر سید احمدخان اس کی ایک تابندہ مثال ہیں۔
اٹھارویں صدی میں سر سیّدمعاشرے کی اصلاح کا بیڑا اپنے سر لیتے ہے۔ ان کے کارخانہئِ فکر میں ایسے گہر ہائے آبدا ر تخلیق پاتے ہیں جن کی تابانیاں صفحہِ قرطاس پر منتقل ہونے کے بعد نہ صرف مسلمانانِ ہند کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرتی ہیں بلکہ اردو ادب کی لا متناہی ترقی کا سبب بھی بنتی ہیں۔ آپ اردو ادب کو سادگی اور سلاست کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں اورتحریروں میں مقصدیت پیدا کرتے ہیں۔آپ کی اردو ادب کے لئے اَن گنت خدمات کے باعث آپ کو جدید اردو ادب کا بانی کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔
طرزِ تحریر کی خصوصیات
سر سیّد احمد کے طرزِ تحریر کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔
(۱) مقصدیت
سر سیّد احمد خان کی زندگی کا مقصد برِصغیر کے مسلمانوں کو حُسن و عشق کی فضاﺅں سے نکال کر میدانِ عمل میں لے جانا تھا۔ اس وقت کے ادیب طرزِ بیان پر زور دیتے تھے اور ان کی تحریریں بے مقصد ہوتی تھیں۔ انہوں نے زمانے کی اس روایت سے بغاوت کرتے ہوئے تحریروں میں طرزِ بیان سے زیادہ مقصدیت پرزور دیا اور ایسی تحریریں قلم بند کی جن سے قوم میں شعور پیدا ہو۔ سر سید کا کہنا ہے۔
ایک اچھا ادیب وہی ہے جو کسی مقصد کے تحت لکھے۔
بطور مثال ایک مضمون میں لکھتے ہیں۔
پس اے میرے نوجوان ہم وطنو! اور میری قوم کے بچو! اپنی قوم کی بھلائی پر کوشش کرو تاکہ آخری وقت میں اس بڈھے کی طرح نہ پچھتاﺅ۔ ہمارا زمانہ تو آخر ہے‘ اب خدا سے یہ دعا ہے کہ کوئی نوجوان اٹھے اور اپنی قوم کی بھلائی میں کوشش کرے۔ آمین !
(۲) اضطراب
سر سید کی شخصیت ایک پُر جوش شخصیت تھی اور وہ ایک انقلابی ذہن کے مالک تھے۔ وہ چونکہ اس مقصد کی تحت لکھتے تھے کہ قوم کو بیدار کیا جائے اس لئے ان کی تحریروں میں ایک اضطرابی کیفیت پائی جاتی ہے۔ وہ اپنا مدعا بیان کرتے وقت اس قدر پر جوش ہو جاتے کہ انہیں جملوں کی خوبصورتی اور فقروں کی ہم آہنگی میں دلچسپی نہیں رہتی اور ان کا قلم جذبات کی رو میں بہہ جاتا۔
(۳) انگریزی الفاظ
سر سید چونکہ جملوں کی ساخت کو اہمیت نہیں دیتے تھے اس لئے ان کی تحریروں میں انگریزی کے الفاظ بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ ان الفاظ کے استعمال کے باوجود ان کی تحریریں پُر اثر ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک جگہ وہ لکھتے ہیں۔
علیگڑھ کالج کے اسٹوڈنٹس میںسے ون پرسنٹ بھی نہیں ہیں جنہیں ہائی سروسز کے قابل سمجھا جائے۔
(۴) استدلالی تحریریں
سر سیّد احمد خان نے تحریک چونکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت چلائی تھی اس لئے انہوں نے تحریروں میں اپنا مقصد دلائل کے ساتھ واضح کیا ہے ۔ انہوں نے علمی‘ ادبی‘ دینی‘ اخلاقی اور معاشرتی تحریروں میں جذباتی اندازِ بیان اختیار کرنے کے بجائے استدلال سے کام لیا ہے اور ہر بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ بقول ڈاکٹر سید عبداللہ۔
ان کی تحریروں میں منطقیانہ استدلال پایا جاتا ہے جو ہر قسم کے علمی اور تعلیمی مباحثے کے لئے موضوع ہے۔
(۵) سادگی و سلاست
سر سیّد احمد خان کے دور میں جتنے بھی مشہور و معروف ادیب گزرے ہیں وہ اپنے نثر کے طرز تحریر پر توجہ دیتے تھے اور اردو نثر میں شاعرانہ رنگینی اور آرائشوں کا بہت دخل تھا۔ اردو نثر طوالت اور بے جا تکلفات سے بوجھل ہو رہی تھی۔ سر سیّد ان پابندیوں کو خیرباد کہتے ہوئے اپنی تحریروں میں سادہ اور فطری انداز اختیار کرتے ہیں اور صاف اور آسان عبارات میں اپنا مقصد بیان کرتے ہیں۔ بقول ابو اللّیث صدّیقی۔
زندگی کی جو سادگی اور توانائی سر سید کے کردار میں پائی جاتی ہے وہی اُن کی تحریروں میں بھی موجود ہے۔
بطور مثال نمونہ پیش ہے۔
اے مسلمان بھائیو ! کیا تمہاری یہی حالت نہیں ہے ؟ تم نے اس عمدہ گورنمنٹ سے جو تم پر حکومت کر رہی ہے‘ کیا فائدہ اٹھایا ؟
(۶) پُر اثر مضامین
سر سیّد احمد خان نے اردو ادب کو جو سرمایہ فراہم کیا وہ ایسے مضامین کا سرمایہ ہے جن کا مطالعہ کرنے سے قاری کی وہی کیفیت ہو جاتی ہے جو مصنف کی تحریر کے وقت ہوتی ہے۔ ان کی تحریروں سے ان کی شخصیت کا جوش جھلکتا ہے اور ان کے نثر پارے شمشیرِ آبدار کی سی کاٹ رکھتے ہیں۔ بقول حالی۔
جس طرح تلوار کی کاٹ درحقیقت ایک باڑ میں نہیں بلکہ سپاہی کے کرخت ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اسی طرح کلام کی تاثیر اس کے نڈر دل میں اور بے لاگ زبان میں ہے۔
(۷) تنوعِ مضامین
سر سیّد احمد خان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے مضامین میں حیرت انگیز تنوع پایا جاتا ہے۔ وہ موضوعِ مضمون کے ساتھ پورا انصاف کرتے ہیں اور مضمون کو اسی کی مناسبت سے قلم بند کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں ہر رنگ کا جلوہ حسبِ موقع موجود ہے۔ اگر ان کی ادبی تحریروں‘ علمی و تحقیقی مقالوں اور عدالتی فیصلوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو بہ اعتبارِ موضوع نمایاں فرق نظر آتا ہے۔
(۸) تمثیلی اندازِ بیان
سر سید احمد خان نے اپنے بیشتر مضامین میں تشبیہات و استعارات کا استعمال کیا ہے اور موضوع کو دلچسپ بنانے کے لئے تمثیل کا رنگ اپنایا ہے۔ ان کے یہ مضامین حکایتی اسلوب کی وجہ سے نہایت دلچسپ اور اثر انگیز ہیں۔
امید کی خوشی اور گزرا ہوا زمانہ میں سر سیّد کا یہ رنگ جھلکتا ہے۔ ان مضامین میں انہوں نے دلچسپ اور ثمثیلی انداز میں اپنا مافی الضمیربیان کیا ہے۔
(۹) بے ساختگی
مصنف کی تحریروں میں ایک بے تکلفی اور بے ساختگی سی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنا مقصد اس طرح بیان کرتے ہیں گویا قاری ان کے سامنے بیٹھا ان سے ہمکلام ہو۔ ان کے مضامین ہر قسم کی بناوٹ سے پاک اور سچائی کے جذبے سے پُر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بات سیدھی دل میں اترتی ہے اور اثر رکھتی ہے۔
ناقدین کی آراہ
مختلف تنقیدنگار سر سیّد کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں اور مختلف انداز میں سر سیّد کی تعریف بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ شبلی نغمانی سر سیّد کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔
سر سیّد نے اردو انشاءپردازی کو اس رتبے پر پہنچا دیا جس کے آگے اب ایک قدم بڑھنا بھی ممکن نہیں۔
بابائے اردو مولوی عبد الحق لکھتے ہیں۔
یہ سرسیّد ہی کا کارنامہ تھا جن کی بدولت ایک صدی کے قلیل عرصے میں اردو ادب کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔
ڈاکٹر احسن فاروقی کا بیان ہے کہ۔
اپنے عمل سے انہوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ نثر نگاروں کے بنیادی اصول کیا ہونے چاہیے ان کو اسی میں کمال حاصل ہے اور اسی کمال کی وجہ سے وہ اردو نثر نگاری کے سرتاج رہیں گے۔
حاصلِ تحریر
سر سیّد احمد خان کی تحریروں میں اردو ادب کا ایک تاریخی موڑ ہے۔ انہوں نے سلیس اور سہل اندازِ بیان کو فروغ دے کر دامنِ اردو کو وسیع کیا۔ اردو نثر شاعرانہ ذوق‘ مشکل اور تشبیہات سے بھری ہوئی تھی۔ آپ نے اُسے سلاست‘ سادگی اوراستدلالیت میں تبدیل کیا اور اردو ادب کو فطری طرزِ تحریر سے مہکا دیا۔ آج سرسیّد ہی کی بدولت اردو ایک مشہور و معروف زبان ہے اور ہم فخر سے اردو کو اپنی قومی زبان تسلیم کرتے ہیں۔ حالی نے شاید ٹھیک ہی کہا تھا
ترے احسان رہ رہ کر سدا یاد آئیں گے اُن کو
کریں گے ذکر ہر مجلس میں اور دہرائینگے اُن کو
ایک تعارف
اردو ادب پر سحروطلسم کی گھٹائیں‘ مافوق الفطرت فضائیں‘ تضع و مبالغہ کی بلائیں چھائی ہوئی تھیں۔ ایسے میں ہم ایک ادیب کو دعائیںدیں‘ یہ ادیب ڈپٹی نذیر احمد ہیں جو سرسید احمد خان کی اصلاحی تحریک میں ان کے اہم رفیقِ کار تھے۔ انھوں نے اپنے قلم کی تمام تر توانیاں معاشرے کی اصلاح کے لئے وقف کردیں۔ اس مقصد کے لئے انھوںنے ناول نگاری کی صنف کو اپنا یا۔
پروفیسر آل آل احمدسرور کہتے ہیں:
انگریزی میں رچرڈسن اور فیلڈنگ ناول کے موجد کہے جاتے ہیں ہمارے یہاں نذیر احمد کی کہانیاں کو ناول کا اولین نمونہ کہا جاسکتا ہے۔
بقول شاعر
جو ضیاءدیتی ہے پنہاں لفظ کی تنویر میں
وہ نظر آتی ہے مجھ کو اس کی ہر تحریر میں
اس کے ہر ناول سے جلوہ گر ہے اصلاحی جمال
اس نے دل کی نیکیاں بھر دی ہیں ہر تصویر میں
طرزِ تحریر کی خصوصیات
ڈپٹی نذیر احمد کے طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات ذیل میں درج ہیں۔
(۱) رواں اسلوب
مولوی صاحب کا طرزِ تحریر سادہ اور رواں ہے۔ وہ دہلی کی ٹھےٹ اور ٹکسالی زبان میں لکھتے ہیں۔ محاورات کا استعمال بھی بڑی سلیقہ مندی سے کرتے ہیں۔ محاورات کے بر محل استعمال سے ان کی زبان میں تاثیر پیدا ہوگئی ہے ۔ بقول فرحت اللہ بیگ:
ان کا یہ شوق کچھ حد سے بڑھا ہوا ہے کہ بعض اوقات وہ محاورات استعمال نہیں کرتے زبردستی ٹھونستے ہیں۔
(۲) ناول نویسی کے بانی
نذیر احمد اردو کے پہلے ناول نگار ہیں ان کا ناول ”مراة العروس“ اردو کا اولین ناول ہے۔ کچھ لوگ ناول نگاری کا بانی پنڈت رتن ناتھ کو تصور کرتے ہے لیکن مراة العروس جو کہ نذیر احمد کا ناول ہے ۹۶۸۱ میں شائع ہوچکا تھا جبکہ رتن ناتھ کا ناول ”فسانہ آزاد“ ۹۷۸۱ میں شائع ہوا۔
ڈاکٹر ابوللیث صدیقی کہتے ہیں:
نذیر احمد کو بلاشبہ جدید اردو ناول کا پیش رو قرار دینا چائیے۔
(۳) روایت شکنی
نذیر احمد نے پہلی بار غیر فطری رنگ کو چھوڑ کر سادی اور حقیقی زندگی میں قدم رکھا۔ انہوںنے جنوں‘ بھوتوں‘ پریوں اور مافوق الفطرت کرداروں کے بجائے اپنے ناول کے کردار ہماری گرد و پیش کی زندگی سے منتخب کیے۔ اس طرح انہوں نے صدیوں پرانا بندھن توڑنے میں پہل کی جن کے پیچھے زندگی کی بےشمار حقیقتیں چھپی ہوئی تھےں اور جس کو ہمارے افسانوی ادب نے چھپارکھا تھا ان کا سب سے بڑا کمال بھی یہی ہے کہ انہوں نے کہانی میں اصلیت کا رنگ بھرا۔
ڈاکٹر ابو للیث صدیقی کہتے ہیں:
قدیم قصے بادشاہوں‘ وزیروں‘ سوداگروں‘ شہزادوں یا پھر جنوں اور پریوں کے محور پر گھومتے تھے‘ عوام کو اس بارگاہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ تھی‘ نذیر کے ناولوں میں عوام اس بزم میں پہلی بار شریک ہوئے۔
(۴) مقصدیت
نذیر احمد بھی اپنے دور کے دوسرے ادیبوں کی طرح مقصدیت کی پیداوار تھے۔ یہ ایک ایسا دور تھا جس میں ہر ادیب قوم کی اصلاح کی خاطر کام کرتا تھا گو کہ ہر ایک کا دائرہ عمل الگ الگ تھا۔ نذیر احمد نے بھی اپنے قصوں سے دین داری‘ خداپرستی اور اصلاحِ معاشرت کا کام لیا۔ ان کے ناول کسی نہ کسی مقصد کے تحت لکھے جاتے تھے وہ قصہ نویس سے زیادہ واعظ تھے۔
آل احمد سرور کہتے ہیں:
نذیر احمد سب کچھ بھول سکتے ہیں لیکن وہ مقصد نہیں بھول سکتے جس کے تحت وہ قصے لکھتے تھے۔ ان کے ناول جتنے اچھے وعظ ہیں اتنے اچھے قصے نہیں۔
(۵) پرچوش اندازِ بیان
نذیر احمد کا اندازِ بیان پرزور اور پرچوش ہے۔ ان کے کرداروں کی گفتگو بعض اوقات سراپا تقریر معلوم ہوتی ہے۔
ڈاکٹر سید عبداللہ کہتے ہیں:
نذیر احمد ہی اردو کے وہ انشاپرداز ہیں جن کی باتیں زوردار ہوتی ہےں۔ حالی کی آواز دھیمی‘ لحجہ مسکینوں جیسا۔ شبلی پکی مگر مختصر بات کہنے والے‘ آزاد میٹھی میٹھی‘ کبھی کبھی مختصر کہانیاں سنانے والے۔ ان میں نذیر احمد ہی وہ انشاپرداز ہیں جو پرزور انداز میں بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
(۶) مثالی کردار نگاری
ان کے کردار زیادہ تر مثالی ہوتے جو اگر نیک ہیں تو فرشتے اور بد ہیں تو شیطان۔ اسطرح وہ ارتقائی مدارج سے دور رہتے تھے۔
پروفیسر منظور حسین شور کہتے ہیں:
ان کے کردارمیکانکی طور پر عقل کے ایسے پتلے ہیں جو حسن و شباب اور محبت کے لطیف جذبات سے عاری ہیں۔ جن کے بغیر انسان فرشتہ ہو سکتا ہے لیکن انسان نہیں۔
(۷) معاشرے کی عکاسی
سرسید احمد خان نے اصلاح کا جو کام شروع کیا تھا۔ نذیر احمد نے اپنی تحریروں سے اسے قوت بخشی۔ نذیر احمد کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے تمام قصوں میں ہماری معاشرتی زندگی کی سچی تصویر پیش کی ہے۔ انہوں نے قصوں سے مافوق الفطرت عناصر کی بھرمار کو خارج کرکے حقائق نگاری اور واقعیت کا رنگ بھر کر زندگی کی عکاسی کا ڈھنگ سکھایا۔ انھون نے طوطا مینا کی کہانیوں سے نکل کر اصلاح مواشرت اور اخلاق کے تانے بانے سے اپنے ناول مکمل کیے۔ وہ پہلے آدمی ہیں جنہوںنے ادب کو زندگی کے قریب کردیا۔
آل احمد سرور کہتے ہیں:
ماحول کی مصوری ان کے یہاں بہت اچھے طرح کی گئی ہے۔ اسلامی سوسائٹی اور خاص کر اسلامی خاندانوں کی اندرونی معاشرت کی جو تصویریں نذیر احمد نے کھینچی ہیں وہ ایسی سچی اور بے لاگ ہے کہ آنکھوں کے سامنے نقشہ پھر جاتا ہے۔
(۸) شوخی و ظرافت
نذیر احمد کی نثر کا ایک خاص جوہر ان ظریفانہ رنگ ہے۔ جو انکے ناولوں لیکچروں اور مضامین میں نمایاں ہے۔ وہ عمل زندگی میں بھی زیادہ خشک نہ تھے۔ نہایت زندہ دل اور ظریف آدمی تھے اور یہی ظرافت و زندہ دلی ان کی تحریروں میں پائی جاتی ہے انکی ظرافت اپنے نامور ہم عصر آزاد کی طرح شگفتگی کے دائرے سے آگے نہیں بڑھی۔ وہ تبسم تو بن جاتی ہے۔ مگر قہقہے سے گریز کرتی ہے البتہ وہ تقریروں میں طنز کے تیر چلانے سے نہیں چوکتے تھے۔
ڈاکٹر حسن فاروقی کہتے ہیں:
انہوں نے اہم معاشرتی مسائل کو دلچسپ فرضی قصوں کے ذریعے اس طرح پیش کیا ۔ جیسے کڑوی دوا کو حلق سے اتارنے کے لئے اس پر شکر لپیٹ دی جاتی ہے۔
(۹) بے تکلفی
ان کا تعلق بھی چونکہ دبستانِ سرسید سے تھا۔ چنانچہ ان کی تحریروں میں بے تکلفی اور بے ساختگی کا عنصر نمایاں ملتا ہے۔ یہ اپنے ناولوں میں اور اپنی تحریروں میں اپنے موضوع کو بے ساختگی کے ساتھ کرتے چلے جاتے ہیں اور کسی قسم کی بناوٹ‘ یا تکلف سے کام نہیں لیتے بلکہ اپنے موضوع کو انتہائی رواں انداز میں پیش کرتے ہیں اگرچہ کہ ان کے مضامین میںطوالت کے باوجود بھی بے تکلفی کا عنصر کثرت کے ساتھ جھلکتا ہے۔
حاصلِ تحریر
یہ تھیں اردو کے پہلے ناول نگار مولوی نذیر احمد کی نمایاں خصوصیات۔ انکے ناولوں کو کوئی ناول نہیں مانتا نہ مانے۔ ان کو ناول نگار کہنے میں کسی کو حجاب سے تو ہواکرے مگر ناول نگاری کی تاریخ ان کو خراجِ تحسین پیش کیے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتی۔
بقول شاعر
جو ضیاءدیتی ہے پنہاں لفظ کی تنویر میں
وہ نظر آتی ہے مجھ کو اس کی ہر تحریر میں
اس کے ہر ناول سے جلوہ گر ہے اصلاحی جمال
اس نے دل کی نیکیاں بھر دی ہیں ہر تصویر میں
ایک تعارف
مولانا آزاد شاعر بھی ہیں مورخ بھی‘ نقاد بھی ہیں اور مضمون نگار بھی۔ لیکن جس چیز نے انہیں شہرت عام اور بقائے دوام بخشا ہے وہ ان کی طرزِ تحریر ہے۔ انہوں نے نثر میں شعری لوازمات کو سمودیا۔ ان کی خوبصورت تشبیہوں‘ لطیف استعارے‘ مقطع اور مسجع عبارت‘ رنگین اور موسیقیت سی لبریز جملے اور اس کے ساتھ ساتھ سادگی اور روانی وہ صفات ہیں جنہوں نے آزاد کو اردو ادب میں ایک بلند اور ممتاز مقام دلایا ہے۔ بقول رام بابو سکسینہ:
آزاد کی نثر مینں بھاشا کی سادگی‘ انگریزی کی صاف گوئی اور فارسی کا حسن موجود ہے۔
آزاد کا شمار اگرچہ سرسید گروپ یعنی اردو کے ارکان خمسہ میں ہوتا ہے مگر ان کا اسلوب نگارش اپنے ہم عصر ادیبوں سے سراسر مختلف اور منفرد ہے ان کے سامنے قدیم اردو کا پر تکلف نمونہ بھی تھا اور غالب اور سرسید کی سادگی اور بے تکلفی کی نثر بھی تھی۔ مگربنی راہ پر چلنا انہوں نے اپنے لئے عار سمجھا اور دونوں راہوں کے سنگم سے ایک نئی راہ نکالی۔ چنانچہ ان کی تحریروں میں جہاں مقطع‘ مسجع اور رنگین عبارتیں نظر آتی ہیں وہاں سادہ اور سلیس ٹکڑوں کی بھی کمی نہیں۔بقول الطاف حسین حالی
تاریخ اس کی جو پوچھے کوئی حالی
کہدو کہ ہوا خاتمہ اردو کے ادب کا
طرزِ تحریر کی خصوصیات
آزاد کی طرزِ تحریر مندرجہ ذیل خصوصیات کا مجموعہ ہے۔
(۱) عبارت آرائی
آزاد نے نثر میں شاعری کی ہے وہ اپنے دور کے سب سے بڑے مرصع کار ہیں۔ اس صفت میں کوئی دوسرا ان شریک نہیں وہ اپنی تحریر کو دلہن کی طرح تشبیہ‘ استعارہ اور خوبصورت الفاظ کے زیوروں سے سجاتے ہیں۔ زبان کی نزاکت‘ بیان کی لطافت‘ تشبیہ و استعارہ کی رنگینی جس قدر آزاد کی تحریروں میں قدم قدم پر ملتی ہے دوسرے نثرنگاروں کے یہاں ملنا مشکل ہے۔ وہ اس انداز سے چھوٹے چھوٹے چبھتے ہوئے فقرے تراشتے ہیں کہ ان کو آذر سخن کا لقب زیب دیتا ہے۔ ان کے مضامین اورنگ زیب کی فوجی تیاری اور سومناتھ کی فتح ان کی مرصع کاری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ رام بابو سکسینہ:
آزاد نثر میں شاعری کرتے ہیں۔
(۲) تخیل کا رنگ
آزاد کے اسلوب نگارش میں شاعرانہ تخیل اور شاعرانہ انداز کی چمک دمک قدم قدم پر نمایاں ہے۔ وہ اپنی تاریکی اور علمی کتابوں میں پڑھنے والوں کو اس طرح عالمِ تخیل کی سیر کراتے ہیں کہ پڑھنے والا اس رنگین فضا میں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ سدا اسی رنگین فضا میں مصروف گل گشت رہے۔ وہ تھکن یا اکتاہٹ کا نام نہیں لیتا۔ ان کی تحریر چاہے وہ تاریخی ہو یا علمی پڑھ کر ذہن پر ایک خوشی اور نشاط کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ بقول حالی:
آزاد کی نیرنگِ خیال تمثیل نگاری کا نمونہ ہے۔ اس دور میں ہی نہیں بلکہ آنے والے دور میں بھی اس کی تقلید کی جائے گی۔
(۳) تمثیل نگاری اور مکالمہ
آزاد کی ایک خوبی تمثیل نگاری اور مکالمہ بھی ہے۔ اپنی تحریروں میں وہ کسی حالت یا چیز کو ذی روح شخص قرار دے کر اس کی صفات و حرکات پیش کرتے ہیں۔ دربارِ اکبری اورآبِ حیات وغیرہ میں تو تمثیلی ٹکڑے کہیں کہیں ملتے ہیں لیکن ان کی تصنیف نیرنگِ خیال پورے طور پر اسی تمثیلی رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ دربار اکبری میں لکھتے ہیں:
غفلت نے جب آنکھ کھولی اور ہمت نے اپنے قدم پیچھے ہٹالیے تو حوصلہ مندی نے جمائی لی۔
تمثیل نگاری کی ایک اہم کڑی مکالمہ ہے کبھی تو بے جان چیزیں مجسم ہو کر باتیں شروع کردیتی ہیں اور کہیں وہ خود راوی بن کر فطرت سے محو تکلم نظر آتے ہیں۔ اس تمثیل نگاری اور مکالمے کی وجہ سے اس کی تحریروں میںڈرامائی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جو قاری کے لئے دلچسپی کا باعث بن جاتی ہے۔بقول ڈاکٹر محی الدین :
آزاد خوش گوئی کیلئے پیدا ہوئے تھے۔ اور خوش گوئی ان کی تحریروں میں قوس و قزح کے سے رنگ بکھیر دیتی ہے۔ ان کی تحریروں میں آبشاروں کاسا ترنم‘ کہساروں کا سا تکلم‘ چاندنی رات کا رنگین تبسم نظر آتا ہے۔ کہیں ہوا کا فراٹا ہے تو کہیں فضا کا سناٹا‘ کہیں غنچوں کی چٹک ہے اور کہیں پھولوں کی مہک‘ کہیں ستاروں کی چمک تو کہیں بجلی کی کڑک‘ کہیں چاند کی تابانی تو کہیں سورج کی درخشانی‘ کہیںرقصِ طاوس ہے تو کہیں صبح کا نکھار اور کہیں شام کا سلونا پن۔ غرضیکہ یہ جذبات کی وہ چاندنی ہے جو ان کی تحریروں میں آنکھ مچولی کھیلتی نظر آتی ہے۔
(۴) فن برائے فن
آزاد فن برائے فن کے قائل ہیں۔ سرسید کی مقصدیت سے انہیں کوئی لگاﺅ نہیں۔ قاری کے دل و دماغ کی تسخیر ان کا مطمع نظر ہے اور وہ اس میں کامیاب ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ وہی آزاد ہیں جو جدید اردو شاعری کے بانی ہیں ۔ موضوعاتی نظمیں لکھتے ہیں مگر نثرنگاری میں بالکل رنگ بدل لیتے ہیں۔ الفاظ کے طوطا مینا اڑاتے ہیں اور ہر بات کو تشبیہ اور استعارے کے پردے میں کہتے ہیںاور اسی کو فن گردانتے ہیں۔ بقول پروفیسرمحمد حسین عسکری:
آزاد اپنے معاصرین میں ایک ایسے بزرگ ہیں جو ایک حقیقی ادیب تھے ان کی معاصرین ادب کو کسی خاص مقصد کے لئے استعمال کرتے تھے اور ان کی ادیبانہ حیثیت قانونی تھی۔ آزاد کے ہاں شوکت الفاظ‘ خوشنما تراکیب کا حسن و جمال‘ قافیہ کا امتزاج‘ تشبیہات و استعارات کا دلکش انتخاب اور تخےل کی عجوبہ کاریاں اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ کرتی ہیں کہ آزاد فن کو ہر چیز پر فوقیت دیتے تھے۔
(۵) حکایتی اسلوب
آزاد کے اسلوب کے سلسلے میں ایک قابل ذکر چیز ان کی حکایات ہیں وہ کسی بیان کو مﺅثر اور واضح بنانے کے لئے حکایت کا سہارا لیتے ہیں ۔ حکایت اس چھوٹی کہانی کو کہتے ہیں جس میں حکمت و دانش کی بات کرداروں کے عمل اور زبان سے ظاہر کی جئے۔ اس میں مختصر سا پلاٹ بھی ہوتا ہے جو صرف اشاروں کا درجہ رکھتا ہے۔ اختصار حکایت کا سب سے بڑا وصف ہے جب قصہ حکایت سے بھی مختصر ہوتو اسے نکتہ یا لطیفہ کا نام دیا جاتا ہے اور آزاد اس حکایت اور لطیفہ کے بادشاہ ہیں۔ موضوع تاریخ جیسا خشک ہی کیوں نہ ہو آزاد حکایت اور لطیفہ کے زور سے اسے دلچسپ بنادیتے ہیں۔ دربار اکبری اس کی ایک روشن مثال ہے۔
(۶) طنزو ظرافت
آزاد کی تحریروں میں طنزیہ اور مزاحیہ عنصر بھی نمایاں ہے ۔ مگر آزاد ان طنز نگاروں میں سے ہیں جن کی تحریروں میں طنز کسی کو مجروح کرنے کا ذریعہ نہیں بنتا۔ وہ طنز ملیح کے مالک تھے۔ ان کی طنز سے وہ شخص بھی مزہ لیتا ہے جس پر طنز کیا گیا ہو۔ دراصل ان کی طنز کو ان کی شائستگی اور تہذیب نے زہر ناک ہونے سے بچالیا ہے۔ وہ پرانی شرافت و تہذیب کا مجسمہ تھے وہ پرانی وضعداری کے پرستار تھے اور ان چےزوں کا عکس ان کی تحریروں میں بھی نمایاں ہے۔
(۷) مرقع نگاری
مرقع نگاری ایک وقت میں کسی شخص یا چےز کی پوری زندگی کی تصویر ہوتی ہے۔ یہ بڑا جامع فن ہے جس میں تمام ماحول اور فضا کو ایک تصویر میں پیش کرنا ہوتا ہے۔ ان کی کتاب’آبِ حیات ہو یا دربار اکبری ‘ قصص ہند ہویا نیرنگِ خیال‘ ہر ایک میں مرقع نگاری کے عمدہ نمونے ملتے ہیں۔
اپنی تصنیف نیرنگِ خیال کے ایک مضمون شہرتِ عام اور بقائے دوام کا دربار کے ایک اقتباس میں سودا کے بارے میں لکھتے ہیں:
ان میں ایک شخص دیکھا کہ جب بات کرتاتھا تو اس کے منہ سے رنگارنگ پھول جھڑتے تھے۔ لوگ ساتھ ساتھ دامن پھیلاتے تھے مگر بعض پھولوں میں کانٹے ایسے ہوتے تھے کہ لوگوں کے کپڑے پھٹے جاتے تھے۔
(۸) ایجاز و اختصار
آزاد ایجاز و اختصار کے قائل ہیں۔ وہ مختصر سے مختصر لفظوں اور فقروں میں بڑی سے بڑی بات کہنے پر قادر ہیں۔ آبِ حیات میں مختلف شاعروں کے کلام پر کئے گئے تبصرے ان کی تحریر کا نمایاں عکس اور ایجاز اختصار کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ انہوں نے چند لفظوں اور چند جملوں میں جو بات کہہ دی ہے اس کی تائید یا تردید میں نقادوں کو صفحوں کے صفحے سیاہ کرنا پڑے۔
(۹) مبالغہ آرائی
حکایت و لطیفہ سے دلچسپی اور تخیل سے وابستگی نے ان کے قلم کو مبالغہ آرائی کا راستہ دکھایا۔ انہوں نے تاریخ نویسی کرتے وقت بھی مبالغہ آرائی کی اور تنقید کرتے وقت بھی۔ نتیجتاً ا ن کی تحریریں ساقط العتبار ہو کر رہ گئیں۔ انہوں نے آبِ حیات میں ہی نہیں دربارِ اکبری میں بھی تخیل کے زور سے ایسی ایسی گلکاریاں کی ہیں کہ بایدو شاید اسی بناءپر وہ ثقہ نقادوں میں ”مردِ تحقیق“ تسلیم نہیں کیے جاتے۔ ُعلامہ شبلی نعمانی کہتے ہیں:
آزاد اردو معلی کا ہیرو ہے۔ وہ تحقیق کا مردِ میدان نہیں مگر دو چار گپیں بھی ہانک دیتا ہے تو وحی معلوم ہوتی ہیں۔
(۰۱) لب و لہجہ
آزاد کے لہجے میں جذباتی اپیل پائی جاتی ہے۔ وہ رعایتِ لفظی‘ روزمرہ اور محاورے‘ ادبی چٹکلوں اور لطیفوں سے اپنی تحریروں میں شگفتگی اور شوخی اور توانائی پیدا کرتے ہے اور اپنے شگفتہ لہجہ سے قاری کے دل کو مسحور کرلیتے ہیں۔ان کی تحریر اتنی آسان بھی نہیں جتنی سرسید اور حالی کی اور اتنی مشکل بھی نہیں جتنی جتنی سرور کی۔
بقول شاعر
بخشا ہے اس نے نثر میں اک کیفِ نغمگی
رقصاں ہے لفظ لفظ میں اک موجِ زندگی
(۱۱) مختصر جملے
آزاد اپنی تحریروں میں سبک روی اور لطافت پیدا کرنے کے لئے ہلکے پھلکے اور مختصراور خوبصورت جملوں کا سہارا لیتے ہیں۔ ان کی تحریروں میںاگرچہ پھیلاﺅ ہوتا ہے مگر وہ چھوٹے چھوٹے حسین جملے استعمال کرکے قاری کو ذہنی تھکن سے بچالیتے ہیں۔ بقول علامہ شبلی نعمانی:
الفاظ کا انتخاب‘ لفظوں کی شیرینی‘ محاورات کی صحت‘ اور جابجاتشبیہات اور استعاروں کی گلکاری عبارت میں وہ حسن پیدا کردیتی ہے کہ پڑھتے چلے جائیں اور سیری نہیں ہوتی۔
(۲۱) بیانیہ نثر
مولانا آزاد بیانیہ نثر لکھتے ہیں۔ ان کے بیان میں حکایت کا دلچسپ انداز ہوتا ہے۔ وہ اپنے جادو بھرے اسلوب سے ذہنی طور پر قاری کے بہت قریب ہوجاتے ہےں۔ ان کا یہ بیانیہ انداز اس قدر لطیف‘ رنگین‘ مﺅثر اور رواں ہے کہ قاری ایک ایک لفظ پر چٹخارے لیتا ہے۔” آبِ حیات“ ان کی بیانیہ نثر کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔
حرفِ آخر
مولانا محمد حسین آزاد اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ نظمِ آزاد اس کا ثبوت ہے۔ وہ نقاد تھے۔سخندانِ فارس اور آبِ حیات اس بات کے شاہد ہیں۔ وہ تاریخ نویس تھے۔ قصص ہند اور دربارِ اکبری اس کے گواہ ہیں۔ انہیں کوئی شاعر‘ نقاد‘ تاریخ نویس نہ بھی مانے تو بھی ان کی ابدی اور لازوال شہرت اور حےثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ اردو زبان کے متوالوں کے نزدیک وہ صاحب طرز انشاءپرداز تھے۔ بقول مہدی افادی:
سرسید سے معقولات الگ کرلیجئے تو کچھ نہیں رہتے۔ نذیر بغیر مذہب کے لقمہ نہیں توڑتے۔ شبلی سے تاریخ لے لیجئے تو قریب قریب کورے رہ جائیں گے۔ حالی بھی جہاں تک نثر کا تعلق ہے سوانح نگاری کے ساتھ چل سکتے ہیں لیکن آقائے اردو مولانا محمد حسین آزاد صرف ایک ایسے انشا پرداز ہیں جن کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں۔
ایک تعارف
مولانا الطاف حسین حالی کو اردو ادب میں بے حد اہمیت حاصل ہے۔ اس کی پہلی وجہ آپ کی اردو نثر اور اردو نظم دونوں میں یکساں شہرت و مقبولیت ہے اور دوسری خاص وجہ یہ ہے کہ حالی دورِ جدید اور دور متوسطین کے درمیان ایک مضبوط کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غالب‘ شیفتہ اور مومن جیسے بلند پایہ شاعروں سے جتنی بھی قربت آپ کو حاصل تھی اس نے آپ کی فنکارانہ صلاحیتوں کو بہت زیادہ جلا بخشی۔ حالی نے دور جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے میں دورِ قدیم کی خوبیوں کو نظرانداز نہیں کیا۔
حالی کے زمانے میں غیر ملکی اقتدار نے اپنی گرفت مضبوط کرلی تھی۔ معاشرہ انحطاط کا شکار تھا اور کسی بھی راہ کے تعین کرنے کا قطعی فیصلہ مشکل تھا۔ ایسے دور میں پروان چڑھنے والے حالی دنیائے ادب میں اس طرح روشن ہوئے کہ ان اصلاحی کارنامے آئندہ نسلوں کے لئے مشعلِ راہ بنے۔بقول شاعر
فکر کو سچائی کا نغمہ دیا
شاعری کو اک نیا لہجہ دیا
گرم ہے جس سے لہو افکار کا
عشق کو حالی نے وہ شعلہ دیا
حالی کی نثرنگاری کی خصوصیات
حالی کی نثرنگاری کی اہم خصوصیات درج ذیل ہیں۔
(۱) تنقید نگاری
اردو میں حالی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے فنِ تنقید کو صحےح طور پر اپنایا۔ مقدمہ حالی کی نہایت اہم اور لازوال تصنیف ہے۔ اس سے اردو ادب میں باضابطہ تنقید کا آغاز ہوتا ہے۔ اردو تنقید کی دنیا میں مقدمے کو تنقید کا پہلا صحیفہ کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر شوکت حسین سبزواری کہتے ہیں:
ہماری شاعری دل والوں کی دنیا تھی۔ حالی نے مقدمہ لکھ کر اسے ذہن دیا۔ بیسویں صدی کی تنقید اسی کے سہارے چل رہی ہے۔
(۲) سواغ نگاری
اردو میں جدید طرز کی سواغ عمری کے بانی حالی ہیں۔ ان کی تمام سواغ عمریاں ایک خاص نقطئہ نظر کے تحت لکھی گئی ہیں۔ وہ افادیت کا ایک مخصوص تصوررکھتے ہیں۔ شیخ سعدی کی سواغ حیاتِ سعدی لکھ کر قوم کو انہوں نے ایک شاعر‘ علم اور معلمِ اخلاق سے روشناس کریا۔ اس کتاب کے بارے میں شبلی جیسے کٹر نقاد کو بھی معاصرانہ چشمک کے باوجود بے ساختہ داد دینی پڑی۔ان کی تصنیف کردہ سواغ عمریوں میں حیاتِ جاوید بھی ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ یہ ایک مفصل اور جامع کتاب ہے ۔
علامہ شبلی نعمانی کہتے ہیں:
یہ ایک دلچسپ‘ محفقانہ اور بے مثل سواغِ عمری ہے۔
ڈاکٹر مولوی عبد الحق کہتے ہیں:
ہماری زبان میں یہ اعلی اور مکمل نمونہ سواغِ عمری کا ہے۔
(۳) مدعا نگاری
حالی کی غرض اپنے مضمون کو ادا کرنے اور مطلب کو وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے ان کی تحریروں میں مبالغہ آرائی کا رنگ نہیں ہوتا ہے۔ انہوں نے جس مضمون پر قلم اٹھایا ہے اس کے مطالب کو کم سے کم رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وہ بڑے سچے اور دیانت دار مدعا نگار تھے۔
ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں:
حالی کو اپنے زمانے کا سب سے بڑا مدعا نگار کہا جاسکتا ہے۔
(۴) سرسید کا اثر
حالی کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ ان کے خیالات سرسید کی آواز یا بازگشت ہیں اور اس نسبت سے ان کا اسلوب بھی سرسید سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ بلاشبہ حالی کے اسلوب مےں سرسید کی بعض باتیں ملتی ہیں۔ جیسے سادگی‘ منطق اور اظہار بیان میں بے تکلفی۔ لیکن ان کی نثر میں سرسید کے مقابلے میں جہاں تنوع کم ہے وہاں سادگی زیادہ ہے۔
آل احمد سرور کہتے ہیں:
حالی کے یہاں سرسید سے بھی زیادہ جچے تلے انداز میں فطرت پرستی نظر آتی ہے۔
(۵) مقصدیت
حالی کی تمام نثری کاوشوں میں مقصدیت کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔ ان کی مقالہ نگاری کی ابتدا‘ ان کا پہلا مقالہ سرسید احمد خان اور ان کا کام سے ہوئی جس میں انہوں نے خاتم پر لکھا ہے کہ:
میں نے جو کچھ لکھا اس سے مجھے سرسید احمد خان کو خوش کرنا منظور نہیں۔ نہ ان کے مخالفین سے بحث مقصود ہے بلکہ اس کا منشاءوہ ضرورت اور مصلحت ہے جس کے سبب سے بھولے کو راہ بتائی جاتی ہے اور مریض کو دوائے تلخ کی ترغیب دی جاتی ہے۔
(۶) خلوص و سچائی
حالی کی تحریر میں اثر و تاثیر کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے خیالات میں خلوص و سچائی ہے یعنی دل سے بات نکلتی ہے اور دل پر اثر کرتی ہے ان کا یہ شعر ان کی نثر پر بھی پورا اترتا ہے۔ جس میں حالی کہہ رہے ہیں کہ اے شعر دلفریب نہ ہو تو تو غم نہیں
پر تجھ پہ صیف ہے جو نہ ہو دل گدازت
(۷) انگیریزی الفاظ کا استعمال
سرسید اور ان کے رفقاءنے شعوری طور پر اپنی تحریروں میں انگیریزی الفاظ کو استعمال کیا۔ حالی کے یہاں بھی انگریزی کے الفاظ کا استعمال نظر اتا ہے۔ چند فقرے ملاحظہ فرمائیں:
جس کے لٹریچر کی عمر پچاس برس سے زائد نہیں
جس کی گرائمر آج تک اطمینان کے قابل نہیں ہوئی۔
(۸) مقالہ نگاری
اردو میں مقالہ نگاری کی ابتداءسرسید کے رسالے تہذیب الاخلاق سے ہوئی اور اسی کی بدولت حالی کے جوہر بھی دیکھنے کو ملے۔ حالی کے مقالات کو بہ لحاظِ موضوع کئی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس کا پہلا اور بنیادی مقصد سرسید اور ان کے مقاصد کی تبلیغ اور جدید نظریہ کی ترجمانی ہے جس مین مسلمانوں کے سیاسی‘ سماجی ‘ صنعتی اور تعلیمی شعور کو بیدار کرنا اور نئی تعلیم کو فروغ دینا شامل ہے۔ جب کہ ان مقالات کا دوسرا حصہ تبصروں‘ خطابات ‘ کانفرنسوں اور جلسوں کے لیکچروں پر مشتمل ہے۔
(۹) منتوع موضوعات
حالی کی شخصےت کی طرح ان کے موضوعات میں بھی بہت تنوع ہے۔ وہ اپنے اسلوب کو اپنی تصنیفی ضروریات کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ وہ پہلے مصنف ہیں جنہوں نے ادبی‘ سائنسی‘ تنقیدی و متانت اور روانی سے لکھے چلے جاتے ہیں۔ لیکن قدیم مزاجوں کو حالی کا یہ انداز روکھا اور پھیکا نظر آتا ہے اور وہ ان کی تحریروں کو غیر معیاری قرار دیتے تھے لیکن یہی انداز و اسلوب تو حالی کا سرمایہ ہے۔
معروف تنقید نگاروں کی آراہ
حالی اردو کے ایک عظیم نثرنگار‘ نقاد“ اور سواغ نگارہیں۔ بقول مولوی عبدالحق:
نثر حالی میں تین کتابوں یعنی یادگارِ غالب‘ مقدمہ شعروشاعری اور حیات جاوید کو درجہ کمال حاصل ہوچکا ہے یعنی یہ وہ کتابیں ہیں جو اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گی اور ہمیشہ زوق و شوق سے پڑھی جائیں گی۔
پروفیسر احتشام حسین حالی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوتے رقم طراز ہیں:
حالی نے قدیم ادبی سرمائے کو پرکھنے اور اس میں اچھے کو برے سے الگ کرلینے کے راز بتائے۔ انہوں نے روایتوں کا احترام کرنا سکھایا۔
عبادت بریلوی لکھتے ہیں:
حالی بڑے نقاد تھے انہیں اردو کا سب سے بڑا نقاد بھی کہاجاتاہے۔ کیونکہ انہوں نے اس فن کی طرف اس وقت توجہ دی جب کسی کو اس کا علم ہی نہیں تھا۔ لوگ اس سے ناواقف اور نا آشناتھے۔ حالی نے تنقید کی طرف توجہ کرکے اردو ادب میں تنقیدی شعور کی شمع روشن کی اور اس شمع کو ہاتھ میں لے کر آگے بڑھے اور اس کی روشنی میں ان گنت منزلیں طے کیں ۔ حالی کی تنقید نہ ہوتی تو اردو ادب کا ان منزلوں سے ہمکنار ہونا تو درکنار ہونا تو دور کی بات‘ ان کا تصور بھی ناممکن تھا۔
ایک تعارف
ابنِ انشاءشاعر بھی ہیں‘ ادیب بھی۔ انہوں نے غزلیں‘ نظمیں اور گیت لکھے۔ شاعری میں ان کا ایک مخصوص انداز ہے۔ وہ کبھی کبیرداس کا لہجہ اختیار کرتے ہیں اور انسان دوستی کا پرچار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ایک انسان کو دوسرے انسان سے محبت کا سبق دیتے ہیں۔ کہیں اپنے اشعار میں زندگی کی اداسیوں ‘ محرومیوں اور دکھوں کا میرتقی میر کی طرح اظہار کرتے ہیں اور کہیں نظیر اکبر آبادی کی طرح علاقائی اور عوامی انداز اختیار کرتی ہیں اور بڑی سادگی‘ روانی اور عوامی زبان میں عوام کے احساس کو اردو ادب کا جامہ پہناتے ہیں۔
نثر کے میدان میں انہوں نے طنز نگاری کا انداز اختیار کیا۔ طنز میں مزاح کی آمیزش نے ان کی تحریروں کو زیادہ پر اثر بنایا دیا۔ عوام سے قریب ہونے کے لئے انہوں نے اخبارات میں کالم نویسی کا آغاز کیا‘ سفرنامے لکھے‘ اس طرح اپنے مشاہدات اور تجربات کو طنز و مزاح کے پیرائے میں بیان کرکے شہرت حاصل کی۔ اردو ادب کی ان مختلف اصناف میں ابنِ انشاءنے بڑا نام کمایا۔ طبیعت کی جولانی اور شگفتگی‘ مزاج کی حس لطافت و ظرافت اور طنز کی تراش و خراش‘ غرضیکہ سب ہی کچھ ان کی تحریروں سے نمایاں ہے۔
تصانیف
شعری کلام
- چاند نگر ( پہلا مجموعہ
- اس بستی کے اک کوچے میں دوسرا مجموعہ
- چینی نظمیں
نثری تصانیف
- اردو کی آخری کتاب
- خمار گندم
- چلتے ہو تو چین کو چلئے
- آوارہ گرد کی ڈائری
- دنیا گول ہے
- ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں
طرزِ تحریر کی خصوصیات
ابنِ انشاءکے طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات ذیل میں درج ہیں۔
(۱) تسلسلِ مشاہدہ
سفرنامہ چونکہ چشم دیدواقعات پر مشتمل ہوتا ہے اس لئے اس میں شروع سے آخر تک تسلسل کا ہونا ضروری ہے ۔ ابنِ انشاءکے سفرناموں میں یہ خوبی نظر آتی ہے کہ وہ اپنے مشاہدات کو باہم گڈمڈ نہیں کرتے وہ بڑے سلیقے سے مختلف وقعات کو ایک کڑی میں پروتے ہیں۔ ہر مشاہدہ کو علیحدہ علیحدہ بیان کرتے ہیں ۔ وہ تسلسل کے ساتھ ایک منظر کے بعد دوسرامنظر سامنے لاتے ہیں۔ اس طرح ان کا سفرنامہ مشاہدات اور تجربات کا ایک رنگین دفتر بن جاتا ہے۔ وہ تیکھے طنز اور شائستہ مسکراہٹوں سے اپنی تحریر کو اور زیادہ پر اثر بنادیتے ہیں۔
(۲) طنز و مزاح کی آمیزش
ابنِ انشاءاپنی تحریروں میں طنز و مزاح کو بڑے دلکش پیرائے میں استعمال کرنے کا فن جانتے ہیں اس لئے ان کے سفرناموں میں طنزومزاح کی آمیزش سے دلچسپی اور شگفتگی پیدا ہو گئی ہے۔ وہ جملوں اور فقروں میں طنز کی کیفیت شامل کرکے واقعات کے تانے بانے کو اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ قاری کا انہماک بڑھتا چلا جاتا ہے اور پھر مزاح کی باتیں مان کر اور پر لطف اور دلکش بنا دیتی ہے۔
(۳) مشاہدات میں قاری کی شمولیت
یوں تو سفرنامہ ذاتی مشاہدات اور تجربات کو تحریر کرنے کا نام ہے لیکن سفرنامہ کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ لکھنے والا اپنے مشاہدات کو اس طرح پیش کرے کہ قاری کی نگاہوں کے سامنے بھی وہ مناظر آجائیں اور وہ بھی خود کو ہمسفر محسوس کرے۔ انشاءکے سفرناموں میں خصوصیت موجود ہے۔ پہلے جو سفرنامے لکھے گئے ان میں مشاہدات و تجربات کے برعکس واقعات کا بیان ہواکرتے تھا لیکن انشاءکے سفر ناموں میں ان کے مشاہدے اس کے اثرات اور تجربات کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔ وہ آنکھ بند کرکے سفر نہیں کرتے بلکہ کھلی آنکھوں سے جذبات و احساسات کو بیدار کرکے چیزوں کو دیکھتے اور ان کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قاری پوری سفر میں ان کا ہمسفر ہوتا ہے اور جو کچھ وہ محسوس کرتے ہیں وہی قاری بھی محسوس کرتا ہے۔
(۴) منظر کشی
سفرنامے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ واقعات کے بیان کے ساتھ ماحول کی منظرکشی بھی کی جائے جو کچھ دیکھاجائے۔ کیونکہ کائنات میں ہر طرف فطرت کے مناظر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کاپر اثر بیان دل و دماغ کو متاثر کرتا ہے۔ وہ مناظر کی اس طرح تصویر کشی کرتے ہیں کہ کوئی بات رہ نہیں جاتی اور جس منظر سے کوئی خاص تاثر پیدا کرنا ہوتا ہے تو وہ اپنے مخصوص انداز اور تخیل کی رنگ آمیزی سی اسے اور بھی پر اثر اور نمایاں کرکے پیش کرتے ہیں اور قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے گویا وہ بھی اس منظر کو دیکھ رہا ہے یا خود وہاں موجود ہے۔
(۵) طنز و مزاح میں متانت
ابنِ انشاءچونکہ اپنی تحریروں کو طنز و مزاح سے پر اثر بنانے کے عادی ہیں۔ اس لئے ان کی ہر تحریر میں ان کا یہ رنگ جھلکتا ہے۔ ان کے سفرنامے ان کے اس اندازِ تحریر کی واضح مثالیں ہیں۔ طنز و مزاح بڑے شعور اور سلیقے کا کام ہے ورنہ تحریر میں پھکڑ پن پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ متانت اور سنجیدگی کے ساتھ طنز و مزاح کے میدان میں قدم رکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اس میں بڑے شعور اور سلیقے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے ایک طرف لوگوں کو ان کی خامیوں اور کمزوریوں کو دکھانا مقصود ہوتا ہے تو دوسری طرف لوگوں کے شعور کو بیدار کرنا ہوتا ہے جس میں تضحیک نہیں اصلاح کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک کامیاب مزاح نگار کا کام یہی ہے کہ وہ ہنسی ہنسی میں طنز کے ہلکے نشتر سے زخموں کو کریدے اور اس طرح اپنا مافی اضمیر بیان کردے کہ بات بھی بری نہ لگے اور دل پر بھی اثر کرجائے۔ ابنِ انشاءکے یہاں طنز و مزاح کی یہی خوبی پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ ان کے مزاج کی شگفتگی اور لہجے کی متانت کے سبب اس کے یہاںمزاح کی کیفیت زیرِ لب تبسم تک رہتی ہے قہقہوں میں تبدیل نہیں ہوتی۔ یہی صورت طنز کی ہے۔ وہ فقروں اور جملوں کو کچھ اس طرح ترتیب دیتے ہےں کہ ان میں چھپے ہوئے طنز کو معلوم کرکے قاری اول اپنے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں لطافت اور شگفتگی محسوس کرتا ہے لیکن بعد میں اس کی کاٹ کا احساس کرکے تڑپ اٹھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہنا چاہئے وہ نہایت متانت اورسنجیدگی کے ساتھ طنز و مزاح کی فضا قائم کرکے اپنے مقصد تحریر کو نمایاں کرتے ہیں اور اسی ہنر مندی نے انہیں بطور ایک کامیاب طنز و مزاح نگار پیش کیا ہے۔
(۶) زبان و بیان
ابنِ انشاءکی زبان سادہ اور عام فہم ہے وہ نہایت سادہ انداز میں اپنی بات بیان کردیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پیشِ نظر عام قاری ہے جو ان کی تحریروں کو پڑھے گا۔ اس لئے وہ اس بات کا بطور خاص خیال رکھتے ہیں کہ بات سادہ اور پر اثر انداز میں کہی جائے۔ ان کی منفرد تحریر خود منہ سے بولتی ہے کہ اس کے خالق ابنِ انشاءہیں۔ اپنے اسی اسلوبِ نگارش کی وجہ سے انہوں نے موجودہ دور کے ادب میں اپنے لئے ایک باوقار مقام بنایا ہے۔ بحیثیت مجموعی ان کی تحریروں میں طنز و مزاح بھی ہے۔ لطف و اثر بھی‘ شگفتگی بھی ہے۔ دلکشی بھی‘ جذبات و احساسات بھی ہیں تو معاشرت و ثقافت پر اظہار ِ خیال بھی۔ یہی سب چیزیں ہیں جو انہیں ایک منفرد منفرد نثرنگار اور شاعر کی حیثیت سے ادبی دنیا میں پیش کرتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی شاعری اور مضامین آج بھی عوام اور خواص میں مقبول ہیں۔
ایک تعارف
اردو کے ارکانِ خمسہ میں سے مولانا شبلی وہ منفرد مصنف ہیں جنہیں جامع العلوم کا لقب دیا جاسکتا ہے۔ وہ موضوعات کے تنوع کے بناءپر ”جامع الصفات اور جامع الجہات“ کہلانے کے مستحق ہیں۔ ادب کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس میں انہوں نے اپنے سکہ نہ منوایا ہو ”تاریخ ِادب اردو“ کے مصنف رام با بو سکسینہ نے سچ کہا ہے کہ:
اگر کوئی شخص ایک شاعر‘ فلسفی‘ مورخ‘ ناقد‘ ماہر تعلیم‘ معلم‘ واعظ ریفارمر‘ جریدہ نگار‘ فقیہہ‘ محدث سب کچھ ہوسکتا ہے تو وہ شبلی ہی کی ذات تھی۔
سرسید گروپ میں شبلی ہی وہ منفرد شخص ہیں جو انگریزی یا انگریزی ادب سے کماحقہ واقفیت کے باوجود معذرتی لہجہ اختیار نہیں کرتے۔ ان کی نظر اسلام کی عظمت رفتہ پر پڑتی ہے وہ تمام علوم کو مسلمانوں کی میراث سمجھتے تھے۔ اسلام‘ بانی اسلام یا مشاہیرِ اسلام پر کسی جانب سے اعتراض کئے جاتے تو پھر شبلی کا اسلوب اپنا رنگ دکھاتا ہے۔
دنیا کے کسی حصے میں مسلمانوں پر کوئی افتاد پڑی‘ شبلی کا قلم جولانیاں دکھانے لگا۔ معرکہ کانپور ہو یا جنگ طرابلس و بلقان وہ نظم میں‘ نثر میں انگریز کو لتاڑنے سے باز نہیں رہتے۔ ان کی نظموں میں ہی نہیں نثر میں خطابیہ انداز ہے۔ سرسید گروپ کے ایک نامور رکن ہونے کے باوجود ان کا اسلوب اس سب سے مختلف ہے۔ ان کی نثر میں آزاد کی طرح الفاظ کے طوطا مینا اڑانے کا رنگ نہیں جھلکتا۔ البتہ آزاد کا زورِ بیان اور قدرت کلام موجود ہے۔ شبلی کو بھی محاورہ بندی کا شوق ہے امگر ان کی عبارت محاوروں کی کثرت کی بناءپر نذیر احمد کی تحریر کی طرح انگشت نمائی کا موقع نہیں دیتی۔ ان کی تحریروں میں بھی حالی اور سرسید کی تحریروں کی طرح سادگی اور سنجیدگی موجود ہے۔ مگر یہ عالمانہ سادگی اور سنجیدگی ہے جس سے خاص و عام مرعوب ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ان عالمانہ سنجیدگی کے باوجود شبلی کی تحریروں میں شاعرانہ لطافت اور حسن خیال کا ایک اچھا امتزاج بھی ملتا ہے۔ کسی نے سچ کہا تھا کہ:
شبلی شاعرانہ دل اور فلسفیانہ دماغ لے کر پیدا ہوئے تھے۔
تصانیف
ان کی تصانیف میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘ الماعون‘ الغزالی‘ الفاروق اور موازنہ انیس و دبیر۔ اس کی علاوہ فارسی اور اردو کلام کے مجموعے‘ مضامین اور مقالات کی کئی جلدیں اور دو ایک عربی تصانیف بھی ان کی یادگار ہیں۔
طرزِ تحریر کی خصوصیات
شبلی کے طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات ذیل میں درج ہیں۔
(۱) قوت اور جوش بیان
شبلی کی تحریر کی سب سے نمایاں صفت قوت اور جوشِ بیان ہے جو ان کے احساس عظمت اور احساس کمال کی پیداوار ہے۔ وہ اپنے قاری کو ایک بلند سطح سے مخاطب کرتے ہیں۔ ان کے طریقئہ خطاب میں خود اعتمادی اور برتری کا احساس ہر جگہ نمایاں ہے۔ وہ علمی اور نسلی تفاخر کی بناءپر قاری کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں۔ انہیں ذمانہ کی جہالت کا پورا پورا احساس ہے۔ وہ موقع کے لحاظ سے کسی جگہ خطیب بن کر‘ کہیں مدرس بن کر‘ کہیں واعظ بن کر اور کہیں فلسفی بن کر قاری سے مخاطب ہوتے ہیں ۔ ان کی تحریر پڑھ کر قاری کی طبیعت میں ایک جوش اور ہیجان پیدا ہوجاتا ہے۔ ان کا اسلوب ان کے موضوع کا تابع ہے۔ ان کی تحریروں میں جوش اور ولولہ اپنے شباب پر نظر آتے ہیں۔ مثلاً سیرت النبی ﷺ کی ولادت کے موقع پر انہوں نے جو انداز تحریر اختیار کیا ہے اس سے نہ صرف شبلی کا دلی جوش اور ولولہ نظر آتا ہے بلکہ قاری کے دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہوجاتی ہیں۔
(۲) ایجازو اختصار
ایجاز و اختصار شبلی کی تحریروں کی دوسری بڑی خصوصیت ہے۔ ایجازو اختصار کو نطم و نثر دونون کی خوبی سمجھا جاتا ہے۔ ایجاز و اختصار سے مراد یہ ہے کہ بڑی سے بڑی بات کو مختصر سے مختصر انداز میں اس طرح بیان کیا جائے کہ قاری کا ذہن بھی فوراً ا کے مفہوم کو پاجائے۔ شبلی کو یہ فن آتا ہے ان کے چھوٹے چھوٹے جملوں میں وہ جہاں معنی پوشیدہ ہوتے ہیں جو کئی پیراگرافوں میں بھی نہیں سما سکتے۔ بیان کے اختصار کے لئے وہ شاعرانہ وسیلوں سے بھی کام لیتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں تشبیہہ کم تر استعمال ہوئی ہے اور استعارہ زیادہ‘ وہ آزاد کی طرح مرکب تشبیہوں اور مراتہ النظیر کے سلسلوں میں کم الجھتے‘ حالی کی تحریروں کی طرح تمثیلوں کی بھی بھرمار نہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ ان کی تحریروں میں ”استعارہ“ جاری و ساری ہے۔
(۳) مقصدیت
شبلی بھی ایک مقصدی ادیب ہیں۔ دبستانِ سرسید سے تعلق رکھنے والے ہر ادیب کی طرح ان کے لئے بھی مسلمانوں کی اصلاح بہت اہمیت رکھتی تھی۔ انہوں نے اپنے لئے تاریخ کا میدان منتخب کیا۔ ہیروز آف اسلام پر کام کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ چنانچہ الماعون رح، سیرت النعمان رح، الفاروق اورسیرت انبی صلی اللہ علیہ وسلم(پہلی دو جلدیں) اس سلسلے کی اہم کڑیاں ہیں۔ انوں نے اپنی کتابوں میں اپنے مشاہیر کے متعلق پھیلی ہوئی غلط باتوں کو رد کردیا ۔ متعصب عیسائی مورخوں کی اعتراضات کے جواب دئیے بلکہ ان کو مسلمانوں کی موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے بطورِ نمونہ پیش کیا اور مسلمانوں کو اپنے شاندار ماضی سے اگاہ کرکے حال میں ترقی کا راستہ دکھانا شبلی کا مطلوب و مقصود تھا۔
(۴) بے ساختگی
بے ساختگی سرسید‘ حالی اور شبلی کی تحریروں کا مشترکہ وصف ہے۔ مگر ہر ایک کی بے ساختگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سرسید کے ہاں یہ ہمیں بے ربط جملوں‘ عامیانہ محاوروں‘ پیچیدہ اور بھدی ترکیبوں کی صورت ملتی ہے۔ حالی کے ہاں یہ صفت سرسید سے اچھی حالت میں ہے۔ کیونکہ ان کی تحریریں سرسید سے زیادہ سلیس اور ہموار ہیں۔ مگر ان خوبیوں کے باوجود حالی کا ذاتی جوہر یعنی دھیما پن اسے ابھرنے نہیں دیتا۔ شبلی کی بے ساختگی ان دونوں سے الگ ہے۔ اس بے ساختگی میں کوئی عیب نہیں۔ اس میں سادگی ہے‘ چستی ہے وہ ہر بات بے ساختہ کہتے چلے جاتے ہیں۔ ایک لفظ بھی کہیں بلا ضرورت نظر نہیں آتا۔
(۵) تہذیبی احساس
شبلی کی تحریروں میں مشرق پرستی اور تہذیبی تفاخر کا احساس بھی جھلکتا ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کی تہذیب کو برتر ثابت کرنے کے لئے انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کردیں۔ ان کا دور مشرقی اور مغربی تہذیب میں شدید تصادم کا دور تھا۔ انگریزی تہذیب کی چمک دمک نے عام مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے عزت ماب لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کردیا تھا۔ وہ اپنے ماضی کا ذکر کرتے ہوئے شرماتے تھی۔ وہ ہر بات میں”معذرت“ چاہتے نظر آتے تھے۔ یہ شبلی ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو احساس کمتری اور معذرتی لب و لہجے سے نجات دلائی۔ ماضی کے کارناموں کو سامنے رکھا۔ مغربی معترضوں کو مدلل جواب دیے۔ مغرب کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کہنے کی جرات دلائی‘ ذہنی طور پر ابوالکلام‘ ظفر علی خان وغیرہ شبلی کے ہی پیروکار ہیں۔
مرقع ادب کے مرتبین نے بالکل درست لکھا ہے کہ:
ان کے یہاں بھی مولانا آزاد کا سا تہذیبی احساس ملتا ہے۔
(۶) تخیل کا عنصر
ان کی تحریروں میں تخیل کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہے کہ دماغ فلسفیانہ اور دل شاعرانہ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ وہ بھی آزاد کی طرح چھوٹی چھوٹی حکایات اور علم و دانش سے بھرپور نکتے بیان کرکے عبارت میں رنگینی پیدا کردیتے ہیں۔ لیکن وہ محض تخیل کے اسیر بن کر نہیں رہ گئے ۔ انہوں نے فن کی خاطر مقصد کو قربان نہیں ہونے دیا۔ الغرض اردو ادب میں شبلی کو جو مقام ملا ہے اس کی بناءعلمی بھی ہے اور ادبی بھی۔ وہ نقاد‘ شاعر‘ مورخ‘ فلسفی‘ ماہرتعلیم‘ سوانح نگار سب کچھ ہیں مگر ان کا سب سے بڑا کارنامہ اس کا حسین اسلوب نگارش ہے۔
(۷) تنقید نگاری
شبلی کا اندازِ تنقید اگرچہ بڑی حد تک مشرقی ہے مگر انہوں نے جدید تنقیدی نظریات سے بھی روشنی حاصل کی ہے۔ اس طرح ان کی تنقیدوں میں جدید اور مشرقی اندازِ تنقید کے امتزاج سے ایک اور خاص توانائی پیدا ہوگئی ہے۔ ان کی تنقیدوں میں غیر جانبداری کے ساتھ ساتھ علمی‘ تحقیقی اور ادبی شان پائی جاتی ہے۔وہ جو بات بھی کہتے ہیں وہ بڑی مدلل اور واضح ہوتی ہے۔ استدلال کے اعتبار سے وہ سرسید کے مانند ہیں اور اپنی تحریروں میں ادبی چاشنی پیدا کنے کے لحاظ سے مولانا آزاد کے مشابہ۔
(۸) مورخانہ عظمت
اگرچہ اردو میں سیرت نگاری کی ابتداءحالی نے کی لیکن شبلی بھی اس میدان میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ حالی نے صرف ان شخصیتوں کے سوانح حیات لکھے جن سے یا تو وہ ذاتی طور پر متاثر تھے یا جنہیں ہماری معاشرے میں مقبولیت حاصل تھی۔ مثلاً غالب‘ سرسید‘ سعدی۔ اس کے برعکس شبلی نے جن اکابر کی سوانح عمریاں لکھیں انہیں ہماری دینی‘ سیاسی اور ملی زندگی میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ مثلاً حضرت عمر فاروق رضہ (الفاروق)‘ امام غزالی رح (الغزالی)‘ امام ابو حنیفہ رح ( سیرت نعمان) وغیرہ۔
(۹) ادبی لہجہ
شبلی کی تاریخی اور تنقیدیتحریروں میں بھی ادبی رچاﺅ پایا جاتا ہے۔ وہ خشک سے خشک موضوع اور ٹھوس علمی مسائل کو بھی شگفتہ ادبی زبان میں ادا کرتے ہیں۔
(۰۱) تحقیقی رنگ
شبلی کی تحریروں میں ایک خاص محققانہ شان پائی جاتی ہے۔ ان کی تصنیف سے ان کے عمیق مطالعے‘ تحقیقی اسلوب اور علمی بصیرت کا بھرپور تاثر ملتا ہے۔ انہوں نے اپنی تاریخی‘ تنقیدی اور ادبی تصانیف میں اپنی تحقیقی کاوش کا حق پوری طرح ادا کیا ہے۔
(۱۱) شاعرانہ اسلوب
شبلی اپنی نثر میں تاثیر کا عنصر پیدا کرنے کے لئے شاعرانہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ خوبصورت الفاظ‘ ہلکے پھلکے محاوروں اور حسین ترکیبیں ان کی نثر میں شگفتگی اور رعنائی پیدا کردیتی ہیں۔ تحریر میں ادبی حسن پیدا کرنے کے لئے بعض اوقات موزوں اشعار سے بھی کام لیتے ہیں۔
(۲۱) مبالغہ آرائی
شبلی بعض اوقات اپنے خطیبانہ آہنگ اور جذباتیت کی رو میں بہہ کر حقیقت بیانی سے بہت دور نکل جاتے ہیں۔ اس قسم کا ولولہ انگیز اندازِ تحریر قوم میں بیداری کی لہر دوڑانے کیلئے ہوسکتا ہے مگر مورخ کی شایانِ شان نہیں ہوتا۔
ناقدین کی آراہ
ڈاکٹر حسین کے الفاظ میں:
شبلی ایک صاحب اسلوب نثر نگار ہیں۔ شبلی نے جو اسلوب اردو کو دیا وہ گوناگوں اوصاف کا حامل ہے۔ شبلی نے منطقی فکر کو شاعرانہ تخیل میں سمو کر ایک ایسا دلکش اسلوبِ بیان ایجاد کیا جس نے ان کی تحریر کے دائرہ اثر کو بہت وسیع کردیا۔ یہ اسلوب تخیل کے تاریک گوشوں پر عقل کی روشنی ڈالتا ہے۔ فکر کے بے رنگ خاکوں میں شعر کا رنگ بھرتا ہے اور جس طرح دوربین مکان کے فرق کو مٹادیتی ہے یہ زمانے کے فرق کو مٹا کر ماضی کو حال بنادیتے ہیں۔
بقول مہدی الافادی:
شبلی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے تاریخ پر فلسفہ کا رنگ چڑھایا اور نکتہ آرائیوں سے ایک مستقل فن بنادیا۔
ڈاکٹر خورشید اسلام کا بیان ہے کہ:
شبلی پہلے یونانی ہیں جو ہندوستان مین پیدا ہوئے۔ وہ اگر انشاءپرداز نہ ہوتے تو مصور ہوتے۔
شرر
ایک تعارف
جس طرح اردو میں معاشرتی اور اصلاحی ناول نگاری کی ابتداءمولوی نذیر احمد سے ہوتی ہے۔ اس طرح تاریخی ناول لکھنے کا سہرا مولانا عبدالحلیم شرر کے سر ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ناول لکھنا ان دونوں بزرگوں کا مقصد نہ تھا بلکہ اصلاح قوم کا مقصد مدِنظر تھا اس لئے اگر ان کے ناول آج کے معیارِ ناول نویسی پر پورے نہیں اترتے تو قصور ان کا نہیں بلکہ ان نقادوں کا ہے جو ان بزرگوں کو ان کے دور سے الگ کرکے دیکھتے ہیں۔ دونوں اپنے دور کے مقبول ترین ناول نگار تھے۔ نذیر احمد کے برعکس شرر بڑے زود نویس تھے۔ اپنے رسالے دلگداز کے لئے بالاقساط لکھتے اور لکھتے ہی چلے جاتے۔ لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے۔ بغیر اجازت کتابی صورت میں چھاپ بھی دیتے۔ شرر کو فرصت کہاں کہ وہ اپنے کرداروں‘ مکالموں‘ زبان وبیان کی اغلاط درست کرتے‘ نتیجہ یہ نکلا کہ تصنیفات کا ایک پہاڑ کھڑا ہوگیا۔ انہوں نے صرف تاریخی ناول ہی نہیں لکھے‘ ڈرامے لکھے‘ نظمیں لکھےں‘ خیالی‘ تخلیقی‘ مذہبی اور اصلاحی موضوعات پر مضامین لکھے جو آٹھ ضخیم جلدوں میں شائیع ہوئے۔
طرزِ تحریر کی خصوصیات
شرر کی طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات ذیل میں درج ہیں۔
(۱) مدعانویسی
شرر بھی ایک مقصدی ادیب ہیں وہ سرسید کے مقتدی نہ سہی معتقد ضرور تھے۔ تاریخی ناول لکھنے سے ان کا مدعایہ تھا کہ عیسائی مشزیوں اور انگریز مصنفین خصوصاً والٹر اسکاٹ نے صلیبی جنگوں پر خامہ فرسائی کرتے وقت مسلمانوں کا کردار جو مسخ کرکے دکھایا ہے اس کا ازالہ کیا جائے۔ چنانچہ شررنے اپنے ناولوں اور مضامین کے ذریعے مسلمانوں کو ان کی عظمتِ رفتہ کی تصویر کو دکھا کر ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ ناولوں کے علاوہ مختلف مضامین میں بھی انہوں نے مسلمانوں کی دینی‘ تہذیبی اور معاشرتی اصلاح کو مدِ نظر رکھا۔
(۲) استدلال
شرر کی تحریر کی دوسری خوبی جو انہیں سرسید گروپ کے قریب لے جاتی ہے وہ ہے استدلال۔ وہ خشک واعظ نہیں۔ وہ اپنی بات پڑھنے والے سے منوانے کے لئے قرآنی آیات‘ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور تاریخی واقعات کا حوالہ دیتے ہیں جیسا کہ انہوں نے اپنے مضمون قدر نعمت بعد زوال میں قرآنی آیات‘ تاریخی دلائل دے کر اپنے موضوع کو موثر بنایا ہے۔ استدلالیت کے باوجود وہ سرسید گروپ کے عقلیت اور منطق سے دور رہے اور اس وجہ ان کا طبعی رحجان ہے جو تاریخ کی طرف راغب ہے۔
(۳) رومانیت
شرر کو رومانی دبستان کا بانی کہا جاتا ہے۔ رومان میں حسن و عشق کے قصے ہوتے ہیں۔ جذبہ و تخیل کی کارفرمائی ہوتی ہے اور یہی چیزیں ہمیں شرر کے ہاں ملتی ہیں۔ ان کی اکثر و بیشتر ناول حسن و عشق کے موضوع کے گرد کھومتے ہیں۔ ان ناولوں کی فضا میں بھی ایک حسن رچا بسا ہے۔ وہ جذب کا عالم تو نظر نہیں آتا جو بعض دوسرے رومانوی مصنفین مثلاً قاضی عبدالغفار‘ سجاد حیدر‘ یلدرم اور نیاز فتح پوری کی تحریروں کا طرہ امتیاز ہے۔ تاہم اس کے ابتدائی نمونے شرر کے ہاں ضرور نظر آتے ہیں۔
(۴) خیال آفرینی‘ تخیل
شرر شاعرانہ مزاج رکئتے تھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے ناولوں کے علاوہ اپنے مضامین میں بھی خیال آفرینی کے خوب جوہر دکھائے ہیں۔ بلکہ ان کے مضامین کا ایک بڑا حصہ ان کے تخیلی مضامین پر مشتمل ہے۔ یہ خیال آفرینی انہیں آزاد کے قریب لے جاتی ہے ان کی خیال آفرینی اس وقت اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے جب وہ کسی مقام کی منظرکشی کرتے ہیں۔ ان کے سب سے مقبول اور مشہور ناول فردوس بریں میں خیال آفرینی کے عمدہ نمونے بکثرت ہیں۔ خاص طور پر جب وہ حسن بن صباح کی جنت کا نقشہ کھینچتے ہیں تو ان کی خیال آفرینی اپنے نقطہ عروج کو پہنچ جاتی ہے۔ تخیل کی بلند پروازی کی بناءپر وہ آزاد کی طرح‘ بعض ناممکن واقعات کو ممکنات کی حد میں لاکھڑاکرتے ہیں۔
(۵) مکالمہ نگاری
شرر اپنے ناولوں میں مکالمہ نگاری سے بھی کام لیتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کے مکالموں میں جان نہیں۔ مزید برآں ان کے مکالمے بڑے طویل ہوتے ہیں۔ جن سے قاری جلد اکتا جاتا ہے۔ ان کے پیش رو نذیر احمد اور رتن ناتھ سرشار مکالمہ کے بادشاہ تھے۔ مکالمہ ان کے ناولوں کی جان ہے۔ مگر شرر نے ان سے کوئی فیض نہیں پایا۔
(۶) کردارنگاری
اگرچہ شرر کا مدعا مسلمانوں کو ان کی عظمتِ رفتہ کی داستان سناکر ان کے دلوں میں جوش اور ولولہ پیدا کرنا تھا مگر ان سے ایک زبردست غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے ایسی نامور ہستیوں پر قلم اٹھایا جو تاریخی اعتبار سے پہلے ہی زندہ و پائندہ تھیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کردار ابھر نہیں سکے۔ ان کے کردار بے جان‘ چپ چاپ اور حسن و عشق کی باتوں سے بیگانہ نظر آتے ہیں۔ فردوس بریں کا ہیرو حسین اور ہیروئن زنرد اسکی واضح مثال ہیں۔ پورے ناول میں البتہ علی وجودی کا کردار اپنی پراسرار شخصیت ‘ اپنے اعمال و افعال کی بناء پر ایک مکمل کردار کہا جاسکتا ہے۔
(۷) قوت اور جوشِ بیان
شبلی کی ایک نمایاں خصوصیت قوت اور جوشِ بیان کی مکمل جھلک ہمیں شرر کے ہاں ملتی ہے۔ وہ بھی اپنی بات کو خلوص دل سے کہتے ہیں اور پرجوش اندازِ بیان کی وجہ سے قاری کے دل و دماغ کو مسخر کرلیتے ہیں۔ وہ بھی شبلی کی طرح اپنے قاری کو ایک بلند سطح سے مخاطب کرتے ہیں۔ ان کی خطابت کی جھلک ناولوں میں ہی نہیں بلکہ مختلف مضامین میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ بعض مقام پر تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم تقریر سن رہے ہیں۔
(۸) پرتکلف منظر نگاری
ناکام کردار نگاری اور مکالمہ نگاری کے باوجود جو چیز قاری کو ان کے ناول دلچسپی سے پڑھنے پر مجبور کرتی ہے وہ ان کی پرتکلف منظر نگاری ہے۔ شرر لکھنﺅی تھے اور اردو ان کے گھر کی باندی تھی۔ منظر نگاری کے موقع پر انہوں نے اس سے خوب سے کام لیا۔ خوبصورت‘ خوش آہنگ الفاظ‘ تشبیہ اور استعارہ کی چاشنی اور تخیل کی بلند پروازی نے مل کر ان کی منظرکشی میں جان ڈال دی ہے۔بعض لوگ شرر کو ناکام منظرنگار کہتے ہیں جو حقیقت سے بالکل برعکس ہے۔
پروفیسر سلیم نے سچ کہا ہے کہ:
شرر رنگینی بیان کے اتنے شائق ہیں کہ ان کی منظر نگاری‘ بہاریہ قصیدہ کی تشبیب بن جاتی ہے۔
(۹) جذبات نگاری
شرر کو جذبات نگاری پر ماہرانہ دسترس حاصل ہے۔ ان کے کردار بے جان اور جنگ کے مردِ میدان نہ ہونے کہ باوجود عشق کے مردِ میدان ضرور ہیں۔ حسن و عشق یعنی عاشق اور معشوق کے دلوں میں مختلف موقعوں پر جو مختلف واردات اور کیفیات طاری ہوتی ہیں‘ شرر ان کا ہوبہو نقشہ کھینچ دیتے ہیں۔
اردو ادب کی تاریخ کے مصنف رام بابو سکسینہ نے ان کی جذبات نگاری کے باری میں لکھا ہے:
شرر سچ یہ ہے کہ اردو لٹریچر کی دنیا میں ایک چابکدست مصور ہیں اور جذباتِ انسانی پر حکومت کرنے والے بادشاہ ہیں۔
(۰۱) سبک اور شگفتہ انداز
شرر کی نثر دلکش اور شگفتہ ہے۔ انہوں نے میر امن کی سلاست‘ سرسید کی مقصدیت اور سادگی اور شبلی کی دینی حمیت کے امتزاج سے ایک نیا اسلوبِ بیان اختیار کیا ہے جسے قبولِ عام حاصل ہوا ہے۔ ان کی مضامین میں انشائے لطیف کی چاشنی ملتی ہے۔
(۱۱) عربی اور فارسی ادب سے استفادہ
شرر کا شاعرانہ اور ادبی ذوق بہت شستہ اور لطیف تھا۔ وہ اردو زبان کے شاعر بھی تھے۔ عربی اور فارسی سبقاً سبقاً پڑھی تھی۔ چنانچہ ان کی تحریروں میں موقع بہ موقع ان زبانوں کے اشعار‘ ضرب الامثال اور مقولے آتے ہیں اور بیان کی لطافت اور دلچسپی میں اضافہ کرتے ہیں۔
(۲۱) اردو کے کلاسیکی ادب سے استفادہ
شرر اپنی تحریروں میں صرف عربی اور فارسی ادب ہی سے استفادہ نہیں کرتے بلکہ اردو کلاسیکی ادب بھی ان کے پیشِ نظررہتا ہے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں قدیم اردو شعراءکے اشعار اور داستانی ادب کے مقولے‘ ضرب الامثال اور تلمیحات موقع محل کی مناسبت سے استعمال کی ہیں جو انکے اسلوب کو خوبصورت اور موثر بنادیتی ہیں۔
(۳۱) انگریزی الفاط کا استعمال
سرسید احمد خان اور ان کے رفقاء کی تحریروں میں انگریزی الفاظ کا استعمال بڑی کثرت سے ہوا ہے۔ شرر اگرچہ براہ راست سرسید احمد خان اور انکی تحریک کے زیراثر نہ تھے۔ لیکن ان کے دبستان کی بعض باتیں غیر محسوس طور پر ان کے طرز نگارش میں بھی داخل ہوگئیں۔ چنانچہ شرر کے ہاں بھی کہیں کہیں انگریزی الفاظ کا استعمال دکھائی دیتا ہے جو ناگوار نہیں گزرتا۔
(۴۱) سلاست و روانی
شرر کے بیشتر موضوعات علمی اور تاریخی تھے۔ تاہم ان کا اسلوب اس قدر شگفتہ ہے کہ کہیں مشکل نویسی کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کی تحریریں رواں دواں ہیں۔ یہ خصوصیت دراصل شرر کی کمال مشاقی اور اظہار و بیان پر ان کی کامل دسترس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
(۵۱) قواعد زبان سے انحراف
شرر زبان کی سلاست اور روانی کو قائم رکھنے اور بے تکلف اظہار مدعا کے لئے بعض اوقات زبان کے لگے بندھے قواعد سے انحراف بھی کرلیتے ہیں۔ مثلاً وہ علمی الفاظ و اصطلاحات کی جگہ کہیں کہیں عوامی الفاظ و اصطلاحات استعمال کرلیتے ہیں۔
(۶۱) جدت پسندی
شرر جدت پسند ادیب تھے۔ پامال راستوں پر چلنا انہیں پسند نہ تھا۔ انہوں نے اپنے لئے اظہار کے نئے سانچے وضع کئے۔ اس طرح مضامین میں بھی وہ صرف پہلی باتوں کو روایت کردینے پر اکتفا نہیں کرتے۔ بلکہ تحقیق و جستجو سے اصل حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہں نے اپنے مضامین میں نئے نئے عنوانات تلاش کئے جن پر ان سے پہلے کسی نے قلم نہیں اٹھایا تھا۔
(۷۱) محاکات
محاکات یعنی لفظی تصویر کشی میں شرر کو خاص مقام حاصل ہے۔ تصویر مناظر کی ہو یا انسانی جذبات و کیفیات کی‘ شرر مناسب و موزوں الفاظ کی مدد سے اسے بڑی خوبصورتی سے ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم خود یہ مناظر دیکھ رہے ہیں۔ اور سصحیح جذبات و کیفیات ہم پر بھی وارد ہورہی ہیں۔
حرفِ آخر
مختصر طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ شرر کا اسلوب نگارش چند ایک کے باوجود ایک منفرد اسلوب ہے اس میں دبستان میں سرسید کی مقصدیت’ استدلال‘ جوش خطابت شبلی کی طرح اور تخیل کی کارفرمائی آزاد کی طرح بھی نظر آتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ رومانیت‘ پرتکلف منظرنگار‘ خیال آفرینی اور لکھنﺅ کی ٹکسالی زبان ان کی تحریر وہ نمایاں خوبیاں ہیں جو ان کو اردو کے دیگر ادیبوںسے منفرد اور ممتاز بناتی ہیں۔